اپوزیشن اور حکومت، دونوں احتساب کی گرفت میں

رضوان آصف  بدھ 12 اگست 2020
ہر کوئی’’حصہ بقدر جثہ‘‘ لیکر خوشحال ہوتا چلا گیا اور ریاست اور اس کی عوام بد حال ہوتے چلے گئے۔ فوٹو : فائل

ہر کوئی’’حصہ بقدر جثہ‘‘ لیکر خوشحال ہوتا چلا گیا اور ریاست اور اس کی عوام بد حال ہوتے چلے گئے۔ فوٹو : فائل

 لاہور:  بدعنوانی کسی بھی ملک و قوم کیلئے زہر قاتل ہوتی ہے جو ترقی اور فلاح وبہبود کے درخت کو پروان نہیں چڑھنے دیتی۔ پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو گزشتہ چند دہائیوں کے دوران سرکاری سطح پر کرپشن کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

صدور، وزرائے اعظم، وفاقی و صوبائی وزراء، اراکین اسمبلی، بیوروکریٹس ،حکومتی منصوبوں کے ٹھیکیدار ،سب نے جتنا بس چلا اتنا کما لیا ،ہر کوئی’’حصہ بقدر جثہ‘‘ لیکر خوشحال ہوتا چلا گیا اور ریاست اور اس کی عوام بد حال ہوتے چلے گئے۔

گزشتہ 3 دہائیوں کے دوران ہر جمہوری اور غیر جمہوری حکومت نے’’احتساب‘‘ کا نعرہ لگایا لیکن یہ محض ووٹ لینے کا ٹوٹکا تھا ،مکمل نیک نیتی، غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ احتساب کا عمل آج تک شروع نہیں ہو سکا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی مخالفین کا’’بندوبست‘‘ کرنے کیلئے احتساب بیورو کا ادارہ قائم کیا تھا لیکن اس ادارے کے پہلے سربراہ سینیٹر سیف الرحمن نے سیاسی انتقام کی لئے جس انداز میں اس ادارے کا استعمال کیا ،اس نے اس ادارے کی بنیادوں کو دیمک زدہ کردیا تھا۔اس کے بعد جنرل(ر) پرویز مشرف نے بھی سیاسی انجیئرنگ کے لئے اس ادارے کو استعمال کیا اور پھر جب میاں نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنے تو انہوں نے اس ادارے کی تنظیم نو کے اپنے انتخابی وعدوں سے نگاہیں چُرا لیں۔

ہر ذی شعور پاکستانی بخوبی جانتا ہے کہ پاکستان میں کوئی سرکاری کام بنا رشوت دیئے ممکن نہیں، ’جتنا بڑا کام اتنے زیادہ دام‘ ۔ عمران خان کے طرز حکومت، معاشی پالیسیوں اور حکومتی ٹیم کے انتخاب کے حوالے سے عوام کی بڑی اکثریت کو مضبوط دلائل کے ساتھ اختلاف ہے لیکن کپتان کے بدترین سیاسی مخالف بھی عمران خان کی ذات پر کرپشن کا کوئی الزام عائد نہیں کر سکتے۔

عمران خان کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ جب انہیں یقین ہوجائے اور شواہد مل جائیں کہ ان کے کسی ساتھی نے کرپشن کی ہے تو پھر کپتان اپنے اس کھلاڑی کو گراونڈ سے باہر بھیج دیتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان مکمل یقین کرنے میں کافی وقت لگاتے ہیں۔گزشتہ دو برس میں احتساب کے شکنجے میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے ہی ارکان پھنسے ہوئے ہیں لیکن زیادہ بری حالت مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی ہے۔

پیپلز پارٹی کے قائد سابق صدر آصف علی زرداری پر متعدد مقدمات قائم ہیں اور چند میں فرد جرم بھی عائد ہو چکی ہے لیکن وہ صحت جرم سے انکار کر چکے ہیں ۔ان کے خلاف سب سے مضبوط کیس’’اومنی گروپ‘‘ سے متعلقہ ہے جبکہ ان کی بہن فریال تالپور اور وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ  کے خلاف بھی نیب  کیس موجود ہے۔

پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف،یوسف رضا گیلانی ، خورشید شاہ سمیت درجنوں مرکزی رہنما بھی نیب کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز، میاں شہباز شریف، ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز، سلمان شہباز کے خلاف نیب مقدمات قائم ہیں جبکہ ن لیگ کے خواجہ برادران،خواجہ آصف، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی اور رانا ثناء اللہ سمیت درجنوں اہم مرکزی رہنماوںکو نیب کا سامنا ہے۔ اپوزیشن کے خلاف بیشتر مقدمات میں ٹھوس شواہد ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور عوام بھی بعض مقدمات کے حوالے سے یہ یقین رکھتی ہے کہ ان میں بیان کی گئی کرپشن کہانی بہت حد تک درست ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اعلی عدلیہ اور عوام میں یہ تاثر بھی پایاجاتا ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی ’’احتساب‘‘ کے نام پر سیاسی انجیئرنگ کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے اعلی عدلیہ کی جانب سے متعدد مرتبہ سخت ریمارکس سامنے آئے ہیں۔

دوسری جانب احتساب سے متعلقہ ادارے اور حکومت یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سب کچھ غیر جانبداری اور شفافیت کے ساتھ ہو رہا ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ تحریک انصاف کے متعدد اہم سیاسی و حکومتی عہدیدار نیب مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔جیسا کہ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کو آج ایک کیس میں نیب لاہور نے طلب کیا ہے۔ان پر الزام ہے کہ انہوں نے لاہور ایئرپورٹ کی حدود میں زیر تعمیر ایک ہوٹل کو شراب کی فروخت کا لائسنس دینے کیلئے محکمہ ایکسائز پر دباو ڈالا تھا۔

بطور ایکسائز رپورٹر میں بخوبی جانتا ہوں کہ سردار عثمان بزدار کا براہ راست کوئی تعلق اس ہوٹل کے مالکان سے نہیں تھا اور نہ ہی انہوں نے کسی قسم کی رقم حاصل کی تاہم یہ حقیقت ہے کہ بعض بیوروکریٹس اور گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی ایک معروف نیم سیاسی شخصیت نے اس لائسنس کے اجراء کیلئے ایوان وزیر اعلی اور محکمہ ایکسائز کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔یہ ہوٹل فور یا فائیوسٹار ریٹنگ کا سرٹیفکیٹ نہیں رکھتا تھا جبکہ یہ ابھی فعال بھی نہیں ہوا تھا لیکن شدید دباؤ کے سبب اسے لائسنس جاری کیا گیا۔

اس وقت کے ای ٹی او ایکسائز لاہور مسعود وڑائچ نے اپنی رپورٹ میں لائسنس دینے کی مخالفت کی تھی لیکن ان کی رپورٹ کو نظر انداز کر کے ایک دوسرے ای ٹی او محمد علی نوید سے تمام دستاویزات دستخط کروائی گئی تھیں بعد ازاں نیب نے اس معاملے کی انکوائری شروع کی تھی تو تمام سینئر ایکسائز حکام کو طلب کر کے ان کے بیانات قلمبند کیے گئے لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس کیس میں مزید پیشرفت کئی ماہ تک نہیں ہوئی جبکہ دلچسپ امر یہ ہے کہ لائسنس اجراء کے چند ہی ہفتے بعد حکومت نے یہ لائسنس منسوخ کردیا تھا لیکن ہوٹل انتظامیہ لاہور ہائیکورٹ میں جا پہنچی اور ان کی درخواست پر لائسنس منسوخی کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا جا چکا ہے لیکن اب اچانک سردار عثمان بزدار کو اس کیس میں طلب کیا گیا ہے ۔

اس طلبی کے حوالے سے کئی مفروضے بیان کئے جا رہے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مریم نواز کی طلبی کو ’’بیلنس‘‘ کرنے کیلئے وزیر اعلی پنجاب کو ایک کمزور کیس میں طلب کیا گیا ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ بیان کیا جارہا ہے کہ وزارت اعلی پنجاب پر ’’تبدیلی‘‘ لانے کیلئے یہ راستہ اختیار کیا گیا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ فی الوقت سردار عثمان بزدار کو ’’رخصت‘‘ کرنے کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے لہٰذا دوسرا مفروضہ درست نہیں ہے۔

سردار عثمان اب پہلے جیسے ’’نہتے‘‘ نہیں اب وہ بھی کئی داو پیچ سیکھ چکے ہیں اور گزشتہ چند ہفتوں سے وہ انتظامی امور میں بہت متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔ مریم نواز کی گزشتہ روز نیب پیشی کے موقع پر جو صورتحال پیدا ہوئی اس نے مسلم لیگ(ن) کو سیاسی فائدہ پہنچایا ہے ،وہ میڈیا میں ایک بڑی خبر بنوانے اور اپنے کارکن کوفعال کرنے میں کامیاب ہو ئی ہیں لیکن میڈیا میں دکھائی جانے والی فوٹیج میں واضح دکھائی دے رہا ہے کہ ن لیگ کے کارکنوں کو پتھراو کرنے کیلئے ’’کمک‘‘ فراہم کرنے کی پہلے سے منصوبہ بندی کی گئی تھی ،ن لیگی قیادت پتھروں سے بھرے شاپرز اور انہیں لانے والے کالے ویگو ڈالہ کوخفیہ اداروں سے منسوب کر رہے ہیں لیکن بادی النظر میں ان کی الزام تراشی میں صداقت دکھائی نہیں ہے۔

ملک و قوم کو لوٹنے والوں کے خلاف جاری احتساب کی ہر محب وطن پاکستانی حمایت بھی کرتا ہے اور اس کا تحفظ بھی چاہتا ہے کیونکہ پاکستان اور اس کے عوام کی ترقی کیلئے کرپشن کا خاتمہ اشد ضروری ہے لیکن احتساب ایسا ہو کہ ہوتا دکھائی دے اور اس میں غیر جانبداری اور شفافیت بھی موجود ہو۔ سردار عثمان بزدار، عبدالعلیم خان اور سبطین خان کے خلاف مقدمات کی طرح کسی اور مقدمہ میں توازن قائم کرنے کا تاثر بھی نہیں پھیلنا چاہئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔