14اگست 1947-2020 ء: تقسیم برصغیر کا عمل جو آج تک ادھورا ہے

عبید اللہ عابد  جمعـء 14 اگست 2020
بھارت نے آزادی کے بعد ان تمام علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کیا جنہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرناتھا۔ فوٹو: فائل

بھارت نے آزادی کے بعد ان تمام علاقوں پر بزور طاقت قبضہ کیا جنہیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرناتھا۔ فوٹو: فائل

تنازعات کو بروقت حل نہ کیا جائے تو وہ انڈے بچے دیتے ہیں اور پھر  ہر کسی کی جان کے درپے ہوجاتے ہیں، کسی کو بھی جینے نہیں دیتے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ تقسیم برصغیر کا معاملہ انصاف اور اصولوں کی بنیاد پر ٹھیک ٹھیک انجام پاتا، نتیجتاً آج پاکستان اور بھارت اچھے ہمسائیوں کی طرح جیتے۔ تاہم بُرا ہو دونوں ملکوں کی سرحدوں کا تعین کرنے والوں کا، وہ بہت سے کام ادھورے چھوڑ کر چلتے بنے یا پھر انھوں نے ایک فریق کا ساتھ دیا اور اصولوں کو دفن کردیا۔ مثلاً تقسیم کا فارمولا طے پایا تھا کہ جہاں جس قوم کی اکثریت ہے، وہ علاقہ اسی سے مطابقت رکھنے والے ملک کو دیا جائے گا۔

بنیادی طور پر تقسیم بنگال اور پنجاب ہی کی ہونی تھی۔ اگرچہ پہلے پہل قائداعظم محمد علی جناح پنجاب کی تقسیم کے خلاف تھے، سبب یہ تھا کہ متحدہ پنجاب میں مسلمانوں کی آبادی 53.2 فیصد تھی۔ ہندو29فیصد تھے جبکہ سکھ 14فیصد۔ یہ اعدادوشمار  پروفیسر گوپال کرشن کی کتاب’’ Demography of Punjab 1849-1947 ‘‘سے لئے گئے ہیں، وہ مسلمان تھے نہ ہی پاکستانی۔ چندی گڑھ کی پنجاب یونیورسٹی میں جغرافیہ کے پروفیسر تھے۔ اصولی طور پر پنجاب کا علاقہ پورے کا پورا پاکستان کا حصہ بنناچاہئے تھا لیکن انگریز انتظامیہ نے تقسیم کے اصول کا پہلا خون پنجاب میں کیا جس نے یہاں خون کی ندیاں بہادیں۔

بنگال میں بھی گڑبڑ کی گئی۔ سرحدیں کھینچنے والے انگریزوں کے اصول مختلف جگہوں پر مختلف رہے۔ کہیں پر اضلاع کی بنیاد پر کی گئی اور کہیں پر تحصیل کی بنیاد پر۔ حالانکہ تحصیل کی بنیاد پر تقسیم کا تصور منصوبے میں کہیں نہیں تھا۔چونکہ لارڈماؤنٹ بیٹن قائداعظم اور جواہرلال نہرو سے منوا چکے تھے کہ ریڈکلف کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا ، اسے بہرحال تسلیم کیا جائے گا۔ پھر جو کچھ ہوا ، اس میں ماؤنٹ بیٹن، ان کی اہلیہ لیڈی ماؤنٹ بیٹن اور جواہرلال نہرو کا باہمی گٹھ جوڑ اثر انداز ہوا۔ قائداعظم زیادتی دیکھ کر بھی احتجاج نہ کرسکے کہ وہ اصولوں کے پکے تھے، زبان دے چکے تھے کہ وہ کمیشن کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔

کمیشن نے بعض مسلم اکثریتی اضلاع بھارت کو دیدیے مثلاً مرشد آباد اور مالدا جہاں70 فیصد آبادی مسلمانوںکی تھی۔  تین جون کے منصوبے انھیں مشرقی پاکستان میں شامل ہونا تھا۔ اسی طرح پنجاب میں  خصوصاً فیروز پور، زیرہ، نکودر، جالندھر، گورداسپور، پٹھانکوٹ، بٹالہ، ہوشیارپور، دسوہہ کو بھارت میں شامل کر دیا۔ حالانکہ یہ اضلاع مسلم اکثریتی تھے۔ فیروز پور جہاں ستلج اور بیاس کا سرچشمہ تھا،اسے پہلے پاکستان کو دیا گیا لیکن بعد میں ایک ہندو راجا کی دھمکی پر فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے اسے بھارت کو دے دیا گیا۔سلہٹ کا تعلقہ کریم گنج بھی بھارت کو دے دیا گیا حالانکہ سلہٹ کا فیصلہ ریفرنڈم کے ذریعے ہوا تھا اور وہاں کی 57 فیصد آبادی نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ سنایا تھا ۔ بھارت کے دیے جانے والے ان علاقوں میں آج بھی مسلمان اکثریت میں ہیں۔

کانگریس اور انگریزوں نے باہمی گٹھ جوڑ میں ضلع کی بنیاد پر تقسیم کو اچانک تحصیل کی بنیاد پر کرلیا۔ مسلم اکثریتی ریاست کشمیرکو بھی بھارت کے حصے میں شامل کردیاگیا۔کشمیر میں بھارت کی رسائی کے لئے ضروری تھا کہ ضلع گورداسپور کو پاکستان میں شامل نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس کی چار تحصیلوں میں سے ایک شکر گڑھ پاکستان کو دیدی گئی جبکہ پٹھان کوٹ، بٹالہ اور  گورداسپور انڈیا کو۔ حالانکہ  تقسیم کے فارمولے میں یہ ضلع پورے کا پورا پاکستان کے حصے میں آرہاتھا۔

کانگریس اور انگریزوں کی بدنیتی کو جماعت اسلامی کے بانی سیدابوالاعلیٰ مودودی نے بھانپ لیا تھا ۔ جماعت اسلامی کے سابق امیر میاں طفیل محمد نے لکھا ہے:

’’ 3 جون 1947 ء کو جب حکومت برطانیہ نے تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا اعلان کیا تو میں نے یہ اعلان مرکز جماعت دارالسلام میں مولانا مودودی کے ہمراہ سنا تھا۔ ابتدائی اعلان میں یہ تاثر پایا جاتا تھاکہ ضلع گورداسپور پاکستان میں شامل ہوگا جبکہ دونوں آزاد ریاستوں بھارت اور پاکستان کی قطعی حدود کا اعلان چودہ اگست کو باؤنڈری کمیشن نے کرنا تھا۔ چودہ اگست کو باؤنڈری کمیشن نے بھارت اور مغربی پاکستان کے درمیان سرحد کا اعلان کرتے ہوئے ضلع گورداسپور کو بھارت میں شامل کردیا۔ یہ اعلان سنتے ہی مولانا مودودی نے کہا:

’’گورداسپور کی بھارت میں شمولیت کشمیر کے بھارت سے الحاق اور اس پر بھارت کے تسلط کی کھلی سازش ہے۔ پاکستان کو فوراً ایک آدھ بٹالین فوج بھیج کر ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کر دینا چاہیے ورنہ ایک مرتبہ بھارت ریاست میں گھس گیا تو اسے بے دخل کرنا آسان کام نہیں ہوگا۔‘‘ یہ ایک الگ بات ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے مولانا مودودی کی بات پر کان نہ دھرے اور کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

معروف دانشور، محقق، مؤرخ اور سابق وفاقی وزیرتعلیم ڈاکٹراشتیاق حسین قریشی اپنی کتاب ’’جدوجہدِ پاکستان‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’ایسا کوئی ایک علاقہ بھی، جس پر ہندو اپنا کوئی جھوٹ موٹ کا حق جتا سکتے تھے، مسلمانوں کے حصے میں‘‘نہیں آنے دیاگیا۔ ’’ایسے علاقے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، ہندو ؤں کو چلے گئے، جو نہریں پاکستان کو سیراب کرتی تھیں،ان کی سرابہ گاہیں (سرچشمہ) ہندوؤں کو مل گئیں …… اورسب سے زیادہ یہ کہ مسلم اکثریت کا ضلع گرداسپور ہندوؤں کے پاس چلاگیا تاکہ انھیں ریاستِ جموں و کشمیر میں داخل ہوجانے کا راستہ مل جائے۔‘‘

تقسیم کے منصوبے میں تین ریاستوں کشمیر ، جونا گڑھ اور حیدرآباد  کو چھوڑ دیا گیا کہ وہ چاہیں تو پاکستان سے مل جائیں یا انڈیا کے ساتھ  یا پھر آزاد خودمختار بھی رہ سکتی ہیں۔ یکم نومبر 1947ء  تک، کشمیر ، ریاست جونا گڑھ  اور حیدرآباد کے حکمران دونوں آزاد ممالک میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق یا پھر آزاد حیثیت سے رہنے کا فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے۔ ایسے میںانڈیا کے آخری وائسرائے اور گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اُن ریاستوں میں استصواب رائے کروانے کی تجویز پیش کی جہاں کے حکمران اکثریت کے بجائے اقلیتی آبادی سے تھے۔ مثلاً کشمیر میں مسلمان اکثریت میں تھے اور ریاست حیدرآباد میں ہندو۔

پاکستان استصواب رائے کی راہ اختیار کرنے پر تیار ہوگیا۔ بھارت نے بھی اقرار کرلیا تھا لیکن پھر وہ پیچھے ہٹ گیا اور ایک  فطری اور منصفانہ راہ اختیار کرنے سے انکاری ہوگیا۔ حالانکہ شمال مغربی سرحدی صوبہ ( موجودہ خیبرپختونخوا) میں ریفرنڈم دوسرے لفظوں میں استصواب رائے کروایاگیا تھا،6 سے 14جولائی1947ء کو ہونے والے اس ریفرنڈم میں 99.02 فیصد عوام نے پاکستان کے الحاق کا فیصلہ سنایا۔ یہی راہ سلہٹ میں بھی اختیار کی گئی۔

بھارت نے ریاست حیدرآباد ، جونا گڑھ اور کشمیر کے حوالے سے یہ راہ اختیار کرنے سے اس لئے انکار کردیا کہ اسے صاف نظر آرہاتھا کہ حیدرآباد اور جونا گڑھ تو اسے بہ آسانی مل جائیں گی، چاہے وہاں استصواب رائے نہ بھی کرایا جائے البتہ اس صورت میں کشمیر پاکستان کا حصہ یقینی طور پر بن جاتا  اور حیدرآباد بھی۔ حیدرآباد جغرافیائی اعتبار سے انڈیا کے اندر ایسے واقع تھا کہ اس کا بحیثیت آزاد ریاست یا پاکستان سے الحاق کرکے جینا کافی مشکل تھا۔ وہ چاروں اطراف سے بھارتی ریاستوں میں گھرا ہوا تھا۔

یہ الگ بات ہے کہ ریاست حیدرآباد کے حکمران پاکستان سے الحاق چاہتے تھے جبکہ کشمیر کے حکمرانوں کا جھکاؤ بھارت کی طرف محسوس ہو رہا تھا۔ بھارت کے لئے مشکل تھی کہ اگر وہ حکمرانوں کی رضا کو الحاق کی بنیاد تسلیم کرتا تو ریاست حیدرآباد جیسی سونے جواہرات اور روپے پیسے سے بھری ہوئی ریاست پاکستان کے ساتھ جاتی تھی ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ اگرچہ ریاست حیدرآباد میں ہندو اکثریت میں تھے لیکن وہ اپنے ریاستی حکمرانوں کے پاکستان کی طرف میلان پر راضی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے جب ’’آپریشن پولو‘‘ کے ذریعے  حیدرآباد پر قبضہ کرنے  کی کوشش کی تو اسے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس آپریشن کے دوران بھارتی فوج نے اڑھائی لاکھ افراد کو ہلاک کیا۔ اگر وہاں کی آبادی اپنے حکمرانوں کے ساتھ نہ ہوتی اور بھارت کے ساتھ الحاق کی خواہاں ہوتی تو بھارتی فوج کو عوامی سطح پر کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑتا، 36 ہزار بھارتی فوجیوں کو محض چھ ہزار  ریاستی فوجیوں (اگرچہ فوجیوں کی مجموعی تعداد 24ہزار تھی لیکن18ہزار تربیت یافتہ نہ تھے) کو شکست دینا کچھ مشکل نہ ہوتا اگر وہاں کی آبادی بھارت کے ساتھ ہوتی۔

سقوط حیدرآباد پر تحقیق کرنے والی پروفیسر اور حیدرآباد (انڈیا) کے سینٹ اینز کالج میں صدر شعبہ تاریخ ڈاکٹر اوما جوزف کے مطابق ’’انڈیا کے لیے یہ بڑی تشویش کی بات تھی کہ اگر حیدرآباد پاکستان میں شامل ہو جاتا ہے تو یہ انڈیا کے بیچوں بیچ ملک کے لیے مستقل پریشانی کا سبب ہوگا … حیدرآباد  تو انڈیا کے بالکل درمیان میں تھا۔ اسی لیے سردار پٹیل نے حیدرآباد کو انڈیا کے پیٹ میں السر سے تعبیر کیا تھا۔‘‘

ریاست حیدرآباد کا معاملہ بھارتی فوجی قبضہ پر ہی ختم نہ ہوا بلکہ یہ ایک تنازعہ کی صورت میں اقوام متحدہ میں پہنچا لیکن وہاں اس معاملے کو سردخانے میں ڈال دیاگیا۔ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ اقوام متحدہ تنازعات حل کرنے میں ناکام رہا، اس کے وجہ سے تنازعات کے بیج پھلے پھولے اور  ایسے تناور درخت بن گئے جو خطے کے لئے مسائل کا سبب بنے۔

تقسیم برصغیر کے موقع پر ریاست جونا گڑھ کے حکمران محمد محبت خان جی نے واضح طور پر ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کر دیا تھا ۔ پاکستان میں انضمام کے اعلان کے بعد جونا گڑھ میں کوئی بڑا فساد نہیں ہوا تھا حالانکہ جونا گڑھ کی80 فیصد سے زیادہ آبادی ہندو تھی۔ اس بات کا اس کے علاوہ کیا مطلب ہوسکتا ہے کہ ریاست کے تمام لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق کے حامی تھے۔ پھر بھارت نے اس پر بھی قبضہ کرلیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سب کچھ گاندھی جی کی آنکھوں کے سامنے ہوا جو کہا کرتے تھے:

’’ کشمیر کے عوام اگر پاکستان میں جانا چاہتے ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے پاکستان جانے سے روک نہیں سکتی لیکن  اسے پوری آزادی اور آرام کے ساتھ اپنی رائے رکھنے دیا جائے‘‘۔

خود پنڈت جواہر لال نہرو بھی  ریاست جموں و کشمیر کے فیصلہ میں کشمیری عوام کی رائے  ہی کو بنیاد قرار دیتے تھے۔

31 اکتوبر 1947 کو وزیراعظم پاکستان کے نام لکھے گئے ٹیلی گرام میں پنڈٹ لال نہرو نے کہا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق مہاراجہ ہری سنگھ حکومت کی درخواست پر ہوا، ایسی ریاست جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، اس کے الحاق کا فیصلہ کشمیر کے عوام ہی کرسکتے ہیں۔

2 نومبر 1947 کو ریڈیو پر نشر ہونے والے پیغام میں بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ بحران کی صورتحال میں ہم کشمیری عوام کی رائے جانے بغیر حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے،

3 نومبر 1947 کو نشر ہونے والے خطاب میں بھارتی وزیراعظم نے کہا کہ ہم اعلان کرتے ہیں کہ کشمیر کی قسمت کا آخری فیصہ بلاآخر وہاں کے لوگوں نے ہی کرنا ہے۔

جواہر لال نہرو نے 21 نومبر 1947 کو وزیراعظم پاکستان کے نام لکھے گئے خط میں کہا کہ وہ متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ جیسے ہی امن قائم ہوگا کشمیر کا الحاق عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے تحت ریفرنڈم کے ذریعہ ممکن بنایا جائے گا۔

25 نومبر 1947 کو بھارتی آئین ساز اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے جواہر لال نہرو نے کہا کہ کشمیر کا حق خودارادیت کا فیصلہ غیرجانبدار ٹربیونل یعنی اقوام متحدہ کے ذریعہ ہی ممکن بنائیں گے۔

5 مارچ 1948 کو بھارتی آئین ساز اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے نہرو نے کہا کہ ہم کشمریوں کو آزادانہ طور پر شفاف ووٹنگ کا حق دینے کے پابند ہیں۔

16 جنوری 1951 کو اپنی پریس کانفرنس میں جواہر لال نہرو نے کہا کہ حتمی فیصلہ کشمریوں نے خود کرنا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ رہنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان اور بھارت پہلے ہی اس بات پر اتفاق رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔

6 جولائی 1951 کو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی رپورٹ میں نہرو نے کہا کہ کشمیر کو بھارت اور پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھنا ہوگا، کشمیری زمینیں بکاو مال نہیں۔11 ستمبر 1957 کو اقوام متحدہ کے نمائندے کو لکھے گئے خط میں نہرو نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے سے حل کرنے کی یقین دہانی کراتے ہیں۔

حیرت ہے کہ ان سارے بیانات کے باوجود بھارت نے استصواب رائے کے مطابق کشمیر کے فیصلے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کیں۔ پہلے اقوام متحدہ کے تحت استصواب رائے کے اصول کو مانا، پھر اس سے پیچھے ہٹتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی بات کی اور گزشتہ کئی برس سے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہاہے۔

آج نرم سے نرم الفاظ استعمال کئے جائیں تو یہی کہاجائے گا کہ تقسیم برصغیر کا عمل تاحال ادھورا پڑا ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے درمیان متعدد بار معرکہ آرائی ہوچکی ہے۔ بھارت کشمیر پر اپنا قبضہ مسلسل مضبوط کرنے کے اقدامات کر رہاہے  جبکہ کشمیری قوم اس قبضے کے خلاف ہر اعتبار سے مزاحمت کررہی ہے۔انیس سو سنتالیسں میں جب بھارتی افواج نے کشمیر پر قبضہ کیا تو اس کے بعد قریبا ڈیڑھ عشرہ تک مقبوضہ کشمیر میںایک وزیراعظم ہوا کرتا تھا لیکن پھر اسے وزیراعلیٰ کا نام دیدیا گیا۔

اب وہاں ایک بھارتی باشندہ گورنر راج کی صورت میں حکومت کر رہا ہے۔ پہلے پہل یہاں ریاستی انتخابات کے نام پر ایک ڈھونگ رچایا جاتا تھا لیکن اب اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ایسے میں پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ پوری کشمیری کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ بھارت نے پہلے اسے نیم خود مختاری دے رکھی تھی اور دفعہ 370  کی صورت میں کشمیر پر قبضے کو ’’آئینی حیثیت‘‘ دے رکھی تھی ۔ اس کی بین الاقوامی اصولوں میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اب وہ نیم خودمختاری کا پردہ بھی ہٹا دیا ہے،وہاں بھارتی شہریوں کو آباد ہونے اور بھارتی فوج کو مزید چھاؤنیاں بنانے کا حکم دیدیا گیا ہے۔

کشمیری اور  پاکستان اس صورت حال کو مزید برداشت کرنے کو تیار نہیںہیں۔ پاکستان نے نیا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کردیاہے جس میں واضح طور پر مقبوضہ کشمیر اور ریاست جونا گڑھ کو اپنا حصہ قرار دیدیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتاہے کہ پاکستان نے تقسیم برصغیر کے ادھورے عمل کو پورا کرنے کے لئے تیز رفتار پیش رفت شروع کردی ہے۔

حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر  ولکان بوزکر  نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’ جموں و کشمیر تنازعہ کا پْرامن حل اہم، مسئلہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دوبارہ آیا تو قراردادوں کے تسلسل میں آگے بڑھاؤں گا۔‘‘  اگر اقوام متحدہ جموں و کشمیر  کا تنازعہ حل کرنے میں اپنا مفید کردار ادا کرتی ہے تو اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا کا خطہ امن کا گہوارہ بنے گا بصورت دیگر جموں وکشمیر ایسے تنازعات مزید بہت سا خون بہائیں گے۔

صبح آزادی2020

میری زمیں پر کئی دنوں سے
عجیب موسم اتر رہے ہیں
رتیں نا مہرباں ہونے لگی ہیں
بہاریں آ بھی جائیں تو
نہ پھولوں میں کوئی رنگ ہے
نہ خوشبو ہے
ہوائیں چل پڑیں بھی تو
فضاء ان سے معطر ہو نہیں پاتی
برستی بارشیں جو ایک مدت سے
مری جاں اور دل کے
بند دروازوں کو وا کرتی
میری آنکھوں کے خوابوں کو جلاء دیتی
میری سوچوں کے پنچھی آسماں کی وسعتوں میں
بھیگنے کو چھوڑ دیتی تھیں
جواب آئیں
تو اس شدت سے آتی ہیں
زمینیں‘ بستیاں‘ فصلیں سبھی
تاراج کر کے چھوڑ جاتی ہیں
خزاں کے رنگ جو دل میں ہمیشہ
نئی دنیائوں کی خواہش جگاتے تھے
بہت محروم سے
بے مہر سے ہونے لگے ہیں
مگر یہ کیسے ممکن ہے
ان بہاروں اور خزاؤں
بارشوں اور سردیوں کے ساتھ مِری عمر گزری ہے
یہ سب تو میرے موسم تھے
مِرے اندر اترنا جانتے تھے
یہ مجھ سے پیار کرتے تھے
مجھے اک صبح نو کی لو بھی دیتے تھے
مگر اب کے برس جانے کہاں سے
کسی نے کوئی ایسا اسم پھونکا ہے
کہ سب موسم‘ سبھی منظر بدلتے جا رہے ہیں
ہوا کا تند خو ہونا تو اچھی بات ہے لیکن
زمیں نا مہرباں ہو جائے تو
درختوں سے پرندے گھونسلے بھی چھوڑ جاتے ہیں
زمینوں اور ان کے باسیوں سے
کئی صدیوں کے رشتے توڑ جاتے ہیں
یہ تم بھی جانتے ہو گے
پرندے کوچ کر جائیں جہاںسے
وہاں پر ناگہانی آفتیں یلغار کرتی ہیں
شہر‘ گاؤں‘ جزیرے‘ بستیاں
ویران ہو جاتی ہیں اور پھر
عمر بھر فریاد کرتی ہیں
یہ سب لیکن انہی شہروں میں ہوتا ہے
جہاں انصاف خود مصلوب ہوجائے
جہاں مظلوم ہی معتوب ہو جائے
جہاں نفرت‘ حقارت‘ بے یقینی‘ بے ثباتی
اور بے مہری ہی بس اسلوب ہو جائے
میرے خدایا!
کوئی تو ہو جو مری زمیں کو
یقین دے دے ‘ ثبات دے دے
ملامتوں اور عداوتوں کی
تمام سوچوں کو مات دے دے
ہماری اندر کی نفرتوں کے تمام زخموں پہ رکھ کے مرہم
میرے شہر کو عذاب رت سے نجات دے دے
میری زمین کو اک اور تازہ حیات دے دے (فواد حسن فواد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔