پاک سعودی تعلقات، ایک تجزیہ

مزمل سہروردی  پير 17 اگست 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کے حوالے سے پاکستان میں آجکل ایک خاص ماحول بنا ہوا ہے۔میڈیا میں ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاک سعودی عرب تعلقات میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی کہانی کوئی نئی نہیں ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک ان گنت مواقعے پر سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی ہے۔ دونوں ممالک نے بین الاقوامی برادری میں اپنی دوستی کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کبھی کسی خاص حکومت کے محتاج نہیں رہے ہیں۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت ہو سعودی عرب نے تعلقات پاکستان سے رکھے ہیں۔ اس نے ہر حکومت سے ہر سطح پر تعاون کیا ہے۔ اگر پاک سعودی تعاون کی کہانی لکھی جائے تو اس کی شاید دوسری کوئی مثال ڈھونڈنا مشکل ہو جائے گی۔

پاکستان میں ایک عجیب ماحول بنایا جا رہا ہے جس میں سعودی عرب کے بھارت سے تعلقات کو پاک سعودی تعلقات خراب کرنے کا جواز بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر پاکستان کے سفارتی تعلقات کی یہی شرط ہو گی کہ جس کے بھارت سے تعلقات ہیں ہم اس سے تعلقات نہیں رکھیں گے تو پھر چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کیسے ہونگے۔

چین کی بھارت میں پاکستان سے بہت زیادہ سرمایہ کاری ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان تجارت کا حجم پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ چین ایک طرف پاکستان میں سی پیک بھی بنا رہا ہے اور دوسری طرف بھارت میں سرمایہ کاری بھی کر رہا ہے۔ لیکن ہمیں چین سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ بلکہ ہم چین کو پاکستان کا سب سے بہترین دوست کہتے ہیں۔ پھر بھارت سعودی عرب تعلقات، پاک سعودی عرب تعلقات کی راہ میں کیسے رکاوٹ ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچ ہمیں اپنے دوستوں سے دور کر دے گی۔

آپ اسی بات کو دوسری طرح بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدہ تعلقات ہیں،لیکن ہم سعودی عرب کے لیے ایران کے ساتھ تعلقات ختم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اور نہ ہی سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کرنے کے لیے کبھی یہ شرط رکھی ہے کہ ہم پاکستان کی تب مدد کریں گے جب پاکستان سعودی عرب کے مخالف ممالک کے ساتھ تعلقات ختم کر دے گا۔ جب سعودی ایران تناؤ پاک ایران تعلقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے تو پھر پاک بھارت کشیدگی پاک سعودی عرب تعلقات کی راہ میں رکاوٹ کیسے ہو سکتی ہے۔

اسی طرح سعودی عرب ہی نہیں پورے عرب ممالک نے قطر سے تعلقات منقطع کیے ہوئے ہیں۔ لیکن پاکستان کے قطر سے بھی بہترین تعلقات ہیں۔ ہم قطر سے ایل این جی لے رہے ہیں۔ لیکن سعودی عرب نے کبھی پاکستان سے نہیں کہا کہ اگر ہم سے مالی مدد لینی ہے ادھار تیل لینا ہے تو قطر سے ایل این جی لینا بند کر دیں۔ سعودی عرب نے تو کبھی یہ شرط نہیں رکھی ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی مالی مدد ادھار تیل اور قطر کی ایل این جی میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔ پھر ہم سعودی عرب کے ساتھ ایسی شرائط کیسے رکھ سکتے ہیں۔

ہم نے سعوی عرب کی خواہش کے باوجود یمن میں فوج نہیں بھیجی۔ حالانکہ سعودی عرب نے پاکستان کی مشکل مواقعے میں بہت مدد کی ہوئی تھی۔ لوگ بتاتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت میں بھی سعودی عرب کی مدد کی کلیدی حیثیت رہی ہے۔

سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان دفاعی تعاون بھی موجود رہا ہے۔ لیکن پھر بھی ہم نے یمن میں سعودی عرب کی مدد کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ تا ہم ا س انکار کے بعد بھی سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تعلقات اس طرح خراب نہیں کیے جیسے ہم کر رہے ہیں۔ حالانکہ پاکستان میں سعودی عرب سے محبت کرنے والے ایک بڑے طبقہ کی یہ رائے تھی کہ ہمیں یمن میں سعودی عرب کی مدد کرنی چاہیے تھی۔ ہم اس طرح سعودی عرب کو انکار نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن ہم نے انکار کیا تھا۔ جب عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو سعودی عرب نے عمران خان کو ایسے ہی خوش آمدید کہا جیسے وہ پاکستان کے باقی حکمرانوں کو خوش آمدید کہتے رہے ہیں۔

سی پیک پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ لیکن مغربی دنیا اور امریکا سی پیک کے مخالف نظر آتے ہیں۔ تا ہم سعودی عرب نے پاکستان کی محبت میں سی پیک میں شامل ہونے کا بھی اعلان کیا۔ جب عمران خان سعودی عرب گئے تو سعودی عرب نے چھ بلین ڈالر کی پاکستان کی مدد کا اعلان کیا۔ تا ہم جب سعودی ولی عہد پاکستان آئے تو انھوں نے نہ صرف سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت کا اعلان کیا۔

اب سوال یہ ہے کہ بھارت اور امریکا دونوں سی پیک کے کٹر مخالف ہیں۔ ایسے میں جب سعودی عرب نے سی پیک میں شامل ہونے کے لیے بھارت اور امریکا کی مخالفت کی پرواہ نہیں کی ہے تو ہمیں بھی سعودی عرب کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھنا چاہیے۔ سعودی ولی عہد نے دورہ پاکستان کے موقعے پر گوادر میں منصوبوں کا اعلان کیا۔ سب جانتے ہیں کہ گوادر سی پیک کا محور ہے۔ اور بھارت گوادر کی ترقی کا سخت مخالف ہے۔ کیا سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت پاکستان کی بہت بڑی کامیابی نہیں تھی اور کیا ہم اب اس کامیابی کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔

میں حیران ہوں کہ کیا ہم باقی دنیا سے لیے گئے قرضہ واپس نہیں کر رہے ہیں۔ کیا ہم چین سے لی گئی قرض کی رقم واپس نہیں کر رہے ہیں۔ کیا آئی ایم ایف ورلڈ بینک سے لی گئی رقم واپس نہیں کی جا رہی ۔ اگر ہم چین امریکا اور دوسرے دنیا کو ان سے لی گئی رقم بر وقت واپس کر رہے ہیں اور اس سے ہمارے ان کے تعلقات خراب نہیں ہو رہے ہیں۔ تو پھر سعودی عرب کو رقم واپس کرنے سے تعلقات کیسے خراب ہو گئے ہیں۔

اگر ہم رقم کی واپسی کو دوستی ختم کرنے کاپیمانہ قرار دے دیں گے تو پھر ہم دنیا میں کسی سے دوستی نہیں رکھ سکتے۔ اور پھر کوئی بھی دوست ہماری مدد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا کہ کل جب رقم واپس لی جائے گی تو دوستی خراب ہو جائے گی۔ اس جاہلانہ سوچ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ ملکوں کے درمیان تعلقات کوئی بچوں کی دوستی اور لڑائی نہیں ہے کہ ایک لمحہ میں بن گئی اور ایک لمحہ میں ٹوٹ گئی۔ یہ دوستی بننے میں بھی کئی سال لگتے ہیں۔ اس لیے ان کو سنبھالنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔