انسانی مرکزیت اور طبقاتی تضادات

عمران شاہد بھنڈر  اتوار 16 اگست 2020
ibhinder@yahoo.co.uk

[email protected]

انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ’’بداخلاقی‘‘ جو غیر انسانی تصورات کے ظہور کا سبب بنی ہے وہ ایک طبقاتی نظام کی تشکیل ہے۔

طبقاتی نظام کی تشکیل کے قوانین کارل مارکس سے بہت پہلے فلسفی دریافت کر چکے تھے اور اس بات کا اظہار بھی مارکس اور اینگلز نے کئی بار کیا ہے۔ اصل مسئلہ محض ان قوانین کی دریافت ہی نہیں تھا، ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کیسے ہوتی ہے، اسے عملی جامہ پہنانہ بھی انھیں قوانین کا حصہ تھا، جدوجہد بذاتِ خود ان قوانین کا حصہ ہے۔لہذ جدو جہد الگ سے کوئی شے نہیں ہے کہ جو سماج پر باہر سے مسلط کی جاتی ہے، بلکہ یہ سماج کے اندر سے طبقاتی تضادات کے لازمی نتیجے کے طور پر پھوٹتی ہے۔

بالکل اسی طرح روشن خیال افکار جو ایک دقیانوس معاشرے کی ساختوں کو تباہ کرتے ہیں، وہ بھی سماجی تضادات کا حصہ ہوتے ہیں، جن کا تفاعل دو طرفہ ہوتا ہے: ان کی ایک جہت یہ ہے کہ وہ سماجی بگاڑ کی وجوہ کو عقلی بنیادوں پر دریافت کرتے ہیں، اور دوسری یہ کہ وہ ان وجوہ پر اثر انداز ہوتے ہیں، یعنی لوگوں کو ان کی شعوری جہت متعین کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ یہ افکار چونکہ انسان کے اپنے پیدا کردہ ہیں، اس لیے انھی میں انسان کی مرکزیت کا تصور پنہاں ہوتا ہے۔ ان کی جڑوں کو اس سماج کے اندر سے تلاش کیا جانا چاہیے جو سماج خود انسان کی عملی فعلیت کی تشکیل ہوتا ہے۔

انسانی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب جسے فرانسیسی انقلاب کہا جاتا ہے جس کے بطن سے جدید مغربی معاشروں اور ان میں موجود انسان سے وابستہ ا نصاف، مساوات، جمہوریت، انفرادیت اور آزادی جیسی اقدار کا ظہور ہوا تھا، وہ عظیم انقلابی مفکر مارکس سے قبل واقع ہو چکا تھا۔ اور انقلاب سے قبل فلسفی ا س کی آمد کا عندیہ بھی دے چکے تھے اور بعد ازاں اس کی حمایت میں بھی کھل کر لکھ چکے تھے۔

مارکس اور اینگلز نے سماج کے اندر سے ان قوانین کو دریافت کرنے کی کوشش کی جو فرانسیسی معاشرے کو انقلاب کی جانب لے گئے، اور انھوں نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ جس طرح نئی بورژوازی (صنعتی سرمایہ دار) اور جاگیر داری کے درمیان پیکار ہوئی ہے، بالکل ویسے ہی قوانین کے تحت اگلی پیکار بورژوازی اور پرولتاریہ کے درمیان ہو گی کیونکہ اس فرانسیسی انقلاب سے طبقات کا خاتمہ نہیں ہوا ہے بلکہ ایک اور طبقاتی سماج وجود میں آگیا ہے، لہذا اگلا معرکہ ناگزیر ہے جس کے بعد سوشلسٹ آدرشوں کی بنیاد پر ایک غیر طبقاتی سماج کے امکان ممکن ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی واقع ہوا ہے اس کے محرکات کو سماج کے اندر سے ہی تلاش کیا جا سکتا ہے۔

مارکس اور اینگلز نے روسو، دیدے رو، سینٹ سائمن، رابرٹ اوون، فوریئر، والٹیئر اور عظیم جرمن ’’عینیت‘‘ پسند فلسفوں سے جو چیز سیکھی تھی وہ انسان کی مرکزیت کا تصور تھا، یعنی انسان خود پر انحصار کر کے خود کو اپنی ہی فعلیت سے کیسے معروضی شکل دے سکتا ہے۔ فلسفیوں کی ا س عظیم روایت کا مطلب یہی تھا کہ انسان ہر وہ ’’غیر انسانی‘‘ ذریعہ جو کسی نہ کسی سماجی یا مذہبی روایت کے تحت ا س کے دماغ میں انڈیل دیا جاتا ہے، اور ا س بعد انسان اپنے فکری و عملی ذرایع کا استعمال نہ کرتے ہوئے خود اپنے ہی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے کسی متصورہ ضابطے کا سہارا لیتا ہے اس سے نجات کیسے حاصل کی جا سکتی ہے۔

عمانوئیل کانٹ کا عظیم کارنامہ یہی تھا کہ اس نے عقل کی مرکزیت کے تصور پر اس غیر عقلی وسیلے کو شکست دی، اس بنیاد پر کہ آزادی اخلاقیات کا اصولِ اوّل ہے، اور یہ آزادی ہر غیر انسانی فکری وسیلے سے آزادی ہے۔ جب تک ان قوانین کو دریافت نہ کرکے منطقی اور عقلی طور پر انسان کو آزاد نہ دکھایا جائے اس وقت تک اخلاقیات کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ کانٹ کی اخلاقیات کا تصور تجریدی تھا، یعنی سماج سے کٹا ہوا، تاہم اس کے باوجود انسان کی مرکزیت پر مبنی اہم سماجی ضروریات کی تکمیل کی جانب ایک عظیم پیش رفت تھا۔ اس کا کارنامہ یہ تھا کہ اس نے اس ’’مقصدیت‘‘ کو کائنات سے ماورا نہیں بلکہ خود انسان کے وجود سے جوڑ دیا۔

ایک ایسی مقصدیت جس کا جواز اس کے اپنے داخلی وجود کی پکار پر مشتمل تھا۔جس کو ا س سے قبل پادری انسان سے ماورا کسی الہامی ضابطے میں تلاش کرتے ہوئے اپنی نظریاتی طاقت کا جواز تلاش کیا کرتے تھے اور انسانوں کو محکوم رکھنے اور ان پر ظلم ڈھانے میں صرف فیصلہ کن کردار کے حامل نہ تھے بلکہ ان پر ظلم ڈھانے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہ غیر انسانی رجحان تقریباََ ہر مذہبی آئیڈیالوجی کا اساسی عنصر رہا ہے، اور آج بھی مختلف شکلوں میں مذہبی معاشروں کے ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔

انسان کی’’ مرکزیت‘‘ کو قائم کرنے کے لیے یہ ناگزیر ہے کہ انسان فکری اور عملی سطح پر ہر اس شے ، خیال اور وجود سے دست بردار ہوجائے جو اس کے باطن میں داخل ہو کر اسے اس کے اپنے آپ سے الگ کرتی ہے، اور خود پر مکمل انحصار کرے۔ وہ خود سے باہر، خود سے ماورا کسی بھی ضابطے، کسی بھی آئیڈیالوجی سے عملی سطح پر دست بردار ہو۔روشن خیالی پروجیکٹ کا یہ انسان مرکز پہلو ہمیشہ انسان دوستوں کے ذہن میں رہنا چاہیے کہ انسان کے وجود، اس کے احساس ، جذبے، اور فکر کی روشنی میںکی گئی تلاش ہی اس کی اپنی تلاش کے مترادف ہے۔

جو شے خود انسان کو لامرکز کر کے مرکز پر براجمان ہونا چاہتی ہے وہ انسان کی مرکزیت کی بنیاد نہ کبھی بنی ہے اور نہ کبھی بن سکے گی۔ یہی فکر روشن خیالی پروجیکٹ کا وہ مرکزی خیال ہے جس پر جدید انسان کے علمی و اخلاقی ارتقا کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ فلسفی کسی بھی دوسری ’’ہستی‘‘ سے ا س لیے بھی افضل ہوتا ہے کہ وہ کسی آئیڈیالوجی کی بنیاد پر اعلیٰ و ادنیٰ، خیر و شر کے غیر منطقی تصورات پر انحصار نہیں کرتا،بلکہ اس آفاقی اخلاقیات کے منطقی ذرایع وہ خود انسان کی فکری و عملی مرکزیت کے تصور کے تحت دریافت کرتا ہے۔

وہ انسان کو خوف زدہ نہیں کرتا، بلکہ خوف سے نجات دلاتا ہے۔وہ کھل کر اپنے سے پہلے فلسفیوں سے اختلاف کرتا ہے، دوسرے فلسفیوں کی موت کے پروانے جاری نہیں کرتا، اور نہ کسی ’’ضابطے‘‘ سے قتال کا جواز تلاش کرتا ہے۔ وہ عقلیت کے ٹھہرائو کا نہیں ا سکے تسلسل کا قائل ہوتا ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ انسان علم کی اس عظیم روایت پر کاربند رہے جس کا وہ خود خالق ہے۔

وہ فلسفہ، منطق، سائنس اور آرٹس کے میدان میں اپنی فعلیت کو شناخت کرے ۔ وہ اپنی ہی طبقاتی تقسیم کے جواز کو دریافت کرے، ان ’’ضابطوں‘‘ کو پہچانے جو ا س طبقاتی تفریق کو’’ فطرتی‘‘ جواز فراہم کرتے ہیں، اور ان کے خاتمے کے ’’سائنسی ‘‘ اصول دریافت کرتا ہوا اپنے لیے ایک بہتر سماج کو تشکیل دینے کا راستہ ہموار کرے۔ ایک ایسا سماج جس میں علمیات ، اخلاقیات اور جمالیات کے تمام پیمانے اس کی مرکزیت کے تصور کے تابع ہوں، نہ کہ کسی ’’دیوتا‘‘ کی مسرت کے احساس سے وابستہ ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔