مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

ایڈیٹوریل  ہفتہ 15 اگست 2020
کشمیریوں کی ہمت وحوصلے کو سلام ہے کہ وہ ستر برس سے زائد عرصے سے بھارتی ظلم وجبر سے نبرد آزما ہیں۔ (فوٹو : فائل)

کشمیریوں کی ہمت وحوصلے کو سلام ہے کہ وہ ستر برس سے زائد عرصے سے بھارتی ظلم وجبر سے نبرد آزما ہیں۔ (فوٹو : فائل)

پاک فوج کے ترجمان میجرجنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ بھارت، فرانس سے پانچ کے بجائے پانچ سو رافیل طیارے بھی خرید لے، ہم تیار ہیں، جنگ اسلحہ کے زور پر نہیں، جذبے سے لڑی جاتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے جمعرات کوپریس بریفنگ کے دوران داخلی سلامتی‘ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال‘ کنٹرول لائن‘ پاکستان کے نئے سیاسی نقشے ‘افغانستان کی صورت حال سمیت متعدد موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی نشاندہی کی۔

بلاشبہ بھارت کے ان عزائم کو دنیا کے سامنے انتہائی واضح الفاظ میں بے نقاب کرنا جرأت مندی سے عبارت ہے۔ چانکیہ کی سوچ سے جڑا جنگی جنون اورخطے کی سپریم پاور بننے کے خبط میں مبتلا بھارت گزشتہ دس برس سے جنگی ہتھیار خریدنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔

رافیل طیاروں کے بعد بھارت نے ہنگامی طور پر فرانس سے 100 ہمپر میزائل خریدنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جب کہ 36 رافیل طیارے جن کی مالیت 60 ہزارکروڑ روپے ہے میں سے 5 جنگی طیاروں کی پہلی کھیپ پہنچ گئی ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا پچھلے دس برس کے دوران انڈیا کے ہتھیاروں کی خرید میں چوبیس فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ اس مدت میں پاکستان میں ہتھیاروں کی خرید میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔ یوں دنیا پر فرق واضح ہوتا ہے، زمینی حقائق اور اعدادوشمارکی روشنی میں، کہ کون جنگی جنون میں مبتلا ہے اورکون امن کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ بھارت جدید ترین اور مہلک اسلحہ تو عرصہ دراز سے خرید رہا تھا، اس میں نیوکلیئر سول ٹیکنالوجی بھی شامل ہے، آج اس کو جہاں سے بھی اسلحہ مل رہا ہے وہ خرید رہا ہے۔

بھارتی حکومت اپنی رعایا کی خبرگیری کی بجائے تمام مالی وسائل جدید ترین اور مہلک ہتھیاروں کے حصول میں جھونک رہی ہے۔ جس ملک میں غربت اور بھوک و افلاس کا راج ہو، جنتا بھوک کے ہاتھوں مر رہی ہو، وہاں سپرپاور بننے کے خبط میں مبتلا بھارتی حکمرانوں کا ذہنی خلل خطے کے امن کے لیے خطرہ بن رہا ہے۔ رافیل طیاروں کی خریداری اور ہمپر میزائلوں کے حصول کا معاہدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ بھارت کا پاکستان سمیت ہمسایہ ممالک کے ساتھ امن دشمن رویہ پوری دنیا کے سامنے ہے، چین ، نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ بھارتی تنازعات نے جنوبی ایشیا کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔

بھارت پاکستان اور چین کو جارحیت کی دھمکیاں دیتا آرہا ہے۔ ایک بھارتی آرمی چیف نے تو 96 گھنٹے میں بیجنگ اور اسلام آباد پر قبضے کی ’’ بڑ‘‘ بھی ماری تھی۔ اس بات کا جواب پاکستان نے منہ توڑ دیا تھا، ابھی نندن کا واقعہ بھارت کو بھولا نہیں ہوگا۔ عالمی دفاعی ماہرین کے مطابق انڈیا نے گزشتہ دس برس میں سو ارب ڈالر سے زیادہ نئے ہتھیاروں اور دفاعی نظام کی خرید پر صرف کیے۔ اس مدت میں نئے جنگی جہازوں، میزائل، آبدوزوں، ٹینکوں، ہاویٹزر توپوں، اسپیشل طیاروں اور دوسرے ہتھیاروں کی خرید کے لیے سودے کیے گئے۔

ابھی گزشتہ مہینے انڈیا نے دفاعی اخراجات کے لیے 51 ارب ڈالر مختص کیے ہیں جس میں تقریباً 16 ارب ڈالر نئے ہتھیاروں اور جنگی ساز وسامان کے حصول کے لیے ہیں۔ گزشتہ دس برس کے دوران افریقی ممالک ، یورپ اور جنوبی امریکا میں ہتھیاروں کی درآمد میں بائیس فی صد کمی آئی ہے۔

چین میں ہتھیاروں کی درآمد میں 19 فیصد کمی آئی ہے۔بھارت سے مسلسل کشیدگی کے باوجود گزشتہ دس برس کے دوران پاکستان کے ہتھیاروں کی درآمد میں 36 فیصد کمی آئی ہے۔ بھارت کی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی خرید سے بین الاقوامی امن اور سلامتی پر پڑنے والے اثرات پر اقوام عالم کو تشویش میں مبتلا ہونا چاہیے اس سے اسلحہ تجارت کنونشن جیسے بین الاقوامی ضابطوں کو مستحکم اور نافذکرنے کی ضرورت پہلے سے بڑھ گئی ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت مہلک ہتھیاروں کی خریداری سے اپنے مستقبل کو محفوظ کرنا چاہتا ہے، ایساکچھ بھی نہیں۔ دراصل اس جنگی جنون سے خطے میں عدم تحفظ اورکشیدگی کے ماحول کو اور زیادہ ہوا مل رہی ہے۔ خطے کا امن داؤ پر لگا ہوا ہے، بہرحال پاکستانی فوج ہر دم چوکس اور جذبہ جہاد سے سرشار ہے، پاک فوج دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دینے کی طاقت ، ہمت اور صلاحیت رکھتی ہے۔ دراندازی بھارت کے لیے بھیانک خواب ثابت ہوگا، یہ واضح کردیا ہے پاک فوج کے ترجمان نے، وہ جو کہتے ہیں کہ عقلمند کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے لہٰذا بھارت کو دوٹوک الفاظ میں پیغام مل چکا ہے، وہ غلطی سے بھی کسی جنگی ایڈونچرکی غلطی نہ کرے ورنہ اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

میجرجنرل بابر افتخارکا کہنا تھا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں،گزشتہ ایک سال سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ ہے۔ حال ہی میں عالمی میڈیا کے نمائندوں نے آزاد کشمیر میں ایل او سی کا جائزہ لیا جب کہ مقبوضہ کشمیر میں کسی بھی غیرجانبدار مبصر یا صحافی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔

فوج کے ترجمان نے جن باتوں کی طرف نشاندہی کی ہے وہ درحقیقت ایک ایسا آئینہ ہے جس میں دنیا کے طاقتور ممالک کو اپنی صورت دیکھنی چاہیے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ہونے کے باوجود تاحال مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوسکا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ کشمیرکا حل طلب مسئلہ خطے کے امن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، ظالم کے ترکش میں جتنے تیر ہیں وہ آزما رہا ہے، لیکن اس کے باوجود کشمیری آزادی کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں۔

کشمیریوں کی ہمت وحوصلے کو سلام ہے کہ وہ ستر برس سے زائد عرصے سے بھارتی ظلم وجبر سے نبرد آزما ہیں۔جدوجہد آزادی میں اپنے لہو سے رنگ بھرنے والے کشمیریوں پر ظلم کی سیاہ رات جلد ختم ہوجائے گی اور ان کے لہوسے آزادی کے چراغ جلیں گے۔ بلاشبہ پاک فوج نے نہ صرف ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میں اہم کردار ادا کیا  بلکہ ملک کے اندر بھارت نے جو دہشتگردی کا نیٹ ورک قائم کیا تھا، وہ اسے توڑنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ آپریشن ردالفساد میں ایک لاکھ سے زائد انٹیلی ایجنس آپریشن کیے گئے۔ 46ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ دہشتگردوں سے خالی کرایا گیا۔

آپریشن کے دوران 18 ہزار سے زائد دہشتگردوں کو مارا گیا جب کہ 400ٹن بارودی مواد اور 70ہزار سے زائد اسلحہ برآمد کیا گیا۔ یہ اعدادوشمار اس سچائی کا برملا اعتراف ہیں کہ پاک فوج نے ملکی سلامتی کے لیے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران کورونا وائرس کی  وبائی صورتحال پر قابو پانے میں پاک فوج کا کردار لائق تحسین ہے،یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کورونا کے خلاف پاکستان کی موثر حکمت عملی کی سب نے تعریف کی ہے۔ میجرجنرل بابر افتخار نے سعودی عرب کے متعلق سوال پرکہا ہمیں برادر ملک کے ساتھ تعلق پر فخر ہے،کسی کوشک نہیں ہونا چاہیے۔

اس پر سوال اٹھانے کی ضرورت نہیں، ہمارے بہترین تعلقات ہیں اوررہیں گے۔ سفارتی محاذ پرپاک فوج دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو معمول پر رکھنے میں اہم ترین کردار ادا کررہی ہے، سعودی عرب سے ہمارے دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں،ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب نے ہمارا ساتھ دیا ہے، یہ دوستی محبت اورخلوص کے رشتے میں پہلے سے بھی زیادہ مضبوط ہوگی۔ پاکستانی فوج کے ترجمان نے صحافیوں کے ساتھ ملاقات میں ملکی استحکام وسلامتی کے حوالے سے جن نکات کی وضاحت کی ہے، وہ قوم کے لیے باعث اطمینان ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔