- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
آنتوں کے اندررہ کر بیکٹیریا کے نمونے لینے والا سستا ترین برقی کیپسول
نیویارک: آنتوں کے اندر تار کے ذریعے کیمرا داخل کرکے دیکھنے کا عمل ’’کولونو اسکوپی‘‘ کہلاتا ہے اوراب اس پورے آلے کوایک الیکٹرانک کیپسول میں سمودیا گیا ہے۔ یہ کیپسول معدے سے ہوتا ہوا آنتوں سے گزرتا ہے اور وہاں موجود تمام اقسام کے بیکٹیریا کے نمونے جمع کرتا رہتا ہے۔
ان بیکٹیریا کو بعد میں معدے کے امراض کی نشاندہی میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ معدے میں موجود ہزاروں مختلف اقسام کے بیکٹیریا ہمیں اپنی صحت کے متعلق بہت کچھ بتاتے ہیں۔ یہ ایک جانب ذیابیطس کا پتا دیتے ہیں تو دوسری جانب بتاسکتے ہیں کہ کونسی دوا جسم پر اثر کرے گی اور کونسی ناکارہ رہے گی لیکن روایتی طریقے میں ایک طرف تو بیکٹیریا کی معمولی مقدار ہی سامنے آتی ہے اور دوسری جانب یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کونسا خرد نامیہ کس جگہ پایا جاتا ہے۔
اس ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنا کر پوری غذائی ہاضمی نالی کو جانچنے میں استعمال کیا جاسکتا ہے جن میں منہ، ایسوفیگس، معدہ، جگر، مثانہ، چھوٹی اور بڑی آنت شامل ہے۔ پوردوا یونیورسٹی کے سائنس داں رحیم رحیمی اور ان کے ساتھیوں نے یہ کیپسول بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اتنی بڑی آنت کے کسی بھی مقام سے بیکٹیریا جمع کرنا اس سے قبل ممکن نہ تھا۔ یہ دوا بھرے کیپسول جیسا ہے جو آنتوں اور ہاضماتی مقام سے گزرتا رہتا ہے۔ اگر آنتوں میں کہیں خون رس رہا ہے تو یہ اس کی بھی خبر لے سکتا ہے۔
اگر تجارتی پیمانے پر تیار کیا جائے تو اس کیپسول کی قیمت ایک ڈالر تک ہی ہوسکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک کم خرچ طریقہ تشخیص ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے اولین تجربات خنزیوں پر کیے گئے ہیں جن کی آنتیں انسانوں کی طرح ہوتی ہیں۔ یہ کیپسول تھری ڈی پرنٹر سےبنایا گیا ہے اور کسی بھی طرح نقصان دہ نہیں۔
آنتوں کے تیزابیت بڑھتے ہیں اس کے اوپر کا خول گھل کر ختم ہوجاتا ہے اور ایک طرح کا ہائیڈروجل پھول کر آنتوں کا مائع جمع کرتا رہتا ہے۔ مائع اندر جاتے ہیں دباؤ سے بند ہوجاتا ہے اور چند گھنٹے بعد بدن سے خارج ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد تجربہ گاہ میں بیکٹیریا کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔