بہت سے اسائمنٹس کا مقصد مکھی پہ مکھی مارنا لگا

حفصہ انور  منگل 18 اگست 2020
’آن لائن‘ کلاسوں میں ’انٹرنیٹ‘ کا رخنہ بہت بڑا مسئلہ رہا ۔  فوٹو : فائل

’آن لائن‘ کلاسوں میں ’انٹرنیٹ‘ کا رخنہ بہت بڑا مسئلہ رہا ۔ فوٹو : فائل

فروری میں لاک ڈاؤن میں یونیورسٹیاں بند ہونے کے کچھ دن بعد ہماری ’آئن لائن‘ کلاسیں شروع ہوئیں۔ اس سے پہلے ہم سب میں سے شاید ہی کسی نے ’آئن لائن‘ کلاسیں لی ہوں گی، تو یہ سب کے لیے ایک نیا  تجربہ تھا۔

ہماری پہلی کلاس  میں صرف تین شاگرد حاضر تھے، کیوں کہ کسی کا انٹرنیٹ کا مسئلہ تھا، تو کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یونیورسٹی کے سوفٹ وئیر کے ذریعے اس آن لائن ’کلاس‘ میں شامل کیسے ہونا ہے، اس چکر میں کلاس کا ایک گھنٹا تو نکل گیا، باقی کی کلاس میں کبھی سر کی آواز آتی تھی کبھی رک جاتی۔

تو پہلی کلاس اسی کش مکش میں گزری، اس کہ بعد دوسرے کورس کی کلاس ’زوم‘ پر ہوئیں، جو کہ تھوڑی سی مختلف تھیں۔ اس میں سب آسانی سے شامل ہو تو گئے، مگر کافی بچوں کا مائک کام نہیں کر رہا تھا، جس کی وجہ سے ہمارے استاد بات چیت نہیں کر پا رہے تھے، پھر آہستہ آہستہ یہ سلسلہ عام ہو گیا اور معمول بن گیا۔

’آئن لائن‘ کلاسوں میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، اساتذہ کو بھی اور شاگردوں کو بھی۔ انٹرنیٹ اور تکنیکی مسائل سب سے زیادہ تھے، جس سے پڑھائی پر کافی اثر پڑا۔ میرے ساتھ بھی ایسا کئی بار ہوا کہ یا تو میرا مائک کام نہیں کرتا تھا یا انٹرنیٹ نہ چلنے کی وجہ سے میں کلاس میں ’حاضر‘ نہیں ہو پاتی تھی، جس سے پڑھائی کا کافی حرج ہوا اور سمجھنے میں مشکل ہوئی۔ نہ کہ صرف طلبہ کو مشکل ہوئی، بلکہ اساتذہ کو بھی مسائل پیش آئے، لیکن پھر بھی اساتذہ نے پوری محنت سے پڑھایا۔

انٹرنیٹ ایک ایسی چیز ہے، جو اس زمانے میں بھی بہتر سے بہترین لے لیا جائے، لیکن اس میں کس وقت رخنہ پڑ جائے گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا اور ’آئن لائن‘ کلاسوں کے لیے سب سے ضروری انٹرنیٹ ہی ہے۔ اس لیے جن طلبہ کے انٹرنیٹ کا مسئلہ تھا، اْنہیں سمجھنے میں کافی دقت پیش آئی، جس سے ان کے اسائمنٹ پر بھی منفی اثر پڑا اور مارکس بھی بہت کم ملے۔

کلاس کے دوران ایک بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ انٹرنیٹ کی خرابی کی وجہ سے کبھی استاد کی آواز آتے آتے رک جاتی، جس سے آدھی سے زیادہ بات کی تو سمجھ میں ہی نہیں آتی اور بار بار بولنے سے کلاس کا وقت کا ضایع ہوتا اور ایسا ظاہر ہے کبھی میرے انٹرنیٹ کی سستی کی وجہ سے ہوتا ہوگا تو کبھی ’سر‘ کی طرف بھی سگنل کے نشیب وفراز اس کا سبب بنا ہوگا، لیکن اس کا خمیازہ مجھے بہت بری طرح اس وقت بھگتنا پڑا، جب کلاس میں مجھے جواب نہ دینے کی وجہ سے نکال دیا گیا۔۔۔! جب کہ حقیقت یہ تھی کہ مجھے آواز ہی نہیں آرہی تھی، تو میں انہیں جواب کیسے دیتی اور میں دوبارہ اس کلاس میں شامل نہ ہو سکی، جس سے میرا کافی حرج ہوا اور سر نے جو کچھ بھی اس کلاس میں پڑھایا، وہ میں چاہ کر بھی نہ جان سکی۔

کیوں کہ مجھے ٹھیک سے سمجھنے  کا موقع ہی نہ ملا، جب کہ اس میں غلطی بھی میری نہیں تھی۔ خیر، اس کے علاوہ کافی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ہم کلاس شروع ہونے کا انتظار ہی کرتے رہے اور متعلقہ سر سے رابطے کی کوششیں بھی کیں، انہیں متعدد پیغامات بھی بھیجے، لیکن سر کا بعد میں جواب آیا کہ وہ کلاس بعد میں لیں گے! اگر ہمیں پہلے سے پتا چل جاتا، تو ہم انتظار کرنے میں وقت نہیں گزارتے اور ہم خوامخوا کی کوفت سے بچ جاتے۔

اس کے علاوہ ایک مشکل یہ بھی تھی کہ ہمیں بہت طویل اور لمبے اسائمنٹ ملے؛ یہ جان کر کہ ہم چوں کہ جامعہ نہیں آرہے، اس لیے ہمارے پاس بہت وقت ہے۔۔۔ حالاں کہ ایسا بالکل بھی نہیں تھا، نتیجتاً سب کچھ  جلدی جلدی میں جیسا بھی ہو کر کے دینا پڑتا۔ جس سے نہ کچھ سیکھنے کو ملا اور نہ صحیح طرح سے کام مکمل ہو سکا۔ ان اسائمنٹ کا مقصد بس مکھی پر مکھی مار کر جمع کرانا لگا، جس سے کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا، بلکہ ان حالات میں مزید پریشانی ہی ہوئی۔ اگر اسائمنٹ کے بعد دوسرا اسائمنٹ دینے کہ بہ جائے اس پر توجہ دی جاتی کہ ’آن لائن‘ طریقے سے بچوں کو کتنا سمجھ میں آرہا ہے؟ تو یقیناً اچھے نتائج سامنے آتے اور ہمیں  مشکلات کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

اس کے بعد ہمارے فائنل امتحان بھی شروع ہو گئے، جو کہ رمضان  میں ہوئے تو اور زیادہ مشکل پیش آئی۔ عام طور پر ہمارا فائنل امتحان جو کہ تین گھنٹے کا ہوتا ہے ، جب کہ ’کورونا‘ کے سبب اسے ’آن لائن‘  کرنے کے لیے ایک دن تو ملا، لیکن انتے لمبے امتحان تھے کہ پورا دن بیٹھ  کر کرنے کے بعد بھی مشکل سے وقت پر ختم ہو پاتے۔

یہ سیمسٹر تو ہمیں نہ ہونے کہ برابر لگا جس کا کچھ زیادہ فائدہ نہیں ہوا اور بس کسی نہ کسی طرح سیمسٹر ختم کرنا مقصد لگا۔ اس سب کے باوجود یہ ہم سب کے لیے ایک نیا اور عجبیب وقت ہے، تو اس میں کسی کا قصور نہیں۔ ہماری  یونیورسٹی  کی انتظامیہ اور اساتذہ نے ایسے وقت میں بھی اپنی پوری کوشش کی، جو کہ قابل تعریف ہے اور ہم اب اْن کی اور اپنی محنت کو رائیگاں  نیہں جانے دیں گے۔  اب ہمارا نیا سیمسٹر جاری ہے، جوکہ ’آئن لائن‘ ہی ہے اور ہمیں امید ہے کہ اس سیمسٹر میں ہر اعتبار سے بہتری آئے گی، کیوں کہ اب ہمیں تجربہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔