یومِ آزادی پر ایک فلنتھروپسٹ کی گفتگو

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 14 اگست 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج ہم وطنِ عزیز کا 73واں یومِ آزادی منا رہے ہیں ۔ اِس پُر سعادت اور پُر مسرت موقع پر آج جب ہم سنگین مصائب و مسائل اور مختلف النوع دباؤ میں گھرے اُن کروڑوں مسلمانوں کو دیکھتے ہیں جو بھارت، مقبوضہ کشمیر، میانمار، فلسطین میں رہ رہے ہیں تو120ارب ڈالر کے غیر ملکی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہونے کے باوجود پاکستان کی سرزمین ہمیں جنت نظیر محسوس ہوتی ہے۔

اِس موقع پر دل کی گہرائیوں سے ہم بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒکی عظمتوں کو سلام و سیلوٹ پیش کرتے ہیں۔ اُن کی عظیم الشان خدمات کے سامنے ہمارے سر جھک جھک جاتے ہیں۔

آج مقبوضہ کشمیر، بھارت، میانمار اور فلسطین کے مسلمان شائد اس لیے بھی کسی منزل سے ہمکنار نہیں ہو پا رہے کہ اُن کے پاس محمد علی جناح ایسا کوئی بے لوث، دلیر اور ذہین لیڈر نہیں ہے۔ آزادی کے اِن لمحات میں مجھے دو شاندار کتابیں پڑھنے کے موقع ملے ہیں۔ ایک فِکشن ہے جب کہ دوسری سوانح حیات مگر دونوں ہی برِ صغیر کی تقسیم کے موضوع پر مشتمل ۔دونوں کتابیں بھارت کے دو ممتاز ہندوؤں کی تحریر کردہ ہیں۔

ایک مشہور ادیب ہیں اور دوسرے ممتاز ترین بھارتی مصور لیکن مشہور بھارتی سیاسی خاندان کے فرزند۔ 1117 صفحات پر مشتمل بھارتی ہندو ادیب، یشپال، کا لکھا گیا ضخیم ناول ’’جھوٹا سچ‘‘ ہمارے سامنے وہ چلتی پھرتی تصویر لے آتا ہے جب لاہور میں تحریکِ پاکستان کا آغاز ہورہا تھا اور پھر رفتہ رفتہ اس میں تیزی آتی گئی۔ پاکستان بنانے کا مطالبہ طاقتور اور با وسائل ہندوؤں پر کیسے گراں گزررہا تھا اور وہ انگریز سامراج کے ساتھ مل کر تحریکِ پاکستان کی یلغار کو روکنے کے لیے کیسے کیسے ہتھکنڈے بروئے کار لا رہے تھے، یہ تمام جزئیات اس ناول میں سانس لیتی محسوس ہوتی ہیں ۔ پاکستان کے مطالبے نے لاہور کے پُر امن اور جمے جمائے سماج کو کس طرح اتھل پتھل کر دیا تھا، یہ تفصیلات پوری سفاکی کے ساتھ ہمیں اس ناول میں ملتی ہیں۔

اور تقسیم کے بعد نئے بھارت میں سیاستدان اور مقتدرین کیسے کیسے گل گل کھلانے لگے تھے، یہ داستان بھی اس ناول میں موجود ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ناول نگار نے ہندو ہونے کے باوجود کوئی واقعاتی ڈنڈی نہیں ماری۔ سابق بھارتی وزیر اعظم ( اندر کمار گجرال) کے چھوٹے بھائی، ستیش گجرال،کی سوانح حیات

A Brush With Lifeمیں بھی تقسیمِ ہند کی المناک کہانیاں ہیں (دونوں بھائی اپنے رکنِ پنجاب اسمبلی اور وکیل باپ کے ساتھ جہلم میں رہتے تھے) خصوصاً جب بلوائیوں نے جہلم کی معصوم خواتین کو اغوا کرنے کی وارداتیں کیں۔

یہ دونوں کتابیں پڑھ کر دل افسردگی کے بوجھ تلے دب گیا ہے۔ اسی اثنا میں راقم کو پاکستان کے معروف صنعتکار، بزنس مین، مصنف اور عالمی شہرت یافتہ فلنتھروپسٹ جناب سید بابر علی کا نہائت شاندار اور دل افروز انٹرویو سننے اور دیکھنے کا موقع ملا ہے ۔ بابر علی صاحب کی سوانح حیاتLearning From Othersایک دل افروز اور چشم کشا کتاب ہے۔ وہ لاہور کے ایک اہم تعلیمی ادارے کے بانی بھی ہیں۔ اُن کا یہ انٹرویو دو حصوں پر مشتمل ہے اور یُو ٹیوب پر پڑا ہے۔ مشہور اینکر پرسن اور پنجاب اسمبلی کی رکن، جو سید بابر علی صاحب کی بھانجی بھی ہیں، نے یہ انٹرویو نجی حیثیت میں کنڈکٹ کیا ہے۔

انٹرویو مذکور میں بابر علی بتاتے  ہیں: ’’ تشکیلِ پاکستان سے قبل مَیں لاہور کے جن اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھا، مسلمان طلبا کے ساتھ سکھ اور ہندو کلاس فیلوز میرے جگری دوست تھے۔ مَیں ہندو اور سکھ دوستوں کے گھروں میں آزادانہ آتا جاتا تھا اور وہ میرے گھر میںآتے جاتے تھے۔

میرے ہندو اور سکھ دوستوں کی مائیں مجھے اپنے بیٹوں کی طرح پیار کرتی تھیں اور میری والدہ میرے ہندو سکھ دوستوں کو پیار دیتی تھیں۔ ہمارے درمیان کوئی اجنبیت، بُعد اور دُوری نہیں تھی۔ ‘‘ یہ دراصل قبل از تقسیمِ ہند پنجاب کا عمومی کلچر تھا۔ سید بابرعلی صاحب مزید بتاتے ہیں: ’’لالہ میلا رام لاہور کا بہت بڑا رئیس اور دولتمند صنعتکار ہندو تھا۔ محرم شریف آتا تو وہ اپنے بیٹوں کے ساتھ ننگے سر اور ننگے پاؤں ماتمیوں اور ماتمی جلوس کو ٹھنڈا پانی، شربت پلاتا‘‘۔ اب جب کہ محرم شریف کے طلوع ہونے میں ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے، یہ واقعہ ہمیں بتاتا ہے کہ پاکستان بننے سے قبل ہمارے ہاں رواداری کتنی مستحکم تھی۔ سید بابر علی صاحب پاکستان بننے سے پہلے لاہور کے بارے میں ایک اور اہم واقعہ سناتے ہیں۔

’’لاہور کے لالہ میلا رام ہی نے سب سے پہلے لاہور شہر میں بجلی متعارف کروائی تھی۔ لالہ جی نے اپنی ٹیکسٹائل مِل کے لیے لاہور کا پہلا بجلی گھر بنایا تو سب سے پہلے کسی مندر، گرجا یا گردوارہ کو بجلی فراہم نہیں کی بلکہ بجلی سب سے پہلے داتا گنج بخشؒ کے دربار شریف کو فراہم کی۔‘‘ بابر علی صاحب ہمیں پاکستان بنتے ہی یہاںلُوٹ مار اور ( دولتمند ہندوؤں کی چھوڑی گئی قیمتی جائدادوں پر)ناجائز قبضوں کی کہانی بھی سناتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں :’’تقسیم کے فوراً بعد بھارت نے پاکستان سے کہا تھا کہ دونوں نَو زائد ممالک کا ایک مشترکہ کمیشن بیٹھنا چاہیے جو ان حقائق کا فوری جائزہ لے کہ دونوں ملکوں کے مہاجرین اپنے اپنے سابقہ آبائی ملک میں کتنی، کہاں اور کیسی جائیدادیں چھوڑ کر آئے ہیں لیکن پاکستان کی بیوروکریسی نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہُوئے ناکام بنا دیا۔ ایسا اس لیے کیا گیا کہ اگر اس پر من وعن عمل کیا جاتا تو کئی قبضہ گروپ بے نقاب ہو جاتے۔‘‘ آج کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسائل و مصائب کا حل کیا ہے؟ سید بابر علی اپنے اس دلچسپ انٹرویو میں اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں:’’جھوٹ بولنا بند کر دیا جائے۔‘‘

مذکورہ بالا انٹرویو میں پاکستان کے نامور فلنتھروپسٹ اور ایجوکیشنسٹ، جو ممتاز ترین امریکی ادارے (American Academy of Arts and Sciences) کے رکن بھی ہیں، ہمیں بتاتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد کئی سال تک دونوں ممالک کے غریب عوام بھی ایک دوسرے سے آزادانہ میل ملاقاتیں کرتے رہتے تھے۔ ویزہ بھی آسانی سے مل جاتا تھا لیکن پھر رفتہ رفتہ پاکستان اور بھارت کے عوام کو ایک دوسرے سے دُور کر دیا گیا۔ لیکن حیرانی کی بات ہے کہ دونوں ممالک کے انتہائی خواص اور مقتدر افراد ایک دوسرے سے بغلگیر بھی ہوتے رہے اور اُن کی ظاہری و خفی ملاقاتیں بھی جاری رہیں ۔

دشمنی صرف عوامی سطح پر  بروئے کاررہی۔ یومِ آزادی پر ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر بھارتی ہندوؤں کے ساتھ اتنی ہی دشمنی ہے تو پھر ہمارے ایک سابق غیر منتخب حکمران کے سرکاری گھر میں بھارتی اداکار بچوں سمیت کئی کئی ہفتے کیوں مہمان بنائے جاتے رہے؟ انھیں انتہائی قیمتی تحائف (جو ہمارے ٹیکسوں سے خریدے جاتے تھے) کیوں پیش کیے جاتے تھے ؟ ہمارے ایک سابق منتخب وزیر اعظم نے اپنی نواسی کی شادی کے موقع پر اعلیٰ سرکاری بھارتیوں کو اپنے گھر میں مدعو کیوں کیا؟ ہمارے کئی نامور کھلاڑی بھارتی خواتین سے آزادانہ شادیاں رچانے میں کیوں کامیاب رہے؟

پاک بھارت Enmity ان افراد کے راستے مسدود کیوں نہ کر سکی؟ اس پاک بھارت ’’تاریخی‘‘ دشمنی اور عناد کے باوجود پاکستان نے 14 ارب روپے کی خطیر رقم سے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال میں سکھوں کے مبینہ مقدس مقام ’’دربار کرتارپور صاحب‘‘کو نئی وسعت بھی دی ہے اور اِس کی تزئینِ نَو بھی کی ہے ۔ پاکستان کے 73 ویں یومِ آزادی کے موقع پر یہ نئے پاکستان کا نیا بیانیہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔