شجر کاری، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں

 جمعـء 14 اگست 2020
رسول کریمؐ نے ماحول کو پاک صاف رکھنے اور فضا کو آلودگی سے محفوظ کرنے کی تعلیم و تلقین۔ فوٹو: فائل

رسول کریمؐ نے ماحول کو پاک صاف رکھنے اور فضا کو آلودگی سے محفوظ کرنے کی تعلیم و تلقین۔ فوٹو: فائل

اسلام دین فطرت ہے اور دین اسلام محض عقائد و عبادات کے مجموعے کا نام نہیں بل کہ یہ ایک مکمل اور جامع نظام حیات ہے۔

اس میں انسانی زندگی کے ہر پہلو اور ہر رخ کے لیے ابدی ہدایات اور احکام موجود ہیں، ان احکام کی روشنی میں جو معاشرہ تشکیل پاتا ہے اسے حسن کردار کا مظہر، انفرادیت اور اجتماعیت کا نہایت حسین امتزاج کہا جاسکتا ہے۔ اسلامی تعلیم کا بنیادی مقصد انسانی معاشرے اور ماحول کی اصلاح کرنا ہے، کیوں کہ ماحول کا اثر انسان کی جسمانی بناوٹ، رہائش، طرز حیات، غذا اور دیگر سرگرمیوں پر پڑتا ہے۔

اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے زمین پر فساد کی ممانعت فرمائی ہے تاکہ ماحول کو ہر طرح کے شر و فساد سے بچایا جاسکے۔ کیوں کہ ماحول کی بہتری میں انسانی زندگی کی بہتری پنہاں ہے۔ آج ہمارا ماحول مختلف قسم کی آلودگی میں گھرا ہوا ہے جس کی وجوہات صنعتوں اور کارخانوں سے اٹھنے والا دھواں، جنگلات کی کٹائی ہیں۔

اس کے علاوہ قابل ذکر جنگلات کی اندھا دھند کٹائی نے نہ صرف ماحول کو مسموم کیا بل کہ موسموں کی ترتیب کو بھی متاثر کیا۔ موسمی تبدیلی کی وجہ سے مجبوراً ہجرت، صحت کے مسائل، خوراک کے مسائل، جنگلی حیات کا ناپید ہونا، صاف پانی کی قلّت، معاشی مسائل، گلوبل وارمنگ اور دیگر مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ جس کے  لیے عالمی تنظیمیں رقوم کے خرچ کرنے کے علاوہ وہ ذرائع بھی استعمال کر رہی ہیں جس کے ذریعے گلوبل وارمنگ ، ہیٹ اسٹروک اور اس جیسے دیگر مسائل سے نمٹا جا سکے۔ ان مسائل سے ماحول کو دور رکھنے کے  لیے شجر کاری  کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

انسانی جسم میں جس طرح پھیپھڑے اہمیت رکھتے ہیں اسی طرح زمین پر درختوں کی اہمیت ہے۔ درخت قدرتی فضائی فلٹر کا کام کرتے ہیں جس کے ذریعے ہوا کو صاف بنانا ممکن ہے، صرف ایک مربع میل پر پھیلے ہوئے درخت موسمِ سرما کے ایک دن میں 29 ٹن آکسیجن خارج کرتے ہیں جب کہ ایک صحت مند آدمی کو دن میں صرف دو پونڈ آکسیجن درکار ہوتی ہے جہاں درخت ماحول کی خُوب صورتی کا سبب بنتے ہیں، وہاں ہوا کو صاف رکھنے طوفانوں کا زور کم کرنا، آبی کٹاؤ روکنے، آکسیجن میں اضافے اور آب و ہوا کے توازن برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

ایک بڑا درخت 36  بچوں کو آکسیجن مہیا کرتا ہے جب کہ دس بڑے درخت ایک ٹن ایئر کنڈیشنر جتنی ٹھنڈک پیدا کرتے ہیں اور ساتھ ہی فضائی آلودگی اور شور کم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے آج سے 1400 سال پہلے جب نہ تو گاڑیوں کا وجود تھا نہ دیوہیکل کارخانے  وجود میں آئے تھے نہ جنگلات فنا ہورہے تھے اور نہ ہی دریا  زہر اگل رہا تھا، اس وقت آپ ﷺ نے ماحول کو پاک و صاف رکھنے اور فضا کو آلودگی سے محفوظ کرنے کی تعلیم و تلقین، اصولی ہدایات اور عملی اقدامات تینوں طرح سے ماحول کی پاکیزگی کو یقینی بنایا تاکہ انسان خود بھی ماحول کی پاکیزگی سے لطف اندوز ہوسکے اور دوسرے جان داروں کو بھی راحت پہنچا سکے ۔

محسن انسانیت حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے شجر کاری کو فروغ دینے کے لیے ایمان والوں پر شجر کاری کو صدقہ قرار دیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان دَرخت لگائے یا فَصل بوئے پھر اس میں سے جو پرندہ یا اِنسان یا چوپایا کھائے تو وہ اس کی طرف سے صَدَقہ شُمار ہوگا۔‘‘ (صحیح البخاری)

آپ ﷺ نے شجر کاری کو اتنی اہمیت دی کہ اس عمل کو یہ کہتے ہوئے قیامت تک جاری رکھنے کا حکم فرمایا کہ اگر قیامت کی گھڑی آجائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں پودا ہے اور وہ اس کو لگا سکتا ہے تو لگائے بغیر کھڑا نہ ہو۔ (مسند احمد)

آپ ﷺ کی تعلیمات میں ناصرف درخت لگانے کے متعلق احکامات ملتے ہیں بل کہ درخت لگا کر اس کی حفاظت کے بھی واضح  احکامات ملتے ہیں کہ جو کوئی درخت لگائے پھر اس کی حفاظت اور نگرانی کرتا رہے یہاں تک کہ و ہ درخت پھل دینے لگے اب اس درخت کا جو کچھ نقصان ہوگا وہ اس کے  لیے اﷲ کے یہاں صدقہ کا سبب ہوگا۔ (مسند احمد)

عرب میں بالعموم ببول یا بیری کے درخت ہوا کرتے تھے، نبی کریم ﷺ نے بیری کے درخت کے بارے میں فرمایا: ’’جو بیری کا درخت کاٹے گا، اسے اﷲ تعالیٰ اوندھے مُنہ جہنم میں ڈالیں گے۔‘‘ (سنن ابو داؤد)

آپ ﷺ نے جہاں عام دنوں میں درخت کاٹنے کی ممانعت فرمائی وہاں دورانِ جنگ بھی، نہروں کو آلودہ کرنے کی اور درختوں کو کاٹنے کی ممانعت فرما کر ناصرف آبی ذخائر کی حفاظت کی تعلیم دی بل کہ ماحول کو آلودہ ہونے سے بھی بچایا۔ سیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب اسلامی لشکر کو مشرکین کی طرف روانہ فرماتے تو یوں ہدایات دیتے: ’’کسی بچے کو قتل نہ کرنا، کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بوڑھے کو قتل نہ کرنا، چشموں کو خشک و ویران نہ کرنا، درختوں  کو نہ کاٹنا۔‘‘ (بیہیقی)

درج بالا احادیث کی روشنی میں شجر کاری کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا جارہا ہے۔ شجر کاری ناصرف ایک صدقہ و ثواب کا ذریعہ ہے بل کہ اس کے ذریعے گلوبل وارمنگ اور ہیٹ اسٹروک جیسے سنگین مسائل سے بھی نمٹا جاسکتا ہے۔

تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اگر گلوبل وارمنگ کو روکا نہیں گیا تو یہ دنیا کو صفحۂ ہستی سے مٹا سکتی ہے اور اس کا حل ہے تو صرف شجرکاری۔ شجرکاری سے گلوبل وارمنگ کو زیر کیا جاسکتا ہے۔ مگر افسوس! آج بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلی ہیں۔ آج بھی ہم نے شجر کشی کو بے رحمی سے جاری رکھا ہوا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں، ان کی دیکھ بھال کی جائے اور آنے والی نسل کو بھی شجرکاری کے فوائد اور اہمیت سے واقف کرایا جائے اور نسل انسانی کے دائمی تحفظ کے  لیے ناصرف ایک دن بل کہ پورا سال شجر کاری مہم کا جاری رکھا جائے۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔