’آن لائن‘ لیکچر دینا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں!

فروہ محسن  منگل 18 اگست 2020
کچھ دشواریوں کے باوجود یہ کلاسیں بہتر بھی ثابت ہوئیں

کچھ دشواریوں کے باوجود یہ کلاسیں بہتر بھی ثابت ہوئیں

کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ انسان اپنی زندگی کے حوالے سے کیا  کچھ سوچتا ہے، لیکن اس کے  لاکھ سوچنے کے باوجود بھی ویسا نہیں ہوتا۔ دنیا میں پھیلنے والے اس چھوٹے سے وائرس نے پوری دنیا کا نظام درہم برہم کر کے رکھ دیا تھا۔

انسانی جان کے نقصان کے ساتھ ساتھ  کاروبار، معیشت اور پڑھائی کا بھی ناقابل تلافی حرج  ہوا۔ ملک میں بے روزگاری بھی بڑھتی جا رہی ہے اور ہزاروں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس عالمی وبا کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان طلبہ کا ہوا ہے۔ اب 15 ستمبر سے تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھلنے کی امید ہے، دیکھیے کیا ہوتا ہے، فی الحال تو تعلیمی نظام آن لائن  جاری ہے۔ ایسے کئی پلیٹ فارمز اور ایپس متعارف کروائی گئیں، جن کی وجہ سے کلاسیں لینا آسان ہو گئی ہیں۔

آن لائن کلاسوں کی وجہ سے تمام طلبا بہ یک وقت ایک ساتھ کلاس لے سکتے  ہیں۔ اس طرح اساتذہ ایک وقت میں بہت سارے طلباء کی توجہ حاصل کر سکتے ہیں۔ میلوں دور بیٹھ کے بھی سب ایک ’ایپ‘ سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگر غور کیا جائے، تو آن لائن کلاس لینے کا فیصلہ بہت سے لوگوں کے حق میں بہتر ثابت ہوا کیوں کہ اس طرح سے کسی طلبہ کا وقت ضائع نہیں ہوا، لیکن آن لائن  پڑھانے اور سیکھنے میں کافی دشواریاں پیش آئی ہیں۔

جہاں اس کے فائدے ہیں، وہیں اس کے نقصانات اور مشکلات بھی ہیں۔ سب سے زیادہ پریشانی مجھے اس بات سے ہوئی کہ میرے کافی اساتذہ نے یونیورسٹی کے ’دفتری اوقات‘ پر عمل نہیں کیا اور اکثر اپنی مرضی کے اوقات پر کلاسیں منعقد کیں۔ اس صورت میں کافی دفعہ دوسری کلاسوں کے اوقات آپس میں ٹکرا جاتے اور ہمیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ کئی دفعہ تو سات گھنٹوں تک لگا تار کلاسیں رکھ دی جاتی تھیں۔ جس کے باعث طلبا پورا دن کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھے رہتے۔

آن لائن کلاس لینے میں جو سب سے بڑی مشکل درپیش ہوتی ہے، وہ انٹرنیٹ کی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عین کلاس کے وقت ہی ایسی مشکل آن کھڑی ہوتی ہے اور ہم کلاس نہیں لے پاتے۔ کبھی کبھار تو لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بھی کلاسز لینے میں دقّت ہوتی ہے۔

نہ صرف طلبا، بلکہ اساتذہ کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اوّل تو یہ کہ ’آن لائن لیکچر‘ دینا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ایسے کئی اساتذہ ہوتے ہیں، جو کلاس روم لرننگ  پر یقین رکھتے ہیں اور طلبا تک اپنی بات کو صحیح طریقے سے نہیں پہنچا پاتے۔ دوسرا یہ کہ  لیکچر کے دوران انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اگر کسی کو بات سمجھ آئی ہو یا نہیں کیوں کہ زیادہ تر کلاسوں میں آڈیو لیکچر دیا جاتا ہے۔

تیسرا یہ کہ جو اساتذہ پریکٹیکل طریقوں سے اپنی بات سمجھانے کے عادی ہوتے ہیں، ’آن لائن‘ لیکچر دینا ان کے لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک یہ بھی بات  ہے کہ آن لائن امتحانات لینے میں بھی دقّت ہوتی ہے کیوں کہ اساتذہ کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کون کس طریقے سے امتحان دے رہا  ہے۔ وہ صحیح طرح سے طلبا پر نگرانی نہیں کر پاتے اور سوالات کے سمجھانے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔ اب امید ہے کہ بہت جلد ہم روایتی طریقے سے کلاس روم میں بیٹھ کر لیکچر سے استفادہ کر سکیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔