حکمران اپنی ہی برادری پرکوئی بوجھ کیوں ڈالیں گے؟

نصرت جاوید  جمعـء 13 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

خلقِ خدا کی بات کریں تو یقیناً ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ صرف زندہ رہنے کی خاطر ہمہ وقت مشقت کرتے لوگوں کو اس بات سے واقعتاََ کوئی غرض نہیں کہ ان کے ملک میں جمہوریت ہے یا آمریت۔ عدلیہ کا سربراہ کون ہے اور اسے اپنی قوت و اختیار کو کیسے استعمال کرنا چاہیے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جو ہنگامے برپا ہوتے رہتے ہیں، ہمارے عوام کی کثیر تعداد ان سے لطف اندوز ہونے کے مواقع ہی نہیں ڈھونڈ پاتی۔ ہم صحافیوں کو خلقِ خدا کی مہنگائی کے بارے میں غم و غصے کا خوب علم ہے۔ ٹی وی کیمروں کے سامنے بیٹھ جائیں تو اس کا ذکر کیے بنا Ratings نہیں ملتیں۔ سوال مگر یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہنگائی کے موضوع پر محض سیاپا فروشی خلقِ خدا کی کوئی مدد کر بھی سکتی ہے یا نہیں۔

اب تک مہنگائی کے بارے میں ہم صحافیوں کا ’’طریقہ واردات‘‘ بس اتنا رہا ہے کہ اپنے سے جونیئر لوگوں کو کیمرہ دے کر بازار میں بھیج دو۔ وہ بازار میں موجود افراد کے Sots یعنی Sound on Tapes جمع کر کے آپ کے لیے ایک کربناک Package بنا دیتا ہے۔ اپنے پروگرام میں آپ اسے Play کرتے ہیں اور مختلف جماعتوں کے نمایندوں سے بار بار یہ سوال کہ عوام کی مشکلات کا ازالہ کیسے ہو۔ مہنگائی جیسے گنجلک مسئلے کے مسلسل تذکرے سے ہم لوگوں نے عوام میں یہ تاثر محکم کر دیا ہے کہ اگر ہمارے حکمران مجسٹریٹوں کو بازاروں میں مسلسل بھیجیں اور دکانداروں کو نمایاں طور پر چسپاں نرخناموںPrice   List کے مطابق چیزیں بیچنے پر مجبور کریں تو شاید اس ملک میں مہنگائی ختم ہو جائے۔ ہمیں چونکہ بازاروں میں مجسٹریٹس اکثر یہ کام کرتے نظر نہیں آتے اس لیے ہمیں یہ سیاپا کرنے میں بڑی آسانی ہو جاتی ہے کہ چونکہ ہمارے حکمران ’’قومی دولت لوٹ کر‘‘ محل نما مکانوں میں محصور ہو بیٹھے ہیں اس لیے انھیں عوام کی مشکلات کا اندازہ ہی نہیں۔ وہ مجسٹریٹوں کو بازاروں میں بھیجنے کا تردد ہی نہیں کرتے۔

کسی بھی ملک کی اشرافیہ اپنے عوام کے حقیقی مسائل سے عموماََ بے خبر ہی ہوا کرتی ہے۔ یہ واقعہ صرف پاکستان ہی میں رونما نہیں ہوتا۔ جمہوریت کا سب سے بڑا حسن مگر یہ ہے کہ حکومت میں آنے کے لیے اس نظام میں طاقتور ترین فرد کو بھی ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے اور ووٹ صرف اسی صورت ملتے ہیں اگر کوئی سیاستدان لوگوں کی روزمرہّ ضروریات کے حوالے سے کوئی نہ کوئی Feel Good  Factor پیدا کر سکے۔ سیاستدانوں کے ووٹ پر انحصار سے میڈیا کو پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذرا سنجیدگی، خلوص اور لگن کے ساتھ مہنگائی کے حقیقی اسباب کا سراغ لگانا چاہیے۔ حقیقی اسباب کا سراغ لگانا ہی کافی نہیں۔ اصل ہنر یہ بھی ہے کہ ان اسباب کو عام آدمی کو سمجھانے کے لیے بڑی مہارت کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔

نواز شریف کی تیسری حکومت آتے ہی مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتخابی مہم کے انتہائی گرم موسم میں سارا ملک لوڈشیڈنگ کے طویل گھنٹوں کی وجہ سے بلبلا رہا تھا۔ ہمارے پاس لوگوں کی ضروریات کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ مگر بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو دینے کے لیے سرکاری خزانے میں وافر رقوم موجود نہ تھیں۔ پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ امریکا Coalition Support Fund کے روکے ڈالر ادا کر دے گا تو وہ انھیں بجلی پیدا کرنے والوں میں بانٹ دے گی۔ واشنگٹن مگر اس حکومت سے اس لیے ناراض ہو گیا کہ اس نے سلالہ واقعہ کے بعد افغانستان جانے والی نیٹو سپلائی سات ماہ تک بند رکھی۔ جب تک یہ قضیہ حل ہوا اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور پیپلز پارٹی کو اس کی سزا انتخابات کے نتائج کی صورت بھگتنا پڑی۔

نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو بجلی اور ووٹ کے باہمی تعلق کا خوب اندازہ تھا۔ اسی لیے تیسری بار حکومت سنبھالتے ہی ان لوگوں نے اجلاس کے بعد اجلاس برپا کیے۔ بالآخر 500 ارب روپے کی یک مشت ادائیگی کے بعد لوڈشیڈنگ کا بحران خوش گوار حد تک ختم کر دیا گیا۔ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات پا جانے کے بعد ہم نے کبھی سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی کہ سرکلرڈیٹ کے 500 ارب روپے کیسے اکٹھا اور ادا کیے گئے۔ ناک سیدھی طرح پکڑیں یا ہاتھ موڑ کر حقیقت یہ ہے کہ ان رقوم کی ادائیگی کے لیے درحقیقت نوٹ پر نوٹ چھاپنا پڑے۔ یہ نوٹ چھپے تو پاکستانی روپے کی قدر کم ہو گئی۔ روپے کی قدر کم ہو تو اس کا سب سے بڑا اثر تیل کی قیمتوں پر پڑتا ہے۔

درآمد شدہ تیل کی قیمت بڑھے تو ڈیزل کی وجہ سے کاشتکار کے پیداواری اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کی فصل کٹ جائے تو اسے مارکیٹ تک پہنچانے کے لیے ٹرانسپورٹرز بھی اپنے نرخ بڑھا دیتے ہیں۔ مختصراََ آڑھتی سے دکاندار تک کوئی شے پہنچتے پہنچتے پہلے سے کہیں زیادہ مہنگی ہو چکی ہوتی ہے۔ کوئی مجسٹریٹ کسی دکاندار کو یہ اشیاء ان کی قیمت خرید سے کم قیمت پر فروخت کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا۔ زیادہ تنگ کرے گا تو لوگ دکانیں بند کر دیں گے تو اشیاء منہ مانگی قیمت پر بھی بازاروں میں نظر نہیں آئیں گی۔ روزمرہّ ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں کو قابلِ برداشت سطح تک رکھنے کے لیے سب سے بنیادی بات اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ پاکستان کی ریاست اب بازار سے مہنگی بجلی خرید کر اسے صارفین کو سستے داموں فروخت کرنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ بتدریج مجھے اور آپ کو کم از کم اپنے بلوں کے ذریعے وہ قیمت واپڈا کو ضرور ادا کرنا ہو گی جس قیمت پر وہ اسے بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں سے خریدتا ہے۔ اس کے بغیر جو کچھ کہا جا رہا ہے صرف اور صرف سیاپا ہے اور کچھ نہیں۔

اپنے جواں سال دوست دانیال عزیز کا میں اس لیے بھی شکر گزار ہوں کہ بدھ کے دن قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے اس نے بالآخر تفصیل سے سمجھا ہی دیا کہ صوبائی حکومتوں اور مجسٹریٹوں کے پاس قیمت کم کرنے کا کوئی نسخہ موجود نہیں۔ اس مسئلے کا واحد حل صرف اور صرف وزیر خزانہ کے پاس ہے۔ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ دانیال نے ہمیں یاد دلایا کہ ماضی کے وزیر خزانہ شوکت ترین اور آج کے اسحاق ڈار دونوں نے IMF کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ افراطِ زر میں کمی کرنے کے لیے سخت Monetary اقدامات کریں گے۔ آسان الفاظ میں بین الاقوامی اداروں سے بھاری بھر کم امدادی قرضہ لیتے ہوئے یہ وعدے کیے گئے تھے اس ملک کے بڑے صنعت کاروں اور کاروباری افراد کو بینکوں سے جو قرضے دیے جاتے ہیں ان کی شرح سود بڑھائی جائے گی۔ ماضی اور اب کی حکومت نے یہ وعدہ کرنے کے بعد اپنی ضرورت کی رقوم تو IMF وغیرہ سے حاصل کر لیں مگر قومی بینکوں کی طرف سے دی گئی رقوم کی شرحِ سود میں ہرگز کوئی اضافہ نہ کیا۔ بینکوں سے قرضے لینے والے بڑے صنعت کاروں اور کاروباری افراد کے لیے زندگی ویسے ہی آسان رہی اور مہنگائی کا سارا بوجھ میرے اور آپ جیسے بے وسیلہ لوگوں کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ دانیال نے باتیں تو سو فیصد درست بتائیں۔ مگر میں اس کی تقریر کے دوران یہی سوچتا رہا کہ نواز شریف اور ان کے اسحاق ڈار اپنی ہی صنعتی اور کاروباری افراد پر مشتمل برادری پر کوئی بوجھ کیوں ڈالیں گے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔