پہلی جنگ عظیم سے آج تک مشرق وسطیٰ ـ بحران کی آماجگاہ رہا

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 23 اگست 2020
مشرق وسطیٰ میں لاکھو ں بچوں کی ہلا کت یو این اوکے چار ٹر اور ہیومن رائٹس ڈکلیر یشن پر سوالیہ نشان ہے،اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی پر خصوصی سلسلہ ۔  فوٹو : فائل

مشرق وسطیٰ میں لاکھو ں بچوں کی ہلا کت یو این اوکے چار ٹر اور ہیومن رائٹس ڈکلیر یشن پر سوالیہ نشان ہے،اقوام متحدہ کی ڈائمنڈ جوبلی پر خصوصی سلسلہ ۔ فوٹو : فائل

( قسط نمبر28)

مشرق وسطیٰ یا مڈل ایسٹ افریقہ وایشیا کاایک تاریخی خطہ ہے جس میں عموماً تمام  مصر اس کے قریب واقع ملک ایران، ترکی کو شامل کیا جا تا ہے جب کہ اس میں پا کستان اور روسی وسط ایشیا کو شامل نہیں کیا جاتا ہے۔

اس کا کل رقبہ 72 لاکھ 8 ہزار مربع کلومیٹر اور آبادی 37 کروڑ دس لا کھ ہے مگر ابھی تک مشرق وسطیٰ کی کو ئی واضح تعریف نہیںکی گئی ہے اور عالمی سطح پر مختلف موقعوں پر اس کی مختلف تعریفیں ہوتی رہی ہیں اس خطے کو ایک صدی قبل Near East بھی کہا جاتا رہا پھر اس میں ملکوں کی تعداد کم اور زیادہ بھی ہوتی رہی عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس خطے میں جنوب مغرب ایشیا اور شمالی افریقہ کے ممالک شامل ہیں حالانکہ یہ علاقے کی تمام ریاستوں کی تعریف پر پورا نہیںاترتا، اس علاقے کی نسلی برادریوں میںافریقی،عرب ، آرمینیا ئی،آزری، بربر، یونانی، کرد، فارسی، تاجک، ترک اور ترکمن شامل ہیں، ہاں یہ درست ہے کہ اس مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ تعداد میں لوگ عربی بولتے ہیں مگر عربی کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں مختلف زبانیں بو لی جاتی ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی مغرب میں کی گئی تعریف کے مطابق مغربی ایشیا ایران سے لے کر مصر تک کا علا قہ مشرق وسطیٰ ہے جب کہ مصر مشرق وسطیٰ کا حصّہ تسلیم کیا جاتا ہے، حالانکہ مصر جغرافیائی طور پر افریقہ میں واقع ہے۔ مقتدرہ بین الاقوامی فضائی سفر IATA) ) کے مطابق مشرق وسطیٰ کی تعریف کے مطابق بحرین ، مصر، عراق، اسرائیل، اردن، کویت ، لبنان ، فلسطین ، عمان ، قطر، سعودی عرب، سوڈان، متحدہ عرب امارات، اور یمن مشرق وسطیٰ میں آتے ہیں۔ 2004 کے جی ایٹ کے اجلاس میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نےGreat Middle East عظیم مشرق وسطیٰ کی اصطلاح استعمال کی اور مشرق وسطیٰ میں ترکی، اسرائیل کے ساتھ پا کستان اور افغانستان کو بھی شامل کیا، یوں اگر ترکی بھی مشرق وسطیٰ میں شامل ہوتا ہے تو پھر یہ تین بر اعظموںکی نمائندگی کرتا ہے۔ انڈیا آفس نے مشرق وسطیٰ کی اصطلاح 1850 میں اس خطے کے لیے اسی طرح استعمال کی تھی۔

پھر امریکی بحریہ کے ماہر Alfred Thayer Mahan ایلفرڈ تھایر ماہن نے 1902 میں یہ اصطلا ح استعمال کی اور کہا کہ یہ علاقہ عرب اور ہندوستان کے درمیان واقع ہے، اس پورے خطے کی اہمیت ہزاروں برسوں سے ہے، اگرچہ ماضی قریب یعنی نو آبادیاتی دور اور خصوصاً یہاں نیپولین کے1789 سے1801 تک مصر اور شام پر حملے اور برطانیہ کی جانب سے مداخلت سے یہاں گریٹ گیم شروع ہو گئی۔ مشرق وسطیٰ کے خطے میں میڈیٹرین سی، خلیج فارس نہر سوئز ،آبنائے ہرمز، بحیرہ عرب اور پھر بحیرہ ہند تک سمندری راستوں اور تجارت کی بنیاد پر نو آبادیا تی نظام کے اعتبار سے یہاں اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے ا ٓغاز سے بڑی عالمی طا قتوں کے درمیان کشا کش شروع ہو گئی جو کسی نہ کسی انداز سے آج تک جاری ہے۔

جہا ں تک مشرق ِ وسطیٰ کے ملکوں کا تعلق ہے تو اِن سب ہی کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے اور فلسطین اور اسرائیل کے حوالے سے پہلے بھی با ت ہو چکی ہے اس لیے یہاں بنیادی طور پر اور مختصراً مگر جامع انداز میں ، مصر ، شام ، عراق  اور لیبیا کا ذکر کیا جا رہا ہے پھر اِن ملکو ں سمیت اس پورے علاقے کے پس منظر کا جا ئزہ لیں تو یہ تمام علاقہ یا خطہ انسان کی اولین تہذیب کا مر کز رہا ہے، قبل از تاریخ کے لحا ظ سے 12000 قبل مسیح سے 6400 قبل مسیح تک دنیا کی پانچ بڑی انسانی تہذیبیں گزری ہیں جن کے آثارِ قدیمہ آج بھی مصر، شام، عراق، فلسطین اور اردگرد موجود ہیں۔

یہاں یہودیت ، عیسائیت اور اسلام بھی خوب پروان چڑھا ۔ مشرق وسطیٰ  کی اہمیت کے پہلے دو نکات یہ ہیں یعنی سمندری راستوں اور اِن پر عسکری اور تجارتی اہمیت پھر اس علاقے میں دنیا کے تیل اور گیس کے 70% ذخائر اور دیگر معدنیات اور تاریخ اور قبل از تاریخ سے یہاں الہا می مذاہب کی بنیاد پر اہمیت سلطان صلاح الدین ایوبی کی فتح کے بعد سے یہاں بیت المقدس اور فلسطین پر761 سال مسلمانوں کی حکومت رہی اور جنگِ عظیم اوّل کے دوران یہاں پر یہودی ریاست کے قیام کی سازش برطانیہ اور یہودیوں نے تیار کر لی تھی۔ جولائی 1948 کو اسرائیل کی یہودی ریاست یہاں قائم کر دی گئی اور پھر1967 کی عرب اسرائیل جنگ میںاردن کے شہر یروشلم پر اسرائیل کا قبضہ ہو گیا۔

واضح رہے کہ جب 11 ستمبر 2001 کو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور واشنگٹن میں پینٹگان پر دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا تو اس کے فوراً بعد صدر بش نے جو تقریر کی تھی اس میں نئی صلیبی جنگ کے اعلان کی بات بھی کردی تھی یعنی امریکی اور یورپی قیادت کے ذہنوں میں کہیں یہ تاریخی حوالے اب بھی موجود ہیں اور 1967 کے بعد 1973 کی جنگ میں عربوں کی پوزیشن قدرے بہتر رہی اور اسی دوران تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی بھی  کارگر ثابت ہوئی۔

لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مشرق وسطیٰ کی اپنی مذہبی اہمیت ہے اور ان بنیادوں پر شام ،عراق ، مصر ،اردن ، لبنان اور دیگر ملکوں میں صدیوں سے جنگیں ہوتی رہی ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہودی اپنے مذہب کی بنیاد پر مستقبل میں دنیا پر حکمرانی کے دعوے کرتے ہیں اور یروشلم میں ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کا منصوبہ رکھتے ہیں ۔گذشتہ برسوں سے اس کا بر ملا اظہار بھی کر تے رہے،لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے اِن عرب علاقوں پر اسرائیل کے قبضے اور متنازعہ علاقہ ہو نے کے باوجود امریکہ نے  اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا تھا۔

اسی طرح اسرائیل برسوں سے عربوں کے مقبوضہ علاقوں میں نئی اسرائیلی بستیاں قائم کرتا رہا ہے اور اقوام متحدہ کی قرار دادیں اور مذمتیں یہاں بے اثر رہی ہیں۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میں عرب ممالک کی قدرے بہتر کارکردگی کے بعد عالمی سطح پر ایک جانب تو امریکہ ، بر طانیہ، فرانس نے  اسرائیل کے ساتھ مستقبل کی منصوبہ بندی اور حکمت ِ عملی تیار کی جس پر بڑی توجہ اور مستقل مزاجی سے عمل کیا تو دوسری جانب سابق سوویت یونین جس نے1973 کی جنگ میں مصر کو اُس دور کے جدید سام میزائیل دیے تھے، محتاط ہو گیا اور مصر سے تعلقات میں دوغلی پالیسی اپنائی۔ مشرق وسطیٰ کے علاقے میں مصر اپنے 1001450 مربع کلو میٹر رقبے اور دس کروڑ سے زیادہ آبادی کے لحاظ سے مشرق وسطیٰ کا سب سے بڑا ملک ہے۔

اس کے شمال میں غزہ کی پٹی اور اسرائیل، مشرق میں خلیج عقبہ اور بحیرہ احمر جنوب میں سوڈان ، مغرب میں لیبیا اور مغرب شمال میں بحیرہ روم خلیج عقبہ کے اس طرف اردن اور بحراحمر کے اس طرف سعودی عرب جب کہ بحیرہ روم کی دوسری جانب ترکی یونان ، ترکی اور قبرص ہیں جن سے خشکی سے سرحدیں تو نہیں ملتیں مگر قربت اور اسٹریٹجک پوزیشن کی حامل ہے کیو نکہ نہر سوئز دو سمندروں کے درمیان فاصلے کو مختصر کرتی ہے۔ یہاں ساتویں صدی عیسوی سے مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی اور بیسویں صدی کے آغاز تک  مصر ترکی کی سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ، مصر کو 1922 میں برطانیہ سے آزادی ملی اور یہاں بادشاہت قائم ہوئی مگر برطانوی فوجوں کا غلبہ رہا۔

دوسری جنگ عظیم میں یہاں صحرائے سینا اور الامین کا علاقہ دنیا کی بڑی جنگ کا میدان بنا رہا جہاں جرمن جنرل رومیل اور انگریز جنرل منٹگمری کے درمیان جنگی تاریخ کا مثالی مقابلہ ہوا۔ جنگ عظیم  دوئم کے بعد یہاں شاہ فاروق کا تختہ کرنل جمال ناصر اور جنرل نجیب نے الٹ دیا۔ انقلابی لیڈر جمال ناصر کے عہد میں مصر اسرائیل کے خلاف جنگ میں سب سے اہم اور بڑا حریف رہا اور سب سے زیادہ نقصان برداشت کیا۔

جمال عبدالناصر کی وفات اور1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد صدر انورالسادت اقتدار میں آئے تو انہوں نے مصر کی سیاست میں اچانک یوٹرن لیا اور 1978 ء میں کیمپ ڈیوڈ کے معاہدہ میں اسرائیل کو ایک ملک کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ اس کیمپ ڈیوڈ معاہدے میں امریکی صدر جمی کا رٹر  اسرائیلی وزیر اعظمMenachem Begon   بینجم بیگن اور انور السادات نے دستخط کئے تھے۔ معاہدے میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ مصر نے غزہ کی پٹی کا قبضہ بھی چھوڑ دیا اور اس کے تھوڑے عرصے بعد انورالسادت کو فوجی سلامی لیتے ہوئے چبوترے پر ٹینکوں سے فائرنگ کر کے جان بحق کر دیا گیا اور اِن کے قتل کو بعض حلقوں نے کرنل قدافی کی سازش قرار دیا۔ انورالسادات کے قتل کے بعد طویل عرصے تک حسنی مبارک مصر کے صدر رہے۔

2011 ء میں حسنی مبارک کے خلاف انقلا ب کے بعد محمد مرسی مصر کی تاریخ میں اکثریت سے صدر منتخب ہوئے جو اسلامی نظریات کی حامل سیاسی جماعت اور عوامی حمایت سے برسر اقتدار آئے، وہ امریکہ سے پی ایچ ڈی تھے اور اُن کی کابینہ میں تمام افراد پی ایچ ڈی اور ایم اے کی سطح کے ماہرین تھے مگر ایک سال بعد وہ اقتدار سے بے دخل کر دئیے گئے، اس دوران ہنگاموں کی وجہ سے مصر میں ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے، 3 جولائی 2013 کو جنرل عبدالفتح سیسی نے اقتدار حاصل کیا اس کے بعد مرسی پر مقدمہ قائم کیا گیا اور 17 جون 2019 کو دوران سماعت اُن کا انتقال ہو گیا۔ حکومت نے اس کی وجہ اچانک ہارٹ اٹیک بتائی۔  اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر برائے ہیومن رائٹس نے اُن کی عدالت میں موت پر شدید تنقید کی۔ مارشل عبد الفتح سیسی 2014 کے بعد 2018 میں بھی صدر منتخب ہوئے ہیں۔ 2016 ء سے مصر کی معیشت نے ترقی کی ہے لیکن اب مصر کی جانب سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ۔

1990 کی دہائی سے جب سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سرد جنگ کے خاتمے کا اعلان ہوا اور سوویت یونین کی سرپرستی مڈل ایسٹ کے ممالک یعنی، شام ،عراق، لیبیا سے ختم ہو گئی تو ان ملکوں میں عرب اسپرنگ کی اصطلاح کے ساتھ تیز رفتاری سے انقلابی صورتحال پیدا ہوئی مگر اس میں سیاسی طور پر فاش غلطیاں عراق کے صدر صدام حسین کی جانب سے ہوئیں۔ جب صدر صدام حسین نے 22 ستمبر1980 سے ایران کے خلاف جنگ شروع کی جو 20 اگست 1988 تک جاری رہی، اس جنگ میں تقریباً چھ لاکھ ایرانی اور پانچ لاکھ عراقی جان بحق ہوئے جب کہ اسی جنگ کی ابتدا میں  جون 1981 کو اسرائیلی طیاروں نے اچانک حملہ کر کے عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا تھا۔ اس جنگ میں خاموشی کے انداز میں امریکہ کی اور قدرے واضح طور پر سعودی عرب ، کو یت اور عرب امارات کی حمایت عراق کو حاصل تھی کہ یہ تمام ملک عرب تھے۔

اس آٹھ سالہ جنگ کی وجہ سے عراق کی معیشت کمزور ہوئی اور اس جنگ اور اس کے علاوہ کردوں کے خلاف کاروائیوں میں عراق پر کیمیکلز ہتھیار وں کے استعمال کے الزامات بھی عائد ہوئے۔ ایران عراق جنگ کے بعد کویت نے عراق کو دیئے گئے قرضوں کی واپسی کا مطالبہ کیا تو صدر صدام حسین سے ایک اور فاش غلطی ہوئی اور عراقی فوجوں نے فوجی اعتبار سے کمزور ملک پر قبضہ کر لیا اور یہاں ہی سے امریکہ کو عراق کے خلاف فوجی کاروائیوں کا موقع مل گیا۔

عراق کے کویت پر حملے کے بعد عراق پر امریکہ کے ایما پر اقوام متحدہ کی جانب سے تیل فروخت پر پابندی عائد کردی گئی۔ 1992 میں جب عراق میں ہزاروں بچے بھوک اور ادویات کی کمی کی وجہ سے ہلاک ہونے لگے تو اقوام متحدہ نے محدود پیمانے پر     Oil for Food Programکے تحت تیل کی فروخت کی رعایت دی جسے صدرصدام نے مسترد کر دیا مگر پھر 9 دسمبر1996 کو اس پیشکش کو اُس وقت قبول کیا جب لاکھوں بچے بھوک اور بغیر ادویات کے ہلاک ہو گئے۔

پھر نائن الیون کے بعد امریکہ نے عراق پر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی اور علاقے میں اس کے خطرات کو بنیاد بنا کر عراق پر 2003 کی جنگ میں قبضہ کر لیا اور چند برس بعد امریکہ نے یہ اعتراف بھی کر لیا کہ امریکی سی آئی اے کی رپورٹ غلط تھی۔ عراق میں امریکی جنگی اخراجات کا تخمینہ 1.922 ٹریلین ڈالر یعنی ایک کھرب 92 ارب 20 کروڑ ڈالر ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں تیل گیس کے ذخائر بھی آخر کس کے کام آئے۔ عراق میں 1500000 سے زیادہ عراقی جان بحق ہو چکے ہیں۔ 1258 ء میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو خان کے حملے کے بعد یہ سب سے بڑی تباہی ہے جو عراق پر نازل ہوئی ہے۔

عراق میں جنگ کی صورت بھی ہے اور ساتھ ہی فرقہ واریت اور قومیتوں کے گروپوںکے درمیان بھی خانہ جنگی کی صورت ہے۔ یہاں آخری بڑا واقعہ 3 جنوری 2020 ء کو اُس وقت پیش آیا جب امریکی صدر ٹرمپ کے حکم پر امریکی فوج نے ایک میزائل کے ذریعے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے لیفٹیننٹ جنرل قاسم سلمانی کو جان بحق کر دیا اگرچہ یہاںامریکہ پر جتنی تنقید کی جائے وہ کم ہے کہ امریکہ یہاں امن قائم کرنے آیا تھا اور جو الزامات امریکہ نے یہاں عائد کئے وہ غلط ثابت ہوئے اور امریکی فوج یہاں تلاش بسیار کے با وجود کیمیکلز ہتھیار برآمد نہیں کر سکی، مگر ساتھ ہی یہاں بہت فاش غلطیاں خود صدر صدام حسین سے ہو ئیں اور پھر صدام حسین کو گرفتار کرنے کے بعد 30 دسمبر2006 کو عراقی عدالت کے حکم پر پھانسی دے دی گئی۔

مشرق وسطیٰ میں عرب اسرائیل جنگوں اور تنازعات میں ایک اہم ترین ملک لیبیا ہے اور اس کے حکمران معمرقدافی تھے۔ لیبیا میں بھی اسلامی دور کا آغاز 647 ء سے ہوا، اس ملک کا رقبہ 1759541 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 6871287 ہے ۔لیبیا 1551 ء سے1911تک  ترکی کی خلا فت عثمانیہ کا حصہ رہا، اس کے بعد یہاں اٹلی کا قبضہ رہا جس کے خلاف مشہور مجاہد عمر مختار نے آزادی کی جنگ لڑی تھی، اُسے اٹلی کے فوجی جنرل نے 16 ستمبر1931 کو پھانسی دی تھی پھر دوسری جنگ عظیم سے یہ علاقہ بر طانیہ اور فرانس کے قبضے میں رہا اور1951 سے 1969 تک شاہ ادریس کی بادشاہت رہی، ستمبر 1969 کوکرنل معمر قدافی نے شاہ ادریس کا تختہ الٹ دیا کرنل قدافی بھی مصر کے جمال عبدا لناصر سے بہت متاثر تھے، لیبیا کی آبادی کم اور رقبہ زیادہ ہے اور یہ ملک اعلی معیار کے تیل اور قدرتی گیس کے ذخا ئر سے مالا مال ملک ہے اس لیے کرنل قدافی نے مشرق وسطیٰ کے اُن ملکوں کی بہت مدد کی جو اسرائیل کے خلاف جدو جہد میں مصر وف رہے۔

وہ ریاست ہا ئے متحدہ افریقہ کے شدید حامی تھے اور اُنہوں نے 53 افریقی ملکوں کا اتحاد بنا یا تھا جس کے وہ چیرمین تھے ۔کرنل قدافی امریکہ نیٹو اور مغربی یورپی ملکوں سے نظریاتی اختلاف رکھتے تھے اور 1973 کی عرب اسرائیل  جنگ میں اُنہوں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

یوں جب 1990-91 میں سوویت یونین بکھر گئی تو کرنل قدافی کے لیے بھی بہت سے مسائل پید اہوئے۔ کرنل قدافی ایٹمی ہتھیار وں کی تیاری کا پر وگرام رکھتے تھے مگر 1990-91 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد اُنہوں نے امریکہ اور مغربی یورپی ملکوں سے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی اور اپنے تمام اقدامات واپس لئے لیکن 2011 کے عرب اسپرنگ کے دوران لیبیا میں بھی امریکہ نیٹو نے قدافی کے مخالف قبائل کی مدد کی اور یوں لیبیا میں ایک خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہو گیا اور آخر کار 20 اکتوبر 2011 کو اُن کو شدید زخمی حالت میں گرفتار کر کے جان بحق کر دیا گیا، اگرچہ لیبیا میںقدافی کی وفات اور  پہلی خانہ جنگی کے دوران 2014 میں انتخابات کر ائے گئے مگر یہاں ٹرن آوٹ صرف 18% فیصد رہا اور یوں الیکشن کے بعد اِن کے نتا ئج کو حزب اختلاف نے قبول نہیں کیا۔ یوں جنرل مارشل خلیفہ افتار قاسم تبروک کو بیس بنائے منتخب قانون ساز حکو مت کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں دوسری خانہ جنگی دونوں گروپوں میں جاری ہے جس کی وجہ سے مئی 2015 ء میں 8788 افراد جان بحق اور 20000 زخمی ہوئے تھے لیکن اب تک جنگ جاری ہے اور ہلاکتوں میں اضافہ بھی اسی انداز سے جاری ہے۔

اِس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ 2014 کے بعد روس نے مشرق وسطیٰ کے اُن ملکوں میں جہاں سابق سوویت یونین کی حامی حکومتیں تھیں اور اب وہ حزب اختلاف کے طور پر باقاعدہ مسلح جد وجہد کر رہے تو روس کی جانب سے  ایسے گروپوں کی حمایت کی جا رہی ہے جو 2014 ء سے پہلے نہیں تھی اس لیے لیبیا میں کرنل قدافی کی موت کے بعد حالات ابھی پوری طرح کنٹرول میں نہیں آئے ہیں اور حکومت کے خلاف جد وجہد مسلح انداز میں جاری ہے اور اب لیبیا بھی ایک ایسا ملک ہے جو نئی طرز کی سرد جنگ کا ایک اہم محاذ بن چکا ہے اور یہاں بھی اب پراکسی وار جاری ہے اور دنیا کے دیگر ممالک اپنے اپنے مفادات کے لیے متحرک گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ میںاِس وقت سب سے زیادہ متاثرہ  ملک شام ہے۔ عراق، اردن، مصر ، لبنان اور فلسطین کی طرح شام بھی دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مسکن ہے، اسکے شہر دمشق کو دنیا بھر میں مسلسل آباد رہنے کی بنیاد پر اولیت حاصل ہے، دمشق 3500 سال متواتر یا مسلسل آباد چلا آرہا ہے جب دنیا میں دوسرے قدیم شہر بھی ہیں جن میں سے بیشتر تاریخ میں کسی تباہی کا شکار ہوکر برسوں کے لیے غیر آباد اور ویران ہو  گئے مگر دمشق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ شہر تقریباً ساڑھے تین ہزار سال سے متواتر آباد ہے، شام کو 636 میں مسلمانوں نے فتح کیا اس کا رقبہ 185180 مربع کلومیٹر اور آبادی 17500657 ہے۔

اس کے مغرب میں لبنان جنوب مغرب میں فلسطین اور اسرائیل جنوب میں اردن مشرق  میں عراق اور شمال میں ترکی واقع ہیں ،661 ء سے 750 ء تک یہاں اموی اقتدار رہا پھرعباسی حکومت رہی 1260 مملوک رہے، 1400 ء میں امیر تیمور نے حملہ کیا اور دمشق کے گرد ونواح میں تباہی مچائی اور جاتے ہوئے یہاں سے ماہرین ، عالموں ، دانشوروں اور عمدہ کاریگروں کو ہزاروں کی تعداد میں پکڑ کر سمرقند لے گیا۔ 1918 تک یہاں ترک خلافت کے خلافت بغاوت ہوئی پھر برطانیہ اور فرانس کے ایما پر یہاں کٹ پتلی حکومت قائم ہوئی۔

1939 میں فرانس نے یہاں پارلیمنٹ ختم کردی کہ دوسری جنگ ِ عظیم شروع ہو چکی تھی اور شام جلد بڑا میدان جنگ بن گیا، 1940 میں جرمنی نے شام پر قبضہ کر لیا، 1941 میں جرمنی کا قبضہ ختم ہوا 1943 مین پھر پارلیمنٹ تشکیل پائی، 1944 میں فرانس نے ایک معاہدے کے تحت شام کو آزادی دے دی، 1945 میں فرانس نے دمشق پر بمباری کی اور 2000 خواتین اور بچے جان بحق ہوئے ،آزادی کے لیے شامی لوگوں کی قربانی تھی، 1946 میں شام آزاد ہو گیا، 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد پہلی عرب اسرائیل جنگ سے لیکر 1973 تک کی عرب اسرائیل جنگوں میں شام شامل رہا،  یہاں شروع ہی سے سوویت یونین کا اثر رہا، 1949 میں سی آئی اے کی سازش کے تحت فوجی بغاوت ہوئی ، 25 جولائی 1949 کو جنرل زعم ریفرنڈم میں بھاری اکثریت کی بنیاد پر صدر بن گئے  بعد میں جنرل زعم کو قتل کر دیا گیا۔

1953 میں آئین کی تشکیل کے بعد 1955 انتخابات ہو ئے مصر سے تعلقات مضبوط ہو ئے 22 فروری 1958 مصر اور شام اتحاد کی بنیاد پر متحدہ عرب کے نام سے ایک ملک ہو گیا 28 ستمبر1961 کو مغربی سازشوں کی وجہ سے مصر سے یہ اتحاد پھر ختم ہو گیا اور شام دوبارہ ایک الگ ملک کی حیثیت اختیار کر گیا8 مارچ 1963 میں بعت پارٹی نے اقتدار پر قبضہ کر لیااور تھوڑے عرصے بعد تیل کی صنعت کو قومی ملکیت میں لے لیا برطانوی اور فرانسیسی کمپنیاں ر خصت ہوئیں، یہاں مشنری اسکول کو بھی بند کر دیا گیا، 23 فروری1966 میں بعت پارٹی کا اقتدار مضبوط ہو گیا اور حافظ الاسد وزیر دفاع ہو گئے۔

1971 میں حافظ الاسد صدر ہو گئے، 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میںمصر کے ساتھ شام کی کارکردگی بھی بہتر رہی اور شام نے گو لان کی اُن پہاڑیوںکا کچھ علاقہ اسرائیلی قبضے سے چھڑا لیا جو 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے لیا تھا، 1973 ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد امریکہ اور سوویت یونین نے جنگ بندی میں اہم کردار ادا کیا تھا، 1976 میں شامی فوجیں لبنان میں داخل ہوئیں اور عیسائی اور  مسلمانوں کی خانہ جنگی کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا، 1973 سے حافظ الاسد کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو ساتھ ہی شام مصر کے برعکس اور لیبیا کی طرح اسرائیل کے خلاف رہا اور سوویت یونین سے تعلقات میں زیادہ اضافہ ہوا کیونکہ  مشرق وسطیٰ کے خطے کا سب سے اہم ملک مصر سوویت یونین کے بلاک سے نکل گیا تھا، 1990-91 میں سوویت یونین کے زوال کے بعد شام نے بھی اپنے آپ کو لیبیا کی طرح بچانے کی کوشش کی۔

خصوصا جب 2000 میںحافظ الاسد کی وفات کے بعد اُن کے بیٹا بشارالاسد صدر ہوئے اور پھر جب 2011 میںArab Spring عرب اسپرنگ کی بنیاد پر عرب کے بہت سے ملکوں میں خصوصاً بائیں بازو کے نظریات کی حامل آمریتوں کے خلاف عوامی جد وجہد شروع ہوئی تو شام میں بیرونی مداخلت کے ساتھ شیعہ سنی مسلک کی بنیاد وں پر تصادم شروع ہوا مگر2014  سے جب روس کے صدر پیوٹن نے سوویت یونین کی وراثت کی بنیاد پر اُن ملکوں میں جہاں روس نواز حکومتیں مو جود ہیں وہاں اُن کی سپورٹ کی اور اب شام میںاسی بنیاد پر بڑی قوتوں کے درمیان کشاکش جاری ہے۔

2013 تک شام میں 100000 افراد ہلا ک ہو ئے جن میں 11000 بچے بھی شامل تھے۔ شام سے دہشت گردی کی وجہ سے بھاگنے  والوںکی تعداد49 لاکھ ہو چکی ہے، ساڑھے چار لاکھ شامی عیسائی بے گھر ہوئے ہیں، اکتوبر 2017  تک شام میں ہلاک ہو نے والوں کی تعداد چار ہلاکھ ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق شامی کرنسی پونڈکی قیمت گری ہے اور 3000 شامی پونڈکا ایک امریکی ڈالر ہو گیا ہے۔

مشرق وسطیٰ کی حالیہ اہم تبدیلی یہ ہے کہ متحدہ عرب امارات جو سات ریاستوں ابوظہبی، عجمان، دبئی، صحیرہ، راس الخیمہ، شارجہ اور القوین پر مشتمل ایک ملک ہے جس کی چھ ریاستیں 2 دسمبر1971 کو بر طانیہ سے آزادہوئیں اور ساتویں ریاست راس الخمیہ 10 فروری 1972 کو آزاد ہوئی ،اس عرب امارات نے 14 اگست2020 کی اطلاع کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے۔

ایک برس قبل سلطنت عمان ’’مسقط‘‘  نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تھا، اطلاعات کے مطابق اپنے ساحل پر اسرائیلی نیول بیس بھی قا ئم کیا، اب تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال عرب امارات نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے  ،عرب امارت کا رقبہ 77700 مربع کلو میٹر اور آبادی 4967142 ہے، ا س کے سربراہ مملکت خلیفہ بن زید النہیان اور حکومت کے سربراہ محمد راشد آل مکرم ہیں۔ امارات کا علاقہ 1820 سے برطانوی کنٹرول میں تھا، پہلی جنگ عظیم سے آج تک مشرق وسطیٰ کا علاقہ بحران کا شکار رہا ہے اور 1945 میں اقوام متحدہ کے قیام کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گذرا جب اقوم متحد ہ کی جنر ل اسمبلی یا سکیورٹی کونسل میں یہاں کے امن ومان پر کسی نہ کسی حوالے سے بحث نہ ہوئی ہو  مگر 75 برسوں سے اقوام متحدہ یہاں امن قائم کر نے میں ناکام رہی ہے ۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔