ثنیہ عباسی؛ اسکول سے یونیورسٹی تک لڑکا بن کر تعلیم حاصل کرنے والی باہمت خواجہ سرا

آصف محمود  جمعـء 23 ستمبر 2022
پیدائش کے وقت  معلوم ہوجائے توشاید پھرٹرانس جینڈرکواسی وقت قتل کردیاجاتا فوٹوایکسپریس

پیدائش کے وقت معلوم ہوجائے توشاید پھرٹرانس جینڈرکواسی وقت قتل کردیاجاتا فوٹوایکسپریس

لاہور: باہمت خواجہ سرا اور میک اپ آرٹسٹ ثنیہ عباسی نے اسکول سے یونیورسٹی تک لڑکا بن کر تعلیم حاصل کی۔

لاہورمیں کام کرنیوالی ایک  ٹرانس جینڈرمیک اپ آرٹسٹ ثنیہ عباسی کا کہنا ہے   پاکستان میں بسنے والی ٹرانس جینڈرکمیونٹی عبادت کے لئے مسجد میں جاتے ہوئے ڈرتی ہے۔ ٹرانس جینڈرکی باہمی شادی  کی باتیں مذاق ہیں، جب وہ پیداہوئیں توان کےوالدین اسے بیٹاسمجھتے تھے، یونیورسٹی تک تعلیم لڑکا بن کرحاصل کی لیکن میں اندرسے خود کولڑکی محسوس کرتی تھی۔فوت ہونیوالے خواجہ سراکا جنازہ بھی عام مسلمان کی طرح  ہی پڑھایا جاتا ہے۔

ایکسپریس سے  بات کرتے ہوئے 25 سالہ ٹرانس جینڈر ثنیہ عباسی نے بتایا  کہ صدیوں سے یہ مفروضہ ہے کہ خواجہ سرا کا جنازہ نہیں پڑھایا جاتا،یا پھراس کا جنازہ رات کے اندھیرے میں اٹھایا جاتا ہے لیکن انہوں نے ابتک ایسا کوئی واقعہ نہیں دیکھا حالانکہ گزشتہ چندبرسوں میں کئی ٹرانس جینڈرز کی وفات ہوئی اوران کے جنازے بھی ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا جب وہ پیداہوئیں توان کے والدین انہیں بیٹا ہی سمجھتے تھے اورایک بیٹے کی طرح کا ہی سلوک کیا جاتا تھا،  اگرپیدائش کے وقت ہی معلوم ہوجائے کہ بچہ ٹرانس جینڈرہے توپھرتوشاید آج کوئی بھی ٹرانس جینڈرزندہ نہ ہوتا سب کو پیداہوتے ہی قتل کردیا جاتا ، یہ توجیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے تواحساس ہوتا ہے کہ وہ ٹرانس مین ہے یاٹرانس وویمن  یاپھرنارمل مرد یا عورت ہے۔

ثنیہ کا کہنا تھا انہوں نے یونیورسٹی تک کوایجوکیشن میں تعلیم حاصل کی ہے، اسکول میں لڑکے مذاق کرتے تھے، مختلف ناموں سے پکارتے اورسیٹیاں بجاتے تھے۔ کالج میں بھی یہ سب برداشت کرنا پڑا لیکن یونیورسٹی میں امتحانات کے دوران ہمارے ہیڈآف ڈیپارٹمنٹ نے مجھے بہت  دکھ دیا، میں نے اسکارف لے رکھا تھا جس پرایچ او ڈی کوغصہ آگیا اوراس نے سب کے سامنے مجھے وہ باتیں سنائیں کہ تم ہوکون، یہ کس طرح کے کپڑے پہنے ہیں،تم تعلیم حاصل نہیں کرسکتے اپنے ماں باپ کا پیسہ ضائع کررہے ہو،اس واقعہ سے میں چھ ماہ تک بہت زیادہ ڈسٹرب رہی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈرکمیونٹی میں جتنی بھی تعلیم  یافتہ اورپڑھی لکھی ہیں سب نے لڑکا بن کرہی تعلیم حاصل کی ہے۔ورنہ  توشاید کوئی بھی ٹرانس جینڈرتعلیم حاصل نہ کرپائے۔

ثنیہ عباسی نے کہا جب تک معاشی حوالے سے والدین کی محتاج تھیں وہ لڑکا بن کرہی رہیں تاہم جب اپنے پاؤں پرکھڑاہوگئیں توپھراپنے اندرکی لڑکی کوباہرآنے کا موقع دیا اورآج میں آپ کے سامنے ہوں ۔ انہوں نے بتایا کہ دوٹرانس جینڈر کی باہمی شادی ایک مذاق ہے ، شادی تووہاں ہوتی ہے جب آپس میں محبت ہو،اس  کے لئے جنس کی پابندی تھوڑی ہے،لیکن ہمارے ملک میں اس کوقبول نہیں کیا جاتا اورہم بھی  ملک کے قانون اورشریعت کا احترام کرتے ہیں۔

ثنیہ عباسی نے بتایا رمضان المبارک میں اب جب محرم کا آغازہوگیا ہے توان کی کمیونٹی کے لوگ گھروں میں مجالس کا اہتمام کرتے ہیں۔ بہت سے ٹرانس جینڈرمسجد میں جاکرنماز اورتراویح پڑھتے ہیں ، وہ خود بھی مسجد میں جاکرنماز پڑھتی تھیں لیکن کچھ ملا اورمسجد انتظامیہ نے کہا کہ تمھارے کپڑے کیسے ہوتے ہیں، تمھاری وجہ سے دوسرے لوگوں کی نماز خراب ہوتی ہے، اس وجہ سے اب ہم لوگ ڈرتے ہیں اورمسجد میں نہیں جاتے کہ کسی دوسرے کا ایمان خراب نہ ہو، میں اب گھرمیں ہی نماز پڑھ لیتی ہوں کیونکہ سجدہ تواللہ تعالی نے قبول کرنا ہوتا ہے۔

سول سوسائٹی ، این جی اوز اور حکومتی اقدامات سے شہریوں میں ٹرانس جینڈرزسے متعلق  سوچ تبدیل ہورہی ہے اورآگاہی پیداہورہی ہے۔تاہم صدیوں پرانی روایات اورسوچ کوچندسالوں میں نہیں بدلاجاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔