ہماری کہانی شہزادے اور جن کا قصہ ہے

عبدالقادر حسن  ہفتہ 15 اگست 2020
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

آمریت اور جمہوریت کے زخموں سے چور پاکستانی قوم اپنا تہترواں یوم آزادی منا رہی ہے ۔ گزشتہ تہتر برسوں کی آمریتوں اور جمہوریتوں کی حکومتوں نے ملک اور قوم کو تباہی کے گڑھے کے کنارے پر کھڑا کر دیا ہے ۔ اب معاملہ بہت آگے بڑھ کر فنا یا بقا تک پہنچ گیا ہے ۔

دو ہی صورتیں ہیں یا تو ہم ہمت کر کے اس گڑھے کو پھلانگ جائیں یا پھر خدا نہ کرے کوئی دوسری صورت بن جائے۔ قوم نے تو دو برس قبل ہی موجودہ حکمرانوں کو منتخب کر کے اپنا فیصلہ دے دیا تھا لیکن قوم کے منتخب حکمران اب تک یہ فیصلہ نہیں کر سکے کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق ہماری دنیا بدلنے کا آغاز کب کریں گے یا پھر کسی کی خواہشات کے مطابق جو جہاں ہے اسے وہیں رہنے دیں گے اور پرانی صورتحال کو قبول کر کے حکمرانی کا باقی ماندہ وقت گزارنے کو ترجیح دیں گے ۔ میرے آپ کے پوری قوم کے ذہنوں میں بے شمار وسوسے اور اندیشے ہیں کیونکہ جو صورتحال ہم دیکھ رہے ہیں۔

اس میں چند ایک کو چھوڑ کروہی غلط لوگ ہم پر مسلط ہو گئے جو ہمارے آپ کے آزمودہ ہیں اور جن کی وجہ سے ابھی تک کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔ ان پرانے لوگوں نے وقت کے ساتھ اپنے آپ کو بدلنے کی کوشش بھی نہیں کی اور نہ ہی ان کے دلوں میں قوم کا درد پیدا ہوا ہے جو انھیں بدلنے پر مجبور کر دے۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ عالمی سطح پر ہم تنہا ہوتے جارہے ہیں اور مقامی سطح پر بھی قوم ابھی تک ایک بہتر اور عوام دوست پالیسیوں کی منتظر ہے تاکہ وہ دو وقت کی روٹی آسانی سے کما سکیں ۔ پہلے پیٹ میں روٹی تو ہو پھر کچھ اور سوچیں گے اور دماغ کو حرکت میں لائیں گے۔

ہمارے حکمران جن کو ابھی رموز مملکت کی سمجھ نہیں آ سکی یا پھر ہم عوام ان کی سوچ تک نہیں پہنچ پا رہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ حکومت ابھی تک کوئی ایسا کرشمہ نہیں دکھا سکی جس کی وہ دعویدار تھی۔ ایک عزیز گزشتہ روز ملاقات کے لیے آئے تو بتانے لگے کہ حکومت نے پراپرٹی کے شعبے میں جن رعایتوں کا اعلان کیا ہے ان کے مثبت نتائج آرہے ہیں اور ملک میںپلاٹوں کی خریدو فروخت شروع ہو گئی ہے یعنی کچھ نہ کچھ اصلاحات کا عمل چل رہا ہے لیکن ان کی رفتار اتنی سست ہے کہ اس کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ رہے ۔

چند مقامی نوعیت کی اصلاحات سے بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے لیکن اس کے لیے حکومتی ٹیم کو متحرک ہونے کی ضرورت ہے اور حکومت کے پاس اب کچھ زیادہ وقت بھی نہیں بچا ۔ گزشتہ دو برس تو سیاسی مخالفین کی ناکام گوشمالی میں ہی ضایع کر دیے گئے ہیں ۔ حضرت شیخ سعدی کا ایک شعر یاد آ رہا ہے جو انھوں نے آج کے پاکستانی رہنماؤں کے بارے میں صدیوں پہلے فرما دیا تھا۔

ہر  کے  را  دامن  تر ہست  اما  دیگراں

باز می پوشند و من در آفتاب انداختم

قارئین کے لیے ترجمہ بھی کرنا پڑتا ہے کہ اب فارسی سمجھنے والے نہیں رہے۔ ’’دامن تو مجھ سمیت سب کا داغدار ہے بس فرق صرف اتنا ہے کہ وہ اسے سکھا کر پھر پہن لیتے ہیں مگر ہم اس کو سکھانے کے لیے سب کے سامنے دھوپ میں ڈال دیتے ہیں‘‘۔

عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنے حکمرانوں کے بارے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے اور ان کی طاقت اور ہمت سے بڑھ کر ان سے امیدیں وابستہ نہیں کرنی چاہئیں ۔ امید کی ایک صورت یہ نکل سکتی تھی کہ حکومت کی اپوزیشن اتنی جاندار ہو اور مضبوط جو حکومت کو عوام دوست پالیسیاں بنانے پر مجبور کر دے مگر اپوزیشن کا محاذ ابھی ٹھنڈا ہے چند ایک اخباری بیانوںکے علاوہ ابھی تک اپوزیشن نے عملاً کچھ نہیں کیا اور جس نے چیں بچیں کرنے کی کوشش کی تھی وہ عوام سے دور ہے اور جو بچ گئے ہیں وہ بچ کر چلنے کی کوشش میں ہیں۔ حکمرانوں کی اتحادی جماعتیں جن میں قاف لیگ اور ایم کیو ایم سر فہرست ہیں وہ پر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو واپس پنجروں میں دھکیل دیا جاتا ہے ۔

البتہ عوام ایک ایسی طاقت ہے جنہوں نے اپنے گونا گوں مہلک مسائل کے حل کے لیے ووٹ دیے تھے اور ان مسائل کو پیدا کرنے والوں کو مسترد کر دیا تھا وہ اگر چاہئیں تو اپنے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں لیکن ان کو گھروں سے نکالنے کے لیے کسی لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے جو فی الحال دستیاب نہیں ہے۔ مجھے میاں نواز شریف کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں جو انھوں نے الیکشن سے قبل کہے تھے کہ آیندہ حکمرانوں کے لیے حکمرانی کانٹوں کی سیج ہو گی لیکن انھوں نے یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ یہ کانٹے بچھائے کس نے ہیں لیکن اس کا کیا کیجیے کہ کچھ لوگوں نے خبردار ہونے کے باوجود ان کانٹوں پر بے تابی سے برہنہ پا چلنا قبول کیا۔

اسلام آباد میں مقیم ایک رمز شناس اور باخبر خاتون مرحومہ سرفراز اقبال صاحبہ ایک پرانی کہانی سناتی تھیں۔ جس کے مطابق اسلام آباد کا اقتدار تو شہزادے شہزادی اور جن کا قصہ ہے ۔ شہزادی اپنے خوابوں کے شہزادے کو اچانک سامنے پا کر ہنستی ہے اور پھر رو دیتی ہے۔ شہزادہ جب اس ہنسنے اور رونے کی وجہ پوچھتا ہے تو وہ بتاتی ہے کہ خوش ہوں کہ تمہیں دیکھا ہے اور روتی ہوں کہ ابھی جن آئے گااور تمہیں کھا جائے گا۔ تم جلدی سے کہیں چھپ جاؤ۔یہی ہماری کہانی ہے شہزادہ آتا ہے شہزادی ہنستی اور روتی ہے اور پھر جن آجاتا ہے اور یہ جن ایک خطرہ بن کر شہزادی اور شہزادے کے گرد منڈلاتا رہتا ہے ۔

اب یہ شہزادے کی فراست پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح اس دیو کے آہنی پنجے سے زور آزمائی کیے بغیر اپنے حسن و تدبر سے شہزادی کے حسن و جمال کے قرب میں اپنی زندگی گزارے یا پھر جن کے سپرد ہو جائے جس کی وہ گزشتہ سات دہائیوں سے ایک مرغوب غذا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔