نفس پرستی و نفس گزاری کا رجحان

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  جمعـء 21 اگست 2020
ہم خود اپنے پیدا کردہ مسائل و مصائب میں گھرتے چلے جارہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہم خود اپنے پیدا کردہ مسائل و مصائب میں گھرتے چلے جارہے ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارا معاشرہ نفس پرستی اور نفس گزاری کا عادی بنتا جارہا ہے۔ ہم قانون، اخلاق اور اصول کے تابع رہنے کے بجائے انھیں اپنی خواہشات اور تمناؤں کے تابع کرنے کی تگ و دو میں سرگرداں رہتے ہیں، جس کی وجہ سے خاندان کے ادارے سے لے کر ملک و معاشرے کی اقدار و اخلاقیات کا بیڑا غرق ہوتا جارہا ہے اور ہم خود اپنے پیدا کردہ مسائل و مصائب میں گھرتے چلے جارہے ہیں۔

ملک میں پسند کی شادیوں، کورٹ میرج کا رجحان ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ روزانہ پچاسیوں کورٹ میرج ہو رہی ہیں، جس کےلیے وکلا، قاضیوں اور گواہان کی خدمات ہر جگہ اور ہر وقت دستیاب ہوتی ہیں۔ ایسی شادیوں کی بڑی تعداد ناکامیوں سے دوچار ہوتی ہے۔ جس کی وجہ بے جوڑ رشتے، وقتی جذباتیت و نفس پرستی کا عنصر، فریقین کی ایک دوسرے سے غلط بیانیاں بلکہ بعض اوقات مذموم مقاصد کےلیے نکاح کرنا اور سب سے بڑھ کر خاندانوں کا ان شادیوں کو قبول نہ کرنا، بلکہ بعض اوقات تو اس میں نکاح کرنے والوں کے علاوہ ان کے خاندانوں کے افراد کے قتل عام کے واقعات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ ایک نیا رجحان جو ہمارے معاشرے میں جڑیں پکڑ رہا ہے، وہ ہم جنس پرستی کا ہے۔ دنیا کے درجنوں ممالک میں ہم جنس پرستی کی شادیوں کو قانونی تحفظ حاصل ہے لیکن ہمارا معاشرہ ابھی تک اس لعنت سے محفوظ ہے۔ سعودی عرب، ایران و یمن جیسے اسلامی ممالک میں تو ہم جنس پرستی پر سزائے موت کا قانون موجود ہے۔ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی جانب سے بھی اس قسم کی حرکات پر شدید مخالفت اور مزاحمت دیکھنے میں آئی ہے، جبکہ انسانی آزادی کے علم برداروں، لبرل طبقہ اور این جی اوز کی جانب سے اس کی پشت پناہی، حمایت و تائید کا سلسلہ بھی شد و مد سے جاری رہتا ہے۔

تاریخ دان اور پروفیسر جون بوس کا موقف تو یہ ہے کہ رومن کیتھولک چرچ نے اس کی اجازت دی ہے۔ بہرحال مذہبی اور مشرقی روایات و اقدار کا امین طبقہ اس عمل کو قبیح گناہ اور معاشرے کی تباہی کا باعث سمجھتا ہے، جن کے سماجی دباؤ کی وجہ سے ہمارے معاشرے میں نفس پرستی کی یہ وبا پنپ نہیں پارہی، لیکن پھر بھی کچھ واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن میں معاشرے کے کچھ افراد، این جی اوز اور مذہبی عناصر بھی ایسے لوگوں کی معاونت کرتے نظر آتے ہیں۔

گزشتہ ہفتہ بھارت کے مدھیا پردیش میں ایک نوجوان نے بیک وقت دو لڑکیوں سے شادی کر ڈالی، جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ لڑکا سندیپ اپنی گرل فرینڈ سے شادی کرنا چاہتا تھا جبکہ اس کے والدین اس کی شادی اپنی مرضی سے کروانا چاہتے تھے۔ معاملہ پنڈتوں کے پاس پہنچا تو پنچایت نے گاؤں والوں کی موجودگی میں فیصلہ دیا کہ لڑکے کی بیک وقت دونوں لڑکیوں سے شادی کرا دی جائے۔ چنانچہ پنڈتوں نے بیک وقت دونوں لڑکیوں کو شادی کے پھیرے دے کر تینوں کو رشتہ ازدواج میں منسلک کرکے رخصت کردیا۔ اس سے قبل ایک پاکستانی لڑکی صائمہ نے بھی امریکا میں ایک امریکن نژاد انڈین لڑکی بینکا سے شادی رچالی تھی جس کی مخالفت و حمایت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

ہم جنس پرستی کا حالیہ سنسنی خیز واقعہ ٹیکسلا میں پیش آیا جس کی تفصیل یہ بتائی جاتی ہے کہ اسکول ٹیچر لڑکیوں عاصمہ بی بی اور نیہا، جن میں گہری دوستی تھی، نے باہم کورٹ میرج کرلی۔ عاصمہ کا کہنا ہے کہ وہ لڑکی پیدا ہوئی تھی۔ جب ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسے Gender Dysphoria ہے تو وہ لاہور کے ایک اسپتال میں اپنی سرجری کروا کر علی آکاش بن گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ عاصمہ کی پھوپھی اس میں دلچسپی رکھتی تھی۔ انکار پر اسے انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ نیہا اسے اچھی لگتی تھی، اس لیے شادی کا فیصلہ کیا۔ پہلے اس کے گھر والے راضی تھے، بعد میں شادی سے مکر گئے۔ جس پر ہم دونوں نے عدالت جاکر شادی کرلی۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی بچپن کی بیماری کو بہانہ بناکر اس پر جھوٹا کیس بنایا گیا ہے۔ دو لڑکیوں کی شادی کا یہ مقدمہ ہائیکورٹ راولپنڈی بینچ میں زیر سماعت ہے، جہاں لڑکا بن کر شادی کرنے والا علی آکاش عدالت سے مسلسل غیر حاضر ہے۔ عدالت نے ملزم کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرتے ہوئے ایس ایچ او ٹیکسلا اور لاہور کو حکم دیا تھا کہ وہ ملزم کو گرفتار کرکے خود عدالت میں حاضر ہوں۔ پولیس نے عدالت کو بتایا کہ انھوں نے جگہ جگہ چھاپے مارے، دولہا کہیں نہیں ملا۔ دولہا کی روپوشی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے عدالت نے وزارت داخلہ کو اس کا نام ای سی ایل میں ڈالنے، قومی شناختی کارڈ بلاک کرنے اور ناقابل ضمانت وارنٹ برقرار رکھنے کا حکم نامہ جاری کیا۔ لڑکی کے والدین کے ساتھ جانے سے انکار کے بعد عدالت نے انچارج دارالامان راولپنڈی کو طلب کرکے لڑکی کو ان کی تحویل میں دے دیا۔ این جی او کے وکیل کے اعتراض اور لڑکی سے دارالامان میں ملاقات کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ آپ کو بھی دارالامان بھجوا دیا جائے۔ ابھی بچی وہاں پہنچی نہیں ہے، آپ ملاقات کی بات کر رہے ہیں۔ عدالت نے دارالامان انچارج کو ہدایت دی کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بچی باہر نہ جائے، نہ کسی سے ملاقات کرے۔

عدالت نے کہا کہ این جی اوز نے ملک تباہ کردیا ہے۔ بچیوں کو گھروں سے بھگا لے جانا ہماری روایات نہیں۔ فاضل جج نے کہا کہ اس خیال سے میری روح کانپ اٹھتی ہے کہ اس بچی کے والدین پر کیا گزرتی ہوگی۔ جج کا کوئی مذہب، مسلک، کوئی برادری نہیں ہوتی، اس کو ریاست کے دستور کے تحت فیصلہ کرنا ہوتا ہے، میں اپنے حلف کا پابند ہوں۔

فاضل عدالت کے یہ ریمارکس ہمارے والدین، علما، دانشوروں، سیاستدانوں اور حکمرانوں کےلیے لمحہ فکریہ اور نہایت قابل غور ہیں۔ اگر تمام متعلقین نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو خاندان کی بنیادی اکائی سے لے کر ملک و معاشرے کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔