بنگلادیش کیسے ٹیکسٹائل میں عالمی طاقت بنا؟

سید عاصم محمود  اتوار 16 اگست 2020
 ان عوامل کا دلچسپ قصہ جن کی مدد سے سابقہ مشرقی پاکستان  غربت وافلاس سے چھٹکارا پا کر ترقی و خوشحالی کے راستے پہ گامزن ہو گیا۔ فوٹو: فائل

ان عوامل کا دلچسپ قصہ جن کی مدد سے سابقہ مشرقی پاکستان غربت وافلاس سے چھٹکارا پا کر ترقی و خوشحالی کے راستے پہ گامزن ہو گیا۔ فوٹو: فائل

تہتر برس قبل جب وطن عزیز کا قیام عمل میں آیا تو وہ دو خطوں پر مشتمل تھا۔1971ء میں ایک خطہ بووجوہ علیحدہ ہوکر بنگلادیش بن گیا۔

اپنے قیام کے وقت وہ ایک غریب ملک تھا۔مملکت کی 90 فیصد آبادی خط ِغربت سے نیچے زندگی گزار رہی تھی۔ آج مگر اہل بنگلادیش کی فی کس آمدن  پاکستانیوں سے بڑھ چکی۔جنوبی ایشیا میں بنگلادیشی معیشت سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ بین الاقوامی ماہرین معاشیات ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو بنگلادیش کی مثال دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دیکھو، وہاں غربت سے کیونکر چھٹکارا پایا گیا۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے سابقہ ساتھی مملکت میں  معاشی انقلاب کیونکر آیا؟ اس کی ڈرامائی کہانی میں پاکستانی حکمران طبقے اور عوام، دونوں کے لیے سبق پوشیدہ ہیں۔یہ عیاں کرتی ہے کہ بنگلادیش کی کامیابی نے خوش قسمتی،محنت اور ٹھوکروں سے نصحیت لینے کے باعث جنم لیا۔انتالیس سال پہلے اپنی پیدایش کے وقت  بنگلادیش میںغربت کا دور دورہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ وہاں صنعت و تجارت نہ ہونے کے برابر تھی جو روزگار پیدا کرتی ہے۔کاغذ بنانے کے چند کارخانے تھے جو مغربی پاکستان کے صنعت کاروں نے بنائے تھے۔ انہیں قومیا لیا گیا۔

ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ شیخ مجیب الرحمن کی حکومت میں کرپٹ عناصر بھی داخل ہوگئے۔ وہ سرکاری خزانہ باپ کا مال سمجھ کر لوٹنے لگے۔ مجیب حکومت میں بڑھتی کرپشن کے باعث بنگلادیشی فوج کو مداخلت و بغاوت کرنا پڑی۔ مجیب الرحمن قتل ہوگئے۔ یوں بنگلادیش میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور جوڑ توڑ کے عمل کا آغاز ہوا جو طویل عرصہ جاری رہا۔

اردو روڈ کی دکان

سیاسی ہنگاموں کے دوران ہی بنگلادیش میں ٹیکسٹائل صنعت کا بھی آغاز ہوا۔ جو معاشی ترقی کا بنیادی سبب بن گئی۔ دلچسپ بات یہ کہ اس کی بنیاد رکھنے میں مغربی پاکستان کا اہم کردار تھا…سابقہ ساتھی جسے بنگلادیشی حکمران طبقے نے تج دیا ۔ کہانی 1964ء میں شروع ہوتی ہے جب کراچی میں مرکری شرٹس نامی ایک ادارے کا قیام عمل میں آیا۔ یہ ادارہ پاکستان سے ریڈی میڈ یا تیار شدہ ملبوسات یورپی ممالک برآمد کرتا تھا۔مرکزی شرٹس  1965ء سے ڈھاکہ کے چند درزیوں سے بھی ملبوسات تیار کرانے لگا۔

یہ سلسلہ تین برس جاری رہا۔ انہی درزیوں میں محمد ریاض الدین بھی شامل تھے۔ انہیں اس تجربے سے آگاہی حاصل ہوئی کہ تیار شدہ ملبوسات کیونکر بیرون ملک برآمد کیے جاتے ہیں۔ جلد ہی انہوں نے ڈھاکہ کی اردو روڈ پر سلائی کی اپنی دکان کھول لی۔ 1973ء میں وہ ریڈی میڈ کپڑے بھی فروخت کرنے لگے۔ دیانت دار اور محنتی تھے، اللہ تعالیٰ نے کاروبار میں برکت دی اور وہ ترقی کرنے لگا۔ تبھی رحمت الٰہی سے انہیں ایک غیر متوقع مدد بھی مل گئی۔

ہوا یہ کہ 1972ء تک ریڈی میڈ ملبوسات کی خرید فروخت عالمی کاروبار بن چکی تھی۔ تب چین، جنوبی کوریا، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ اس میدان کے اہم کھلاڑی تھے۔ یہ ترقی پذیر ممالک تیار شدہ ملبوسات بڑی تعداد میں یورپ اور امریکا برآمد کررہے تھے۔ لیکن اس بڑھتی برآمد نے امریکا و یورپ میں ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت کو خطرے میں ڈال دیا۔دراصل ایشیائی ممالک سے آنے والے ملبوسات سستے تھے، اسی لیے قدرتاً یورپ اور امریکا میں ان کی مانگ بڑھ گئی جبکہ مقامی ملبوسات کی فروخت مہنگے ہونے کے سبب کم ہونے لگی۔

اس کمی نے ملبوسات تیار کرنے والے بعض کارخانے بند کرادیئے۔ کئی لوگ بیروزگار ہوگئے۔ خطرہ تھا کہ ایشیا سے سستے ملبوسات آتے رہے تو مزید کارخانوں میں تالا لگنے سے ہزارہا کارکن ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔امریکا و یورپ میں پھر ریڈی میڈ گارمنٹ کمپنیوں نے حکومتوں پردباؤ ڈالا کہ وہ اپنی مارکیٹوں میں ایشیائی ملبوسات کم کرنے کی خاطر کوئی قانون بنائے ورنہ ہزارہا بیروزگار ان کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔چناں چہ امریکا و یورپی ممالک نے اپنے ہاں بیروزگاری روکنے کی خاطر ایک قانون ’’ملٹی فائبر ایگریمنٹ‘‘ وضع کردیا جو 1 جنوری 1974ء سے نافذ ہوا۔

اولاندو کی آمد

ملٹی فائبر ایگریمنٹ نے ہر ایشیائی ملک کا کوٹہ مقرر کردیا۔ مثلاً یہ کہ امریکا میں ہر سال اتنی ہزار شرٹس پاکستان، اتنی ہزار پتلونیں بھارت اور اتنے ہزار کوٹ جنوبی کوریا سے آئیں گے۔ غرض اس معاہدے نے جزئیات کی حد تک تیار شدہ ملبوسات کے آرڈر مختلف ممالک میں تقسیم کردیئے۔

بنیادی مقصد یہی تھا کہ ایشیائی ممالک سے آنے والے ملبوسات کی تعداد میں کمی کی جائے تاکہ مقامی کمپنیوں کا کاروبار تباہ نہ ہو۔اس معاہدے میں کم ترین آمدن رکھنے والے ممالک کو یہ رعایت دی گئی کہ وہ دوسرے ملکوں سے زیادہ ریڈی میڈ گارمنٹس امریکا و پورپ برامد کر سکتے ہیں۔مقصد ان کی معیشت کو تقویت  پہنچانا تھا۔اسی رعایت کو دیکھ کر ایک جنوبی کورین گارمنٹ کمپنی، اولاندو کے مالکان کو انوکھا خیال آیا… یہ کہ کسی غریب ملک میں ریڈی میڈ ملبوسات بنانے والی فیکٹری مقامی سرمایہ کاروں کے تعاون سے لگائی جائے۔

اس فیکٹری سے پھر ملبوسات امریکا و یورپ بھجوا کر زیادہ منافع کمانا ممکن تھا۔اولاندو کے مالکان نے پھر جائزہ لیا کہ فیکٹری کہاں لگائی جائے۔ وہ پہلے کسی افریقی ملک میں لگانا چاہتے تھے مگر براعظم افریقا خاصا دور تھا۔ آخر ان کی نگاہیں بنگلادیش پر پہنچ کر ٹک گئیں۔ یہ غریب ملک قریب ہی واقع تھا۔ پھر وہاں سستی افرادی قوت بھی میسر تھی۔ لہٰذا مالکان اولاندو نے فیصلہ کیا کہ وہ بنگلادیش میں اپنی نئی گارمنٹس فیکٹری لگائیں گے۔اواخر 1974ء میں جنوبی کورین کمپنی کا نمائندہ ڈھاکہ پہنچا اور فیکٹری لگانے کے سلسلے میں گارمنٹس کی مقامی صنعت میں سرگرم لوگوں سے بات چیت کرنے لگا۔

معلومات لینے کے بعد اسے علم ہوا کہ محمد ریاض الدین ریڈی میڈ گارمنٹس بنانے کا تجربہ رکھتے ہیں۔ چناں چہ نمائندہ ان سے جاکر ملا اور نئی فیکٹری لگانے کے سلسلے میں جنوبی کورین کمپنی کا منصوبہ سامنے رکھا۔محمد صلاح الدین ایک دن سوچ بچار کرتے رہے پھر اولاندو کے اشتراک سے ریڈی میڈ گارمنٹس فیکٹری لگانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ ایک دور اندیش، تجربے کار اور محب وطن صنعت کار تھے۔ انہیں علم تھا کہ ماضی میں کئی ممالک ٹیکسٹائل صنعت کو ترقی دے کر اپنے آپ کو خوشحال اور ترقی پذیر بناچکے۔ ان میں جنوبی کوریا بھی شامل تھا۔ لہٰذا انہیں خیال آیا کہ اگر بنگلادیش میں ریڈی میڈ گارمنٹس بنانے والی ایک فیکٹری بھی لگ گئی تو مستقبل میں مزید فیکٹریاں لگنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔چناں چہ انہوں نے فیکٹری لگانے کی ہامی بھرلی۔

اگلے تین سال میں فیکٹری تیار ہوگئی اور 1978ء سے فیکٹری میں تیار شدہ ملبوسات بیرون ملک درآمد ہونے لگے۔ اسی سال نورالقادر نے بھی ریڈی میڈ گارمنٹس کے شعبے میں قدم رکھ دیا۔ نورالقادر متحدہ پاکستان میں اعلیٰ سرکاری افسر رہے تھے۔

بنگلادیش وجود میں آیا تو شیخ مجیب الرحمن نے انہیں بطور سیکرٹری صنعت اپنی حکومت میں شامل کیا۔ 1975ء کے بعد نورالقادر نے استعفی دیا اور کاروبار کرنے لگے۔ 1978ء میں دیش گارمنٹس نامی ادارہ قائم کیا تاکہ ریڈی میڈ ملبوسات بناکر بیرون ممالک بھجوائے جاسکیں۔ انہوں نے جدت یہ کی کہ اپنے 131 کارکنوں کو جنوبی کوریا بھجوایا تاکہ وہ ریڈی میڈ گارمنٹس بنانے کی جدید تربیت حاصل کرسکیں۔ یہ کارکن چھ ماہ تک جنوبی کوریا میں مقیم رہ کر تربیت حاصل کرتے رہے اور پھر وطن آگئے۔

’’جی  ایس پی‘‘ کا نفاذ

جدید مشینری اور تجربے کار ملازمین کی بدولت دیش گارمنٹس جلد ہی بنگلادیش میں ریڈی میڈ ملبوسات بنانے والی سب سے بڑی کمپنی بن گئی۔ چند برس بعد کمپنی کے ملازمین اسے خیرباد کہہ کر چھوٹے پیمانے پر اپنی فیکٹریاں قائم کرنے لگے۔ انہیں بھی ترقی ملی اور یوں بنگلادیش میں ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت جڑ پکڑنے لگی۔

اس زمانے میں چند عوامل نے بنگلادیشی ریڈی میڈ گارمنٹس انڈسٹری کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ پہلا عمل تو ملٹی فائبر ایگریمنٹ تھا جس کے باعث غیر ملکی کمپنیوں نے بنگلادیش میں گارمنٹس فیکٹریاں لگانے کا فیصلہ کیا۔ دوسرا عمل یہ کہ مملکت میں افرادی قوت باافراط اور سستی دستیاب تھی۔یہ کارکن پڑھے لکھے اور محنتی بھی تھے۔

چناں چہ وہ نئی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی بن گئے۔1979ء میں ایک اور عمل بنگلادیش میں پنپتی نئی صنعت کے لیے ہوا کا تازہ جھونکا بن گیا۔ترقی یافتہ ممالک میں عرصہ دراز سے یہ تحریک چل رہی تھی کہ غریب ترین ممالک سے آنے والے مال پر ڈیوٹیاں اور ٹیکس عائد نہ کیے جائیں یا انہیں کم کردیا جائے۔ تحریک چلانے والے اس طرح غریب ترین ممالک کی معیشت کو سہارا دینا چاہتے تھے۔ اس تحریک سے متاثر ہوکر 1971ء میں یورپی ممالک اور امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے غریب ترین ممالک کو کچھ تجارتی رعایات دی تھیں مگر وہ عارضی ثابت ہوئیں۔غریب ترین ملکوں کی معیشت سدھارنے کی خواہش رکھنے والے مغربی غیر سرکاری اداروں نے اپنی تحریک توانا رکھی۔

وہ ترقی یافتہ اور امیر حکومتوں پر زور ڈالتے رہے کہ غریب ترین ممالک کو تجارتی سہولیات اور مراعات دینے کا مستقل اور معقول بندوبست کیا جائے۔آخر 1979ء میں یورپی یونین اور امریکا وغیرہ نے ڈیوٹیاں ٹیرف، ٹیکس وغیرہ کم کرنے کا ایک باقاعدہ نظام اپنایا جسے ’’جی  ایس پی‘‘ (Generalized System of Preferences) کہا گیا۔ اس نظام کے ذریعے غریب ترین ممالک سے آنے وای مختلف اشیا پر ٹیکس کم یا بالکل ہی معاف کردیئے گئے۔

اس زمانے میں بنگلادیش کا شمار غریب ترین ممالک میںہوتا تھا۔ اسی لیے قدرتاً وہ جی  ایس پی نظام کی سہولت سے فائدہ اٹھانیوالے افریقی و ایشیائی ممالک میں شامل ہوگیا۔ اس رعایتی ٹیرف سے بھی بنگلادیش ریڈی میڈ گارمنٹس سیکٹر کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور نئی فیکٹریاں قائم ہونے لگیں۔ غیر ملکی ادارے اب بنگلادیشی ریڈی میڈ ملبوسات کو ترجیح دینے لگے کیونکہ وہ سستے پڑتے تھے اور یوں ان کے منافع میں اضافہ ہوجاتا۔بنگلادیش میں 98 فیصد باشندے بنگالی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی لیے وہاں نسلی و لسانی جھگڑے وجود نہیں رکھتے۔

اس خوبی نے بھی وہاں ریڈی میڈ گارمنٹس صنعت کو ترقی دی۔ اگرچہ سیاسی ہنگامے جاری رہے مگر ساتھ ساتھ یہ صنعت بھی پھلتی پھولتی رہی کیونکہ اسے سستی افرادی قوت کے علاوہ دو بین الاقوامی معاہدوں کی بھی مدد حاصل رہی۔ چناں چہ 2000ء تک بنگلادیش میں تین ہزار ریڈی میڈ گارمنٹس فیکٹریاں کھل چکی تھیں۔ ان میں سے بیشتر ڈھاکہ، چٹاگانگ اور ملحقہ علاقوں میں واقع تھیں۔ یہ فیکٹریاں پچیس لاکھ سے زائد مردوزن کو براہ راست روزگار مہیا کررہی تھیں۔ جبکہ پانچ لاکھ افراد کا اس صنعت سے ان ڈائریکٹ روزگار وابستہ تھا۔

سیاست کے پیچ وخم

حیرت انگیز امر یہ کہ بنگلادیش 1975ء سے سیاسی ہنگاموں کا مرکز بنا ہوا تھا مگر ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت ترقی کرتی رہی۔ بابائے بنگلادیش، شیخ مجیب الرحمن خود کو عوامی لیڈر کہتے تھے مگر اقتدار ملتے ہی ان کی جون بھی بدل گئی۔ جلد  آمر بن بیٹھے اور اپنے عزیز و اقارب کو کرپشن کرنے کی کھلی چھٹی دے دی۔

نتیجتاً عوامی لیگی حکومت کے وزیر و مشیر سرکاری خزانہ اڑا کر دیکھتے ہی دیکھتے کروڑ پتی بن گئے جبکہ عوام کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔ عوامی لیگی رہنماؤں کی بے غیرتی اتنی بڑھ گئی کہ وہ عام لوگوں کو ماں بیٹیوں کی عزتوں سے کھیلنے لگے۔ اسی تلخ حقیقت سے طیش میں آکر چند نوجوان فوجی افسروں نے 15 اگست 1975ء کو شیخ مجیب الرحمن کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔

شیخ صاحب کو بھارت حکومت میں لایا تھا اور اسی کے یوم آزادی پر وہ دنیا سے رخصت کردیئے گئے۔بنگلہ بندھو کی رخصتی کے بعد فوج اور سیاست داں اقتدار پانے کا کھیل کھیلنے لگے۔ فوج نے سیاست دانوں کو لالچی اور کرپٹ قرار دیا تو وہ جرنیلوں کو اقتدار کا بھوکا کہنے لگے۔ اس دوران فوجی افسر آپس میں لڑکر ایک دوسرے کو مارنے لگے۔ غرض 1975ء سے 1977ء تک بنگلادیش شدید سیاسی و معاشرتی افراتفری اور ہنگاموں کا نشانہ بنارہا۔ آخر سابق آرمی چیف، جنرل ضیاء الرحمن اپریل 1977ء سے صدر بنے تو حالات کچھ نارمل ہونے لگے۔صدر ضیاء الرحمن نے فوج اور افسر شاہی میں ردوبدل کیا اور معاشرے میں غل مچانے والے سیاست دانوں کا صفایا کرڈالا۔ 1978ء میں ایک سیاسی جماعت، بی این پی (بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی) کی بنیاد رکھی۔

تاہم فوج میں کئی جرنیل ان سے خوش نہیں تھے۔ ان کا خیال تھا کہ انہیں ترقیاں نہیں مل رہیں۔ مئی1981ء میں ایک ایسے ہی ناخوش میجر جنرل نے اپنے فوجیوں کے ذریعے صدر ضیا الرحمن کو قتل کرادیا۔مقتول صدر نے اپنی موت سے صرف دو ہفتے قبل بنگلہ بندھو کی بیٹی، بیگم حسینہ واجد کو بنگلادیش آنے کی اجازت دے دی تھی۔ وہ دسمبر 1975ء سے بھارت میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی تھیں۔

ان کے دونوں بچوں نے بھارتی تعلیمی اداروں میں ابتدائی تعلیم پائی۔ 16 فروری 1981ء کو شیخ مجیب کی پارٹی، عوامی لیگ نے انہیں اپنا صدر منتخب کرلیا تھا۔ضیاء الرحمن قتل ہوئے تو نائب صدر، عبدالستار نئے صدر بن گئے۔ وہ سابق جج اور بی این پی کے سینئر ترین لیڈر تھے۔ وہ نیا الیکشن جیتنے میں کامیاب رہے۔ صدر بن کر عبدالستار حکومتی انتظام میں فوج کا اثرورسوخ کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ ان کا استدلال تھا کہ فوج کا اصل کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، حکومتی انتظام سنبھالنا نہیں۔ انہوں نے افسر شاہی میں موجودکئی فوجی افسر واپس بیرکوں میں بھجوا دیئے۔ رفتہ رفتہ صدر اور فوج کے تعلقات خراب ہوتے گئے۔ آخر مارچ 1982ء میں آرمی چیف، حسین محمد ارشاد نے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

1983ء میں جنرل ارشاد صدر بن گئے اور اپنی سیاسی جماعت، جاتیہ پارٹی قائم کی۔ ان کا دور حکومت دسمبر 1990ء تک جاری رہا۔ اس دوران انہوں نے اچھے برے کام کیے۔ مخالفین کو دبانے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مخالفوں میں سرفہرست دو بیگمات تھیں… بیگم خالدہ ضیاء اور بیگم حسینہ واجد۔ بی این پی نے مئی 1984ء میں مقتول جنرل کی بیوہ، خالدہ ضیا کو اپنا سربراہ مقرر کرلیا تھا۔ دونوں بیگمات نے حسین ارشاد حکومت کے خلاف ایکا کرلیا۔ صدر ارشاد ڈکٹیٹر قرار پائے۔ بیگمات بنگلادیش میں بحالی جمہوریت کی خاطر سرگرم ہوگئیں۔

اس دور میں وہ ہنستے کھیلتے دوستی کی پینگیں جھولتے دکھائی دیتی ہیں۔1990ء کے اواخر میں حسین ارشاد حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہونے لگے۔ پے در پے ہڑتالوں نے معیشت کا پہیہ جام کردیا۔ آخر فوج کے دباؤ پر حسین ارشاد کو استعفی دینا پڑا۔ فوج نے اقتدار سنبھالنے سے گریز کیا اور چیف جسٹس کی زیر نگرانی عبوری حکومت قائم کردی۔ اس حکومت کے تحت پانچویں عام انتخابات منعقد ہوئے جو بیگم خالدہ ضیا کی پارٹی نے جیتے اور وہ وزیراعظم بن گئیں۔

بیگمات کی کشمکش

1974ء میں شیخ مجیب الرحمن نے مملکت کا حکومتی نظام پارلیمانی سے صدارتی بنادیا تھا تاکہ اپنی ذات میں تمام تر قوتیں مجتمع کرسکیں۔ بیگم خالدہ ضیا نے اقتدار سنبھال کر ستمبر 1991ء میں ایک ریفرنڈم کرایا جس کے ذریعے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت بحال ہوگیا۔ بیشتر حکومتی قوتیں وزیراعظم کو واپس مل گئیں جبکہ صدر کا عہدہ محض نمائشی رہ گیا۔مارچ 1994ء میں ضمنی الیکشن ہوئے، بیگم حسینہ واجد اور دیگر اپوزیشن لیڈروں نے حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے الیکشن جیتنے کی خاطر دھاندلی کی اور سرکاری مشینری کا استعمال کیا۔

یوں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ٹکراؤ نے جنم لیا۔ اپوزیشن پارٹیوں نے عوامی مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری کردیا تاکہ حکومت ہٹائی جاسکے۔ یہ احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں وقفے وقفے سے 2009ء تک ہوتی رہیں۔ انہوں نے قومی معیشت کو منجمند کیے رکھا۔ البتہ ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت کو خاص نقصان نہیں پہنچ سکا۔1996ء کے الیکشن بیگم حسینہ کی پارٹی نے جیتے اور وہ وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ ان کے دور حکومت میں بی این پی اوردیگر اپوزیشن پارٹیاں ہڑتالیں کراتی رہیں۔2001ء کے الیکشن پھر بیگم خالدہ نے جیتے اور اقتدار سنبھالنے میں کامیاب رہیں۔ 2006ء میں ان کی حکومت ختم ہوئی تو نیا تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔ عوامی لیگ نے صدر اعجاز الدین کی زیر نگرانی نئے الیکشن کرانے سے انکار کردیا۔ اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ صدر بی این پی کے طرفدار ہیں۔

لہٰذا کسی غیر جانب دار شخصیت کو نگران حکومت سونپی جائے۔ہڑتالیں اور احتجاجی مظاہرے روکنے کی خاطر جنوری 2007ء میں فوج نے جزوی مارشل لاء لگادیا۔ صدر اعجاز الدین کو گھر بھجوایا اور سنٹرل بینک کے سابق گورنر، ڈاکٹر فخر الدین کو نگران حکومت سونپ دی۔ ان کی کابینہ میں کئی ٹیکنو کریٹ شامل کیے گئے۔بیگم خالدہ ضیا اور بیگم حسینہ واجد، دونوں پر الزام تھا کہ ان کے ادوار حکومت میں کرپشن ہوئی ہے۔ اس میں ان کے عزیز و اقارب اور پارٹی رہنما ملوث تھے۔ دونوں بیگمات پر الزامات یہ تھے کہ انہوں نے کرپشن روکنے کی خاطر ٹھوس اقدامات نہیں کیے اور یوں اپنے فرائض سے چشم پوشی برتی۔ انہی الزامات کے تحت بیگمات کو گرفتار کرلیا گیا اور ان سے پوچھ گچھ ہونے لگی۔

اسٹیبلشمنٹ  کی بیداری

اس وقت تک بنگلادیشی فوج کو احساس ہوچکا تھا کہ معیشت کی ترقی کے لیے ملک میں امن و امان ہونا بہت ضروری ہے۔ اسی لیے فوج کی حمایت سے نگران حکومت نے مختلف اقدامات کیے تاکہ عوام کو پُرسکون کیا جاسکے۔ دونوں بیگمات کی گرفتاری بھی اسی حکومتی مہم کا حصہ تھی۔ مزید براں حکومت نے کرپٹ سیاستدانوں، سرکاری افسروں، صنعت کاروں وغیرہ کو بھی گرفتار کرلیا اور ان پر مقدمے چلائے۔ غرض نگران نے مملکت میں عدل و انصاف لانے اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کی کوششیں کیں۔

مقصد یہی تھا کہ معاشرے میں حکومتی رٹ بحال کی جاسکے۔دسمبر 2008ء میں الیکشن ہوئے جو بیگم حسینہ واجد کی پارٹی نے جیت لیے۔ وہ تب سے حکومت کررہی ہیں۔ 2014ء اور 2018ء کے انتخابات میں بی این پی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں نے حصہ نہیں لیا۔ ان کے مطالبہ تھاکہ الیکشن نگران حکومت کے تحت کرائے جائیں۔ یہ مطالبہ حسینہ واجد نے تسلیم نہیں کیا لہٰذا انہوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ تاہم اس عمل کا منفی اثر یہ ہوا کہ معاشرے میں اپوزیشن جماعتوں کی مقبولیت اور اثرورسوخ کم ہوگیا۔

حسینہ واحد حکومت نے معیشت کی ترقی کے لیے اہم اقدامات کیے۔ ملک میں بجلی کی کمی تھی۔ حکومت نے نجی بجلی گھر قائم کرنے کی اجازت دے دی جس سے لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں مدد ملی۔ مختلف علاقوں میں ٹیکس فری زون قائم کیے گئے جہاں پاکستانی صنعت کاروں نے بھی بعدازاں گارمنٹس فیکٹریاں لگائیں۔ نجی شعبے کے لیے مراعات کا اعلان کیا تاکہ وہ مملکت میں سرمایہ کاری کرسکے۔خاص بات یہ ہے کہ اس دوران حسینہ واجد حکومت کو فوج کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ فوج کے شدید دباؤ کی وجہ سے اپوزیشن پارٹیوں نے ہڑتالیں کرانے سے گریز کیا۔

نیز ایسے احتجاجی مظاہرے بھی نہیں کرائے جن سے معاشی پہیہ جام ہوجائے۔ یوں اپوزیشن میڈیا میں زبانی کلامی تو حکومت کے خاف خوب برستی رہی مگر اس نے امن و امان میں خلل ڈالنے والا کوئی بڑا اقدام نہیں کیا۔ یوں معاشی سرگرمیاں زور و شور سے جاری رہیں۔حسینہ واجد حکومت بھارت کی جانب جھک گئی۔ اس نے جماعت اسلامی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے لیڈروںکو پھانسی دی۔ حکومت کے بعض وزیروں پر کرپشن کے الزامات لگے۔ وقتاً فوقتاً حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے لیکن معاشی ترقی کا پہیہ جاری و ساری رہا۔

اس پہیے کو رواں دواں رکھنا بنگلادیشی حکمران طبقے یا اسٹیبلشمنٹ کی بہت بڑی کامیابی ہے۔بیگم حسینہ واجد ڈکٹیٹر سمجھی گئی، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے بنگلادیش میں گڈگورننس کو رواج دیا اور ایک عمدہ منتظم بن کر سامنے آئی۔فوج اور حکومت کی ہم آہنگی سے خوشگوار نتائج سامنے آئے۔1971ء میں بنگلادیش کا جی ڈی پی صرف 8.75 ارب ڈالر تھا جو  2000 ء میں 53 ارب ڈالر تک پہنچا۔پچھلے دس سال میں وہ115 ارب ڈالر سے 347 ارب ڈالر تک پہنچ چکا۔ (پاکستان کا جی ڈی پی 270 ارب ڈالر ہے) گویا ان دس برسوں میں بنگلادیش نے دوگنی رفتار سے زیادہ معاشی ترقی کی اور اہم وجہ امن و امان کا قائم ہونا تھا۔ نیز حکومت کے معیشت دوست اقدامات بھی معاشی بڑھوتری کا سبب بنے۔

متوسط طبقے کا جنم

معاشی ترقی کے باعث لاکھوں بنگلادیشی غربت کی گرفت سے نکل آئے۔ معاشرے میں متوسط طبقہ پیدا ہوا جو آج ایک طاقت بن چکا۔ یہ طبقہ اپنی قوت خرید بڑھنے سے ملکی معیشت کو بھی ترقی دے رہا ہے۔ بنگلادیش 45 ڈالر کی مصنوعات باہر بھجواتا ہے۔ (پاکستان کی برآمدات 21 ارب ڈالر) ان میں 80 فیصد ریڈی میڈ گارمنٹس کا حصہ ہے۔ کورونا وائرس وبا نے اس صنعت کو نقصان پہنچایا مگر اب وہ سنبھل رہی ہے۔بنگلادیشی معیشت کے دیگر اعدادو شمار بھی قابل رشک ہیں۔ مملکت پر مجموعی قرضہ جی ڈی پی کا 40 فیصد ہے۔

گویا بنگلادیشی حکومتیں کم قرضے لیتی رہیں۔ پاکستانی حکومتوں نے تو قرضے لے لے کر یہ شرح اپنے جی ڈی پی کے تقریباً 100 فیصد tk پہنچادی۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت کے دور تک پاکستان پر صرف ایک ہزار ارب روپے کا مجموعی قرضہ تھا۔ آج وہ 35 ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا۔ بنگلادیش 35 ارب ڈالر کے غیر ملکی ذخائر رکھتا ہے۔

پاکستان کے پاس صرف ساڑھے دس ارب ڈالر موجود ہیں۔درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ شروع میں بنگلادیش معیشت کو بام عروج پر پہنچانے والی ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت ابتداً سودمند عالمی معاہدوں کے ذریعے پھلی پھولی۔ 2009ء سے حکومت نے بھی اسے پھلنے پھولنے کے تمام مواقع فراہم کیے۔ یوں ملک و قوم کو معاشی ترقی سے فائدہ پہنچا۔ اب بنگلادیشی صنعت کار اور کاروباری دیگر صنعتوں مثلاً ادویہ سازی، کیمیائی مصنوعات، چمڑا سازی وغیرہ کو بھی ترقی دے رہے ہیں۔

بنگلادیش میں معاشی ترقی جنم لینے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ انٹیلی جنس اداروں نے تمام وزیروں، مشیروں اور سرکاری افسروں کی سرگرمیوں پر نظر رکھی اور انہیں کھل کر کرپشن کرنے نہیں دی۔ حکومتی ڈھانچے میں شامل جو فرد کرپشن میں ملوث نکلے، اسے فوراً برطرف کردیا جاتا۔ کرپشن کے خاتمے سے عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہوا اور معاشی سرگرمیوں نے بھی فروغ پایا۔یہ درست ہے کہ بنگلادیشی معیشت کو ابھی کئی چیلنج درپیش ہیں۔ بنگلادیشی کارکنان شکایت کرتے ہیں کہ ریڈی میڈ گارمنٹس فیکٹریاں انہیں کم تنخواہیں دیتی ہیں۔

فیکٹریوں میں کام کے حالات اچھے نہیں، ایک کمرے میں کئی مردوزن کام کرتے ہیں۔ حسینہ واجد حکومت پر الزام ہے کہ وہ روہنگیا اور آسام کے مسلم مہاجرین اور بہاری مسلمانوں سے اچھا سلوک نہیں کرتی۔ کورونا وبا نے بھی معیشت کو نقصان پہنچایا۔ اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ حکومت آمر بن چکی اور مخالفین کو ہر ممکن طریقے سے دبانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اس نے غنڈوں پر مشتمل گروہ بنا رکھے ہیں۔

ان مسائل کے باوجود بنگلادیشی معیشت کی ترقی کا سفر جاری رہنے کا امکان ہے۔ وجہ یہ کہ اسٹیبلشمنٹ کے تینوں اہم ستونوں… فوج، سیاسی حکومت اور افسر شاہی میں اب بھی ہم آہنگی اور مفاہمت موجود ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی تو چند سال میں بنگلادیش غریب ترین ممالک کی صف سے نکل کر ترقی پذیر ملکوں میں شامل ہوجائے گا۔ یہ تبدیلی بنگلادیشی حکمران طبقے کی نمایاں کامیابی تصّور ہوگی جس نے اپنی مملکت کا مستقبل روشن بنا دیا۔

درج بالا داستان سے آشکارا ہے کہ پاکستان کو بعض وہ عوامل میّسر نہیںجو بنگلادیش کو حاصل ہیں۔ مثلاً سستی افرادی قوت، سودمند عالمی معاہدے اور سرحدوں پر کٹردشمن کی عدم موجودگی۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ خصوصاً پچھلے دس سال میں بنگلادیشی حکمران طبقہ مملکت میں گڈگورننس لانے میں کامیاب رہا۔ اس کے عملی و ٹھوس اقدامات سے ملک میں خوشحالی آئی اور عام آدمی کا معیار زندگی بلند ہوا۔ حکومتی ڈھانچہ جمہوری ہو یا بادشاہی، حکومت وہی بہترین ہے جو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔ پاکستانی حکمران طبقہ بھی گڈ گورننس کے بنگلادیشی ماڈل سے سبق سیکھ کر پاکستان میں معاشی ترقی و خوشحالی کے دور کا آغاز کرسکتا ہے جس سے عام آدمی کو فائدہ ہو گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔