پہلا خودکش حملہ

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 24 اگست 2020

قربانیاں دین حنیف کی ایک پہچان ہیں،’’نماز پڑھو اور قربانی دو‘‘ بلاشبہ یہ حکم میرے آقاﷺ کو ایک مخصوص تناظر میں دیا گیا،کیونکہ ابتدا توسیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل (علیہم السلام) کو بارگاہ خداوندی میں پیش فرما کے قربانی کے صفحات میں درج کراچکے تھے لیکن ابھی آقا ؐ کے گھرانے کے مقدس ومحترم لہو سے مکمل کتاب لکھی جانی باقی تھی اور اْس کے لیے 6دن میں کائنات بنانے والے خالق و مالک نے 61ہجری، 10محرم الحرام کے دن ظہرسے عصر تک 6گھنٹے مختص کیے تھے …… لیکن اِس سے قبل آقا کے ساتھیوں کی قربانیوں سے وفاداری کے دیباچے ابھی لکھے جانے باقی تھے جن کے لیے پالن ہار نے اْن نفوس مقدسہ کا انتخاب کرلیا تھا جنھیں ہم ’’صحابہ کرام‘‘ کہتے ہیں۔

جب دور پْر امن ہو، خلیفہ وقت کے عدل و انصاف سے جرم کرنے والے گھبراتے اور عوام گن گاتے ہوں،مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ’’مشیر اعلیٰ‘‘ اور تمام اہم فیصلوں کے نگہبان ہوں،کہ امیر المومنین کو بھی یہ کہنا پڑے کہ ’’ علی نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا ‘‘ ایسے  میں مدینہ منورہ میں کسی ’’خودکش حملے‘‘ کا تصور محال ہی نہیں بلکہ گمان بھی ایک دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ نہ تھا مگرکیا کہیے کہ اسلام کو ایک ایسا امیر المومنین ملا تھا جو دعائے آقا تو تھا ہی لیکن خود بھی ایسا مستجاب الدعوات تھا کہ ہر وقت لبوں پر ایک ہی دعا غالب رہتی کہ ’’یا اللہ ! مجھے مدینے میں شہادت عطا فرما‘‘ کہنے والے کہتے پرامن مدینہ پاک میں ایسا کون بد بخت و ناہنجار اور جہنمی ہوگا جو امیر المومنین کو قتل کرکے اللہ کی لعنت کاحق دار ٹہرے گالیکن قربانیوں والے دین کو اسلامی برس کا آغاز ہی شہادتوں سے کرنا تھا ۔

حضرت عمر فاروق ؓاس بات کی اجازت نہ دیتے تھے کہ نا بالغ قیدیوں کے علاوہ باہرکے عناصر مدینے میں داخل ہو سکیں اس حکم پر عمل درآمد ہوتا رہا لیکن کچھ عرصے کے بعد یہ ہوا کہ مغیرہ بن شعبہ نے جواْن دنوں کوفے کاحاکم تھا حضرت عمر فاروق کو لکھ کر بھیجا کہ وہ اْس کے ایک غلام کوجو بہت سے ہنر جانتا تھا مدینے آجانے کی اجازت دے دیں …… وائے ستم کہ جو بْری ہوا چلی کوفے سے چلی ……  سیدنا عمر ابن الخطاب نے اجازت مرحمت فرما دی اور ابو لولو فیروز نامی غلام مدینے آگیا……حضرت عمر ؓ ایک روز بازار کا گشت لگانے نکلے تو راستے میں وہی غلام ابو لولو ملا اور آپ سے کہنے لگا ’’امیرالمومنین ! مجھے مغیرہ بن شعبہ سے بچایئے ، مجھ پر زیادہ خراج ہے‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے پوچھا ’’ تم کتنا خراج ادا کرتے ہو؟‘‘ غلام نے جواب دیا’’دودرہم روزانہ ‘‘ حضرت عمر فاروق نے پوچھا اورکام کیا کرتے ہو۔

غلام نے کہا ’’نجاری ، نقاشی اور آہن گری‘‘ حضرت عمر فاروق نے فرمایا تمہارے پیشوں کو دیکھتے ہوئے خراج زیادہ معلوم نہیں ہوتا ‘‘ حضرت عمر فاروق  ؓ نے اس غلام سے پھرکہا ’’سنا ہے تم ایسی چکی بناسکتے ہو جو ہوا سے چلتی ہے ‘‘ غلام نے جواب دیا ’’ یہ بالکل صحیح ہے کہ میں ہوا سے چلنے والی چکی بنا سکتا ہوں ‘‘ حضرت عمر فاروق  ؓ نے فرمایا تو پھر مجھے ایک چکی بنا دو غلام بولا  ’’اگر میں زندہ رہا تو آپ ؐ کے لیے ایسی چکی بناؤں گا جس کا چرچا مشرق سے مغرب تک ہوگا‘‘ غلام یہ کہہ کر چلا گیا مگر حضرت عمر فاروق  ؓ نے فرمایا اس غلام نے ابھی ابھی مجھے دھمکی دی ہے…… چند دن گزرگئے اور اس عرصے میں ابو لولو نے ایک دودھاری خنجر حاصل کر لیا۔

جس کا دستہ بیچ میں تھا اور دونوں طرف بڑی تیز دھاروں سے پھل تھے اس کے بعد وہ نورکے تڑکے مسجد میں آیااور ایک سمت چھپ گیا یہ 26 ویں ذوالحجہ 23ہجری بدھ کا دن تھاجب کہ عیسوی سال644 تھا…… 27 ذوالحجہ سے لے کر یکم محرم الحرام کی صبح تک آپ بقید حیات رہے اور یکم محرم الحرام کو اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کرکے ’’جانِ رحمت‘‘ کے ’’جانِ خاص‘‘سیدناابوبکر صدیق کے زانوئے مبارک کے پاس سر رکھ کر اْس وقت تلک سو گئے جب تک کہ رسول کریمؐ نہ اْٹھیں اور باب السلام سے دونوں صحابہ اور اپنے خاص الخاص امتی سیدنا عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے ہمراہ ’’مقام محمود‘‘ کی جانب قدمین پاک رنجہ نہ فرمائیں۔

واقعہ یہ تھا کہ حضرت عمر ؓ سورج طلوع ہونے سے پہلے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کاشانہ خلافت سے نکل کر مسجد پہنچے، آپ کا معمول تھا کہ لوگوں کو نماز کے لیے جگاتے تھے،آپ لوگوں کو جگاتے ہوئے جیسے ہی غلام ابو لولو کے نزدیک آئے وہ لعین آپ پر جھپٹا اور تیزی کے ساتھ آپ پر تیز دھار خنجر سے پے درپے وار کیے ،ایک وار پسلیوں کے نچلے حصے پر پڑا جس سے حضرت عمر فاروق  ؓکی آنتیں نکل پڑیں۔

اس کے بعد ابو لولو اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا نمازیوں میں ایک بے چینی سی پھیل گئی بہت سے لوگ اس لعین کو پکڑنے کے لیے دوڑے لیکن ابو لولو نے کسی کا ہاتھ اپنے تک نہ پہنچے دیا اور دائیں بائیں خنجرکے وار کرنے لگا حتیٰ کہ بارہ آدمی زخمی ہو گئے جن میں ایک قول کے مطابق چھ اور دوسرے قول کے مطابق دوجانبر نہ ہو سکے ،آخر ایک شخص پیچھے سے آیا اور اپنی چادر ڈال کر اسے زمین پرگرا دیا ،ابو لولو کو یقین ہو گیا کہ وہ اسی جگہ قتل کردیا جائے گا چنانچہ جس خنجر سے اس نے حضرت عمر فاروق کو مجروح کیا تھا۔

اسی خنجر سے اپنا کام بھی تمام کر لیا…… 23ہجری کو نہ سمجھنے والو! آؤ تمہیں ایک مختصر سے جملے میں 23 ہجری کا فلسفہ سمجھا دوں، 23 کا مطلب پانچ ہے کیونکہ دو اور تین مل کر پانچ بنتا ہے …… جو پنجتن کے عاشق ہوتے ہیں اْنہیں پنجتن مل ہی جایا کرتے ہیں،چاہے تعداد کی شکل میں ہوں یا اعداد کی شکل میں…… میرے فاروق اعظم عاشق اہل بیت تھے اور23 ہجری کا عدد،مولا علیؓ کا قبر میں اتارنا، حسنین کریمین کا قبر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے قریب آنسو بہانا اور مصطفی کریمؐ کا انھیں اپنے پاس بلانا یہ سب دلیل ہے اِس بات کی …… کہ ’’اِس طرح علی وعمرکا ظہور ہے، دوآنکھیں جس طرح سے ہیں اورایک نور ہے‘‘…… انا للہ وانا الیہ راجعون!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔