چین ایران باہمی شراکت داری: علاقائی اور عالمی منظرنامہ

ڈاکٹر زمرد اعوان  ہفتہ 22 اگست 2020
امریکا اور یورپی ممالک اس معاہدے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں اور اسے مستقبل میں اپنے لیے خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

امریکا اور یورپی ممالک اس معاہدے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں اور اسے مستقبل میں اپنے لیے خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

امریکی روزنامہ نیویارک ٹائم نے 11 جولائی 2020 کو پہلی بار چین اور ایران کے مابین جامع حکمت عملی پر مبنی شراکت داری کے 25 سالہ معاہدے کی خبر شایع کی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق، یہ معاہدہ 18 صفحات پر مشتمل ہے اور دونوں ممالک کے درمیان بالخصوص معاشی و سیاسی شعبوں میں 100 مختلف منصوبوں کی بات کرتا ہے۔ اس معاہدے کی ابتدائی سطور میں بیان ہے ’’دو قدیم ایشیائی ثقافتیں (ایران اور چین)، تجارت، معیشت، سیاست، ثقافت اور سلامتی کے شعبوں میں ایک جیسے نظریہ کے ساتھ دو شراکت داروں کے طور پر متعدد باہمی دو طرفہ اور کثیرالجہتی مفادات میں مماثلت رکھتے ہوئے، ایک دوسرے کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری پر غور کریں گی‘‘۔

یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ اس کی مکمل تفصیلات ابھی منظرعام پرنہیں آئیں، لیکن اس کی بنیاد 2016 میں چین کے صدر شی جن پنگ کے دورۂ ایران کے دوران رکھی گئی تھی۔ اس معاہدے کے اثرات جاننے سے پہلے اس کے اہم نکات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

اول، یہ معاہدہ تقریباً 400 بلین ڈالر پر مشتمل ہے۔ جس میں سے 270 بلین ڈالر چین کی طرف سے ایران کے توانائے کے شعبے، جبکہ 120 بلین ڈالر صنعت و نقل و حمل میں لگائے جانے کا امکان ہے۔

دوم، اس معاہدے کے تحت ایران کے ان معاشی مسائل کا حل ممکن ہے، جو امریکا کی 2019 میں جوہری معاہدے سے یک طرفہ انخلا کے بعد پابندیوں کی صورت میں اسے درپیش تھے۔ جن میں سے اہم بے روزگاری میں اضافہ ہے۔

سوم، ایران 25 سال (جو قدرے طویل عرصہ ہے) تک چین کو خصوصی رعایت پر تیل فراہم کرے گا، جس سے چین کی توانائی کی ضروریات پوری ہوں گی۔

چہارم، اسی منصوبے کے تحت امکان ہے کہ چین ایک نئی کرنسی ’’ای آر ایم بی‘‘ کے نام سے متعارف کروانے والا ہے، جس کے ذریعے امریکی ڈالر کی بین الاقوامی اقتصادی اجارہ داری کا مقابلہ ہوسکے گا۔

پنجم، یہ معاہدہ محض چین اور ایران تک محدود نہیں، بلکہ ایشیائی اتحاد کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ کیونکہ یہ سی پیک کے ماتحت ’’بیلٹ اینڈ روڈ‘‘ منصوبے سے ہوتا ہوا اہم تجارتی بندر گاہوں (جیسا کہ چاہ بہار) سے ملنے کا عندیہ بھی دے رہا ہے۔ جس کا مطلب ہے ایشیائی ممالک آنے والے برسوں میں اس سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں گے۔

امریکا اور یورپی ممالک اس معاہدے کی وجہ سے تشویش میں مبتلا ہیں اور اسے مستقبل میں اپنے لیے خطرہ محسوس کررہے ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ اس معاہدے کی ایشیائی نوعیت، چین کا خطے میں بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور امریکی اجارہ داری کی کمزور پڑتی گرفت ہے۔ اگرچہ، بذات خود امریکا نے اپنی مستقل ہٹ دھرمی اور عدم تعاون کی وجہ سے چین اور ایران کو اس قسم کے اتحاد کی طرف راغب کیا ہے۔

اگر قارئین کو یاد ہو تو مئی 2018 میں امریکا نے یک طرفہ ایران جوہری معاہدے سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے ایران پر عالمی پابندیاں عائد کیں۔ جو نہ صرف ایٹمی ادارے ’’آی اے ای اے‘‘ کی متعدد تفصیلی رپوٹوں کے خلاف تھا، بلکہ اس جوہری معاہدے میں شامل یورپی ممالک کی منشا کے بھی منافی تھا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف مستقل مختلف بین الاقوامی اجتماعات میں اس ناانصافی کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں۔ انھوں نے بالخصوص جرمنی، برطانیہ اور فرانس سے، جو 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے کا حصہ تھے، بارہا اپنا کردار ادا کرنے کی گزارش کی۔ ان تمام کوششوں کے باوجود، ایران کےلیے حالات دن بدن مشکل ہوتے گئے اور پچھلے 3 سال میں، امریکی جارحیت مختلف صورتوں میں جاری رہی۔ جس میں سے ایک اہم 2019 میں ایرانی جنرل سیلمانی کا عراق میں امریکہ کے ہاتھوں قتل ہونا بھی تھا۔

ان حالات میں ایران کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ وہ ایک ایسی طاقت کو شامل کرے جو تحفظ کو خطے میں یقینیی بنانے کے ساتھ امریکی اجارہ داری کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو اور ایران کو معاشی مسائل سے نکالنے میں بھی اہم کردار ادا کرسکے۔ یہ سب مقاصد ایران کی چین کے ساتھ شراکت داری میں ہی ممکن ہوسکتے تھے۔

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس معاہدے کے اثرات قطعی صرف ان دو ممالک تک محدود نہیں رہیں گے۔ سب سے پہلے تو یہ مشرق وسطیٰ میں ایران کو سعودی اجارہ داری کے مقابلے میں متوازن قوت کے طور پر کھڑا کرے گا۔ اب تک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خطے میں اثرورسوخ کو امریکی مفادات کےلیے استعمال کررہے تھے، پر اب ان کا مقابلہ ایران بالخصوص ترکی سے مل کر کرتا ہوا نظر آرہا ہے، جس میں پاکستان، ملائیشیا جیسے ممالک بھی اتحاد کا حصہ بننتے بظاہر دکھائی دیتے ہیں۔

پاکستان اور نیا اتحاد

پاکستان کا اس صورت حال میں رویہ دیکھنے سے پہلے تاریخ جاننا ضروری ہے۔ 1950 کے عشرے میں چین جب نیا نیا ابھر رہا تھا تو پاکستان نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ چین کے ساتھ نہایت اچھے تعلقات قائم کرے گا۔ اگرچہ پاکستان امریکا کے ساتھ دفاعی معاہدے ’’سیٹو‘‘ کا اس وقت رکن بھی تھا۔ جس کی کچھ شقیں یہ کہتی تھیں کہ اس معاہدے کے تمام رکن چین کے خطرے سے نمٹنے کےلیے اکٹھے ہوں گے۔ لیکن پاکستان نے ’’سیٹو‘‘ کی ایک میٹنگ میں واضح کردیا کہ ہم اس معاہدے کو چین کے خلاف نہیں سمجھتے اور نہ ہی ہم چین کے خلاف کسی بھی کارروائی کا حصہ بنیں گے۔ جس کا ذکر چین کے صدر چن لیو نے بھی اپنی ایک تقریر میں کیا۔ تب سے اب تک پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات میں کوئی رخنہ نہیں پیدا ہوا۔ اب ’’سی پیک‘‘ میں پاکستان اور چین اکٹھے ہیں، جبکہ بھارت امریکا کا خطے میں اتحادی ہے۔

آنے والے وقتوں میں، جیسا کہ اس عالمی وبا کورونا کے بعد واضح ہوگیا ہے کہ چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے، جبکہ امریکا اپنی اندورنی و بیرونی معاملات میں غلط منصوبہ بندیوں کی وجہ سے تنزلی کا شکار ہے۔ ان حالات میں پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک جیسے ایران، ملائیشیا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال کےلیے یہ بڑا نادر موقع ہے کہ وہ جمود کو توڑ کر معاشی مفادات کےلیے خطے کے اندر سے ابھرتے ہوئے اتحاد کا بھرپور حصہ بنیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔