عبدالقادر ملا‘ شہید پاکستان‘ فرزند پاکستان

اسلم خان  جمعـء 13 دسمبر 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

مشرقی پاکستان کب کا مرحوم ہوا، ڈھاکا ڈوب چکا لیکن اس کے گلی کوچوں میں دو قومی نظریے کے خلاف جنگ آج بھی جاری ہے جو پاکستان کی بنیاد اور اساس ہے۔ بزرگ سیاسی رہنما عبدالقادر ملا کی شہادت‘ نام نہاد جنگی جرائم کے بین الاقوامی ٹربیونل کے فیصلے پر پھانسی کی سزا پر عمل درآمد ،1971ء میں وفاقی پاکستان کے خلاف کامیاب بھارتی جارحیت کے بعد دو قومی نظریے پر ضرب کاری ہے۔ 16 دسمبر سے صرف چار دن پہلے 65 سالہ عبدالقادر ملا کو تختہ دار پر لٹکا کر ہمیں، پاکستانی قوم کو، پیغام دیا گیا ہے کہ تمہارے ہتھیار ڈالنے کے‘ 42 طویل ماہ و سال گزرنے کے باوجود ہم دو قومی نظریے کا پرچار کرنیوالوں کا تعاقب جاری رکھیں گے اور ہم نے شرمناک غیر جانبداری کی مُہر اپنے منہ پر لگائی ہوئی ہے۔ مرحوم مشرقی پاکستان میں وفاق پاکستان کی جنگ لڑنے والے آئین پاکستان کے تحت اپنے مادر وطن کے تحفظ کے لیے بھارتی جارحیت اور سازشوں کے سامنے سینہ سپر تھے۔ مہذب دنیا کا کون سا قانون اپنے وطن کے دفاع کو ’جنگی جرم‘ قرار دیتا ہے۔ 16 دسمبر 1971ء سے پہلے تو بنگلہ دیش کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ہمارے بعض نام نہاد روشن خیال دانشور عبدالقادر ملا کو ’’میر پور کا قصائی‘‘ قرار دے رہے ہیں، ان حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ عبدالقادر ملا میدان سیاست میں آنے سے پہلے عامل اخبار نویس تھے، وہ بنگلہ روزنامہ ’سنگرام‘ کے مدتوں ایڈیٹر رہے اور دو مرتبہ نیشنل پریس کلب ڈھاکا کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ بعد ازاں عام انتخابات میں بھاری ووٹوں سے دو مرتبہ بنگلہ دیش پارلیمان کے رکن بنے۔

بنگلہ دیش میں جاری سیاسی بحران اور پاکستان کے فراموش کردہ فرزندوں کو قید و بند اور پھانسیوں کے وحشیانہ کھیل میں شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نہیں اصل فریق بھارت ہے جس کی محبت میں ہم خوامخواہ مرے جا رہے ہیں، باولے ہو رہے ہیں۔

پاکستان کے عظیم المرتبت فرزند فضل القادر چوہدری کے صاحبزادے صلاح الدین چوہدری بھی موت کی کال کوٹھڑی میں پھانسی گھاٹ کے منتظر ہیں، ان کو بھی جرم وفائے پاکستان میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ صلاح الدین‘ 1971ء کی خانہ جنگی اور بھارتی جارحیت کے دوران مغربی پاکستان میں زیر تعلیم تھے جس کی شہادتیں اور مستند ثبوت حسینہ واجد کی نام نہاد عدالتوں کو دیے گئے تھے۔ بیگم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے صلاح الدین چوہدری کو سزائے موت‘ ذہنی افلاس کا شکار ہمارے بزعم خود دانشوروں کے لیے سبق ہے جو عبدالقادر ملا اور ان کے ساتھیوں کی سزائوں پر بغلیں بجا رہے ہیں اور اسے صرف جماعت اسلامی کا مسئلہ بنا رہے ہیں۔ جناب والا‘ خالدہ ضیا کی (BNP) تو مکمل طور پر اعتدال پسند سیکولر جماعت ہے ۔ جس کے رہنمائوں کو صرف اس لیے کال کوٹھڑی میں ڈالا گیا ہے کہ ان کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لینے کا ’جرم‘ کیا تھا، اس لیے عبدالقادر ملا قافلۂ راہِ وفا کا شہید‘ نہیں جناب شہیدِ پاکستان ہے جسے 42 سال بعد تختہ دار پر کھینچا گیا۔ سلام، صد سلام ترک وزیراعظم طیب اردگان پر جنہوں نے 12 دسمبر کو عبدالقادر ملا کو پھانسی پر عملدرآمد سے چند لمحے پہلے تک انھیں  بچانے کی کوششیں جاری رکھیں۔

بنگلہ دیشی وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے مطابق طیب اردگان کا آخری فون 12دسمبر کو غروب آفتاب کے بعد آیا تھا۔ جب کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے پاکستان کے آئین کے مطابق پاکستان کی مسلح افواج کے شانہ بشانہ دفاع وطن کا مقدس فریضہ انجام دینے والوں کو پھانسی گھاٹ لے جانے کے وحشیانہ عمل کو بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ قرار دے کر اپنا ’’حق‘‘ ادا کر دیا۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق بنگلہ دیش کی خانہ جنگی کا باب ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا تھا اور جنگی جرائم کے سلسلے میں مزید کارروائی نہ کرنے کا معاہدہ کیا گیا تھا جس پر مرحوم ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمن کے دستخط تھے لیکن بھارت کے ساتھ پیار و محبت کی پینگیں بڑھانے میں مگن ٹولے کو پاکستان سے وفا شعاری کے جرم میں سزا پانے والوں سے کیا لینا دینا۔ انھیں بخوبی علم ہے کہ یہ بھارت کے مجرم ہیں اور بھارت ہمارا دوست ہے اس لیے اس کے مجرموں کے لیے انصاف کی دہائی کیوں دی جائے کہ جن کے آبائو اجداد نے‘ بھارت ماتا کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا جرم کیا تھا، میرے زود رنج مخبر نے جو اب ایوان اقتدار میں سرنگ لگانے کے فن میں طاق ہو چکا ہے انکشاف کیا ہے ہمارے حکمران کشیدگی کے لمحات میں اعصابی سکون کے لیے ایک مزاحیہ ٹی وی شو دیکھتے اور دل کو بہلاتے ہیں۔

بیگم حسینہ واجد تیزی سے خوشحالی کی طرف بڑھتے بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کے سپرد کیوں کر رہی ہیں اور ان پر 42 سال بعد جنگی جرائم کا انکشاف کیوں کہ ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں جنرل حسین محمد ارشاد کی آمریت کے خلاف عوامی لیگ کی حسینہ واجد اور جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے پروفیسر غلام اعظم پارلیمانی جمہوری نظام کی واپسی کے لیے باہم ’’شانہ بشانہ‘‘ شریک سفر رہے ہیں۔ عام انتخابات سے پہلے غیر جانبدار عبوری انتظامیہ کی تشکیل کی آئینی ترمیم پروفیسر غلام اعظم نے پیش کی تھی جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا تھا، اس وقت بیگم حسینہ واجد نے بنگلہ دیش اور بنگالی عوام کے ان مجرموں کو کیوں گوارا کیا تھا۔ بنگلہ دیش کے پارلیمانی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو یہ دلچسپ انکشاف ہوتا ہے کہ آج تک کوئی سیاسی جماعت اپنی حکومت کی مدت کے خاتمے کے بعد دوبارہ عام انتخابات میں کامیاب ہو کر واپس نہیں آئی۔ شوریدہ سر بنگالی 5 سال میں بری طرح اکتا جاتے ہیں جنوری 2014ء کے عام انتخابات اگر شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوئے تو عوامی لیگ اور بیگم حسینہ واجد کی شکست یقینی ہے، اپنی متوقع شکست سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔ ان عام انتخابات کا بیگم خالدہ ضیا بائیکاٹ کر کے سڑکوں پر نکل آئی ہیں کہ ان کے 18 رکنی اتحاد میں شامل جماعت اسلامی پر عام انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔

شبِ گزشتہ بنگلہ دیش جاتیو پارٹی کے سربراہ جنرل حسین محمد ارشاد نے بھی جنوری 2014ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کر کے سڑکوں پر نکلنے کا اعلان کر دیا ہے، اب انتخابی عمل میں صرف عوامی لیگ اور اس کی طفیلی بھارت نواز جماعتوں کا اتحاد رہ گیا ہے۔

بنگلہ دیش کے گلی کوچوں میں گھیرائو جلائو‘ ہنگامہ آرائی اور دھرنے جاری ہیں حزب اختلاف نے بیگم حسینہ واجد کے استعفیٰ اور 8  نکاتی مطالبات پر مبنی دستاویز بنگلہ دیشی صدر کو پیش کر دی ہے خانہ جنگی کی آگ ڈھاکا کے بعد چٹا گانگ‘ سلہٹ اور راجشاہی تک پھیل رہی ہے۔ حسینہ واجد خود بھی حالات کو اس نہج پر لے جانا چاہتی ہیں کہ جنوری 2014ء کے انتخابات کا التوا یقینی ہو جائے۔ کاروباری طبقات اور سول سوسائٹی کی اکثریت سیاست میں وقفہ ضروری ہے  کا راگ الاپ رہی ہے ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے غیر جانبدارانہ ماہرین کی عبوری حکومت کا چرچا کُھل کر منظر عام پر آ گیا ہے اور کچھ کونوں کھدروں سے سخت گیر مارشل لا کی دبی دبی آوازیں بھی سنائی دے رہی ہیں۔

بنگلہ دیش کی اقتصادی اور معاشی صورتحال روز بروز خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے جس کا تمام تر انحصار 22ارب ڈالر کے ملبوسات کی برآمد پر ہے ڈھاکا سے چٹا گانگ کی بندر گاہ تک سڑک کے ذریعے سامان کی ترسیل بہت مہنگی اور پر خطر ہو چکی ہے جس کی وجہ سے برآمدات آدھی رہ گئی ہیں۔ ہر سال مون سون بنگلہ دیش کے لیے تباہی و بربادی اپنے جلو میں لے کر آتا ہے اسی طرح ہر پانچ سال بعد عام انتخابات کے موقع پر مار دھاڑ اور گھیرائو جلائو سے بھرپور شاہکار سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں جاری بدامنی میں 200 افراد مارے جا چکے ہیں۔

سال رواں میں مختلف فیکٹریوں میں ناقص حفاظتی اقدامات کی وجہ سے ہونے والی آتش زدگیوں کی وجہ سے مشہور عالمی برانڈ بنگلہ دیش سے بوریا بستر لپیٹ کر سری لنکا اور ویت نام سدھارنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ بحرانوں‘ غیر یقینی اور معاشی بدحالی کے اس مایوس کن منظر نامے کو بیگم حسینہ واجد کالی ماتا کا روپ دھار کر بے گناہوں کے خون سے آلودہ کر رہی ہیں بنگلہ دیش خوشحالی اور عام انتخابات کے بجائے بدحالی اور خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اور بیگم حسینہ واجد انتخابی شکست سے بچنے کے لیے سب کچھ دائو پر لگا رہی ہیں۔ اب ایک بار پھر پاکستان کے وفا شعار فرزند اس کا ہدف ہیں اس نے عبدالقادر ملا کو تو نہیں دو قومی نظریے کو پھانسی دینے کی کوشش کی ہے جس کے وارث گلی کوچوں میں نکل آئے ہیں۔ ڈھاکا کی گلیاں ایک بار پھر نعروں سے گونج رہی ہیں پاکستان سے محبت جرم ہے تو موت بھی قبول ہے بنگالیوں کی نئی نسل سبز ہلالی پرچم لے کر میدان میں ہے اور ہم غیر جانبدار ہیں اور غیر جانبدار رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔