14اگست، ایک عہد کی تکمیل کا دن!

سینیٹر سراج الحق  جمعـء 14 اگست 2020
(فوٹو: فائل، ایکسپریس)

(فوٹو: فائل، ایکسپریس)

14اگست کا تاریخی دن ایسے حالات میں آیاہے کہ بھارت نے ایک سال سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے کشمیر کو اپنی مستقل ریاست قراردے رکھاہے۔بھارت کا یہ اقدام کشمیر پر بین الاقوامی معاہدوں اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی سراسر نفی ہے ۔5اگست 2019سے جموںو کشمیر میں کرفیو نافذ ہے سواکروڑ لوگوں کو ان کے گھروں میں قید کررکھا ہے۔

بھارت نے کشمیر کی خصوصی صورتحال ختم کر کے اسے اپنا مستقل حصہ قراردیا ۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی اداروں اور چین سمیت بہت سے ممالک نے اس اقدام کو واپس لینے کا مطالبہ کیامگر آج تک اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ یہ موقع ہے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے  مستقل حل کے لیے آگے بڑھے تاکہ خطے کو تباہ کن جنگ سے بچایا جاسکے۔

پاکستان نے اس بار بھی اپنے یوم آزادی 14اگست کو کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر منانے اور قومی پرچم کے ساتھ کشمیرکا جھنڈا لہرانے کا فیصلہ کیا ہے۔بھارت کے پانچ اگست 2019کے اقدام کو ایک سال گزرنے پر ملک میں یوم سیاہ اور یوم استحصال کشمیر منایا گیا ۔ بھارت کے یوم آزادی کوجموں و کشمیر اور پاکستان سمیت پوری دنیا میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جائے گا۔

قوم کو پاکستان کی اساس سے جوڑنا اور نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے روشناس کروانادینی و سیاسی قیادت کی اولین ذمے داری ہے۔ پاکستان مدینہ منورہ کے بعد کرہ ارض پر اسلام کے آفاقی و غیر فانی نظریہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آنے والی پہلی مملکت خدا داد ہے۔ پاکستان اپنے نظریہ کے بغیر ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم !قومی سوچ اور حب الوطنی کے

جذ بات کو پروان چڑھانے میں 14اگست کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ آیندہ نسلوں کو قیام پاکستان کے اعلیٰ و ارفع مقاصد سے ہم آہنگ کرنے اور مملکت خداد کوایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دامے درمے سخنے تحریک پاکستان اور پاکستان کے حصول کے لیے دی گئی بے مثال قربانیوں کی یاد کو زندہ و جاوید رکھیں۔ حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا ، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے جس خواب کی تعبیرحاصل کرنے کے لیے دن رات ایک کیا اور پھر برصغیر کے لاکھوں مسلمانوں نے اپنا خون پیش کرکے جوزمین کاٹکڑاحاصل کیا تھا کیا یہ وہی پاکستان ہے!

پاکستان کے قیام کا مقصد محض ایک ریاست کے حصول تک محدود نہیں تھا بلکہ بقول قائد اعظم ’’ہمارے پیش نظر ایک ایسی آزاد اور خود مختارمملکت کا قیام ہے جس میں مسلمان اپنے دین کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں ‘‘۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اپنے قریباً 114خطابات اور تقریروں میں واشگاف الفاظ میںاس عزم کا اظہار کیا تھاکہ پاکستان کا آئین و دستور قرآن و سنت کے تابع ہوگا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان کا دستورکیسا ہوگا توانھوں نے فرمایاکہ ہمیں کسی نئے دستور اور آئین کی ضرورت نہیں ،ہمارا دستور وہی ہے جو قرآن کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل ہمیں عطا کردیا تھا۔

حضرت قائداعظم محمد علی جناح ؒ نے فرمایا تھا کہ ہم پاکستان محض ایک خطہ زمین کے لیے نہیں بلکہ اسلام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کرناچاہتے ہیں جہاں ہم اپنی زندگیاں قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں اور اسلام کو ایک نظام زندگی کے طور پر اپناسکیں۔ جب تک قوم بانی ٔ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے فرمودات پر عمل پیرا ہوکر علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر حاصل نہیں کر لیتی ، قیام پاکستان کا مقصد پورا نہیں ہوگا۔

دستور پاکستان میںعوام کو بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے اور پسماندہ اور محروم طبقوں کو بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ،عام آدمی کے جائز مفادات کا تحفظ ،ہر شہری کی فلاح و بہبود اور ہر قسم کے استحصال کی بیخ کنی کے ساتھ ساتھ ریاست سے وفاداری کو بڑی اہمیت دی گئی ہے مگر قیام پاکستان کے ساتھ ہی ملک پر انگریز کا پروردہ وہی جاگیر دار طبقہ اقتدار پر قابض ہوگیا جس سے آزادی کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور اسلامیان برصغیر نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کی تھی ۔

ملکی اقتدار پر مسلط اشرافیہ عوام کو غلام اور اپنا خدمت گزار بنا کر رکھنا چاہتی ہے ،اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے سیاسی وڈیرے اور جاگیر دار قانون کی حکمرانی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ان کی سیاست کا مرکز و محورہی اپنی ذات کو ہر قسم کی قانونی پابندیوں سے آزاد رکھنا ہے ۔ملک میں قانون کی بالادستی کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا جب تک خود  صاحب اقتدار طبقہ اس کی پابندی نہیں کرتا اور کوئی بھی ریاست اس وقت تک جمہوری کہلانے کی حق دار نہیں جب تک کہ جمہور کی مرضی کو فائق نہیں سمجھا جاتا۔ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے لیے ہمیں اس کے بنیادی مقاصد کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے اور ملکی خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود اسی بنیاد سے وابستہ ہے ۔

آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ ملک کا ایک سابق صدر اور دووزرائے اعظم کرپشن کے الزامات میں نیب کی پیشیاں بھگت رہے ہیں ۔تین بار وزیر اعظم رہنے والاکرپشن کے جرم میں نااہل ہوچکا ہے ،وزیر اعظم کہتے ہیں کہ میرے ارد گرد مافیاز موجود ہیں۔ سیاسی پارٹیوں میں بڑے بڑے مجرموں نے پناہ لے رکھی ہے،سیاسی جماعتیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں، جس جمہور اور جمہوریت نے پاکستان بنایا تھا وہ جمہوریت جمورا بن چکی ہے اور جمہورکی کوئی سننے والا نہیں ۔آج کل ایک نیا بیانیہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ کے مقابلہ میں سول بالا دستی ناقابل فہم ہے ۔

یہ بیانیہ وہ لوگ پیش کررہے ہیں جو خود اسٹیٹس کو کے ظلم و جبر پر مبنی نظام کی پیداوارہیں ۔مارشل لاء اور ڈکٹیٹر شپ نے ملک و قوم کے ستر سال ضایع کردیے ہیں ،عوام کی حکمرانی کا خواب ابھی تک پورا نہیں ہوسکا اور آمریت کے سائے میں پلنے والی جمہوریت نے بھی ہمیشہ عوام کی امنگوں کا خون کیا ہے۔

انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی خاندانی اور موروثی سیاسی جماعتوں نے جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت مسلط کی۔یہ سیاسی پارٹیاں نہیں ،کلب ہیں جہاں وڈیروں اور جاگیرداروں نے پناہ لے رکھی ہے۔ان لٹیروں نے عوامی اور قومی خدمت کے بجائے قومی وسائل لوٹ کر بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنائیں۔ ملک سے کھربوں ڈالرز لوٹ کر سوئس بینکوں میں منتقل کر دیے گئے ہیں، ہم نے اس کرپشن کے خلاف پارلیمنٹ، عدالت عالیہ اور عوام میں آواز بلند کی اورسب کے احتساب کا مطالبہ کیا، حقیقت یہ ہے کہ آج تک حکمرانی کرنے والوں کی اکثریت کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث پائی گئی ۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کی آزادی کے بغیر پاکستان مکمل نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ تحریک پاکستان کی طرز پر قوم’’تحریک تکمیل پاکستان‘‘ کا آغازکردے تاکہ نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کو سبو تاژ کرنے کی سازشوں کو ناکام بنایا جاسکے ۔کسی بھی مملکت کے نظام کو چلانے کے لیے آئین کی بالادستی اور حکمرانی انتہائی اہمیت رکھتی ہے ۔

ایک بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان قانون کی عمل داری کے معاملہ میں 102ملکوں میں سے 98ویں نمبر پر ہے ۔قانون کی بالادستی نہ ہونے کی وجہ سے کرپشن ،غربت ،جہالت، عدم توازن اور انتہا پسندی جنم لیتی ہے اور احتساب کے بغیر قانون کی حکمرانی بے معنی ہوکر رہ جاتی ہے۔ ہمارے عوام کی اکثریت صرف اس لیے اپنے حقوق سے محروم ہے انھیں اپنے حقوق کاادراک نہیں اور اقتدار پر مسلط جاگیردار،وڈیر ے اور سرمایہ دار سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت عوام کو جہالت کی تاریکیوں کا اسیراور قومیت، لسانیت اور مسلکوں کے تعصبات ابھار کر تقسیم رکھنا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔