بنا ہے شہہ کا مصاحب

رئیس فاطمہ  ہفتہ 14 دسمبر 2013

پانی اگر کسی ایک ہی جگہ مدتوں پڑا رہے تو بدبو آنے لگتی ہے اور بعض اوقات یہی جمع شدہ پانی جوہڑ میں تبدیل ہو کر بے شمار بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ اسی لیے صحت کے حوالے اور طبی نقطہ نظر سے اچھی اور مخلص حکومتیں گندے پانی کو جمع نہیں ہونے دیتیں۔ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ توجہ اور سب سے زیادہ بجٹ صحت، صفائی اور تعلیم کے لیے مختص کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔

یہی اصول سرکاری اور نیم سرکاری اداروں اور علمی و ادبی و ثقافتی اداروں پر بھی صادق آتا ہے۔ کسی بھی ادارے کی فعالیت اور شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے اداروں کے سربراہوں کا تبادلہ بہت ضروری ہے۔ تا کہ ہر ادارے میں نیا خون اور نئی سوچ کے حامل افراد کو خدمت اور اپنی صلاحیتوں کو سامنے لانے کا موقع مل سکے۔ اسی لیے سرکاری اور نیم سرکاری اداروں میں یہ قانون تھا کہ ہر سرکاری ملازم خصوصاً افسر کو کسی ایک جگہ تین سال سے زائد نہیں رکھا جاتا تھا۔ تبادلہ ضروری تھا۔ بعض اوقات انتہائی ضروری حالات میں متعلقہ افسر یا ادارے کے سربراہ کو صرف دو سال کی مزید مہلت ملتی تھی۔ اگلے گریڈ میں ترقی پانے والوں کے لیے تو ٹرانسفر انتہائی ضروری تھا۔ جب تک ترقی پانے والا دوسری جگہ جوائننگ نہیں دیتا تھا، اس کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی انکریمنٹ ملتا تھا۔ لیکن بعد میں غالباً 1980 کی دہائی میں یہ پابندی اٹھالی گئی۔ اور تمام سرکاری اور نیم سرکاری خود مختار ادارے بھی گندے پانی کے جوہڑ بن گئے۔

اب کسی کو ٹرانسفر کا ڈر نہیں تھا کہ بری اور ناقص کارکردگی پر دوسری جگہ تبادلہ بھی ہو سکتا ہے۔ ناقص کارکردگی کے باوجود صرف ادارے کے سربراہ کو خوش رکھنے کا عمل شروع ہو گیا۔ اداروں کے سربراہوں نے صوبائی وزیروں کو ’’خوش‘‘ کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔ یعنی ۔۔۔۔ سیاں بھئے کوتوال‘ اب ڈر کاہے کا ۔۔۔؟۔۔۔۔ اس عمل نے وہی صورت اختیار کر لی جو پانی کے کسی ایک جگہ جمع رہنے سے پیدا ہوتی ہے۔ جب کسی ادارے کا چیئرمین، صدر یا ڈائریکٹر اپنے محکمے کے متعلقہ وزیر کو ’’ہم نوالہ و ہم پیالہ و ہم مشرب‘‘ بنا لیتے ہیں تو انھیں اپنی کارکردگی دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ اپنی اپنی جگہ فرعون بن جاتے ہیں کیونکہ انھیں کسی موسیٰ کی آمد کا کوئی اندیشہ ہائے دور دراز نہیں ہوتا۔

آج پاکستان میں یہی ہو رہا ہے۔ جو کسی ادارے کا سربراہ بن گیا، اب یا تو مر کر ہی جان چھوڑے گا، یا حکومت کے بدلنے پر۔ اگر اس نے اپنا پرانا قبلہ برقرار رکھا تو اسے اپنی جگہ سے بے دخل ہونا پڑے گا ۔۔۔۔ لیکن دور اندیش لوگ حکومتوں کے بدلتے ہی اپنے خدا بھی بدل لیتے ہیں۔ نئے بتوں کی پوجا بھی شروع ہو جاتی ہے۔ یعنی ایک جگہ جمع شدہ پانی بدبو دینے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر ادارہ رو بہ زوال ہے۔ اداروں کے سربراہوں نے اپنی اپنی کرپشن چھپانے کے لیے حکومت میں شامل لوگوں کو اپنے قریبی دوستوں میں شامل کر لیا ہے۔ لیکن یہ دوستی غرض پر مبنی ہے اور اس کو قائم رکھنے کے لیے رنگین اور قیمتی مشروب کے ساتھ ساتھ رنگین اور خوشبوؤں سے لبریز مست کر دینے والے پیراہن بھی درکار ہوتے ہیں جو اندھیروں میں اجالے اور وجود میں توانائی بھر دیتے ہیں۔

اسلامی مملکت پاکستان  میں گویا قبضہ مافیا کا راج ہے۔ ایک ہی جگہ طویل عرصے تک رہنے سے اداروں کے سربراہ ساری توانائی اپنی ذات کی تشہیر اور استحکام کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ان کی حکمت عملی نہایت شاندار ہوتی ہے۔ پہلے یہ ایسے لوگوں کو نوازنا شروع کرتے ہیں جن کی مارکیٹ ویلیو سے یہ واقف ہوتے ہیں۔ خاص کر ایسے سینئر لوگ جن کے روابط اہم اور مشہور لوگوں سے ہوں۔ ان کو نوازنے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں۔ کسی کو گاڑی معہ ڈرائیور عطا کر دی۔ کسی کو گھر خرید کر دے دیا۔ کسی کے گھر کا سال بھر کا کرایہ دے کر غلام اور بندہ بے دام بنا لیا۔۔۔۔ کسی کو کوئی ایوارڈ دلوا دیا، اور ساتھ میں نوٹوں کے ہار گلے میں ڈال دیے۔ کسی کی بیٹی کو ملازمت دلوا دی، بیٹے کو کالج میں داخلہ دلوا دیا۔ کسی خاتون کو صاحب دیوان شاعرہ و ادیبہ بنا دیا۔ کسی کو جعلی ڈگری دلوا دی۔ کسی کی تقریب کے لیے فنانسر ڈھونڈ لیا۔ کسی کو کاغذ کا کوٹا دلوا دیا ۔ کسی کے بیٹے یا بیٹی کو ’’اے ون‘‘ گریڈ دلوا دیا۔ کسی کا قلم خرید لیا ۔۔۔۔ علی ہٰذالقیاس ۔۔۔۔! پھر ان حلقہ بگوشوں کے ذریعے ہر جگہ اپنے تعلقات بنائے۔

اور اپنی سیٹ پکی کر لی۔۔۔۔ اب کون انھیں چیلنج کرے۔۔۔۔ ہر طرف خوشامدیوں کا ٹولہ موصوف کو گھیرے میں لیے رہتا ہے۔ تا کہ کوئی قابل، ذہین اور جینوین انسان سامنے نہ آ سکے ۔ یہی ہر ادارے میں قدم جمانے کا گُر ہے ۔ اور یہ گُر اداروں کے سربراہوں نے ایک سابق صدر سے سیکھا ہے کہ ’’خود بھی کھا، دوسروں کو بھی کھلا ۔۔۔۔ اکیلے نہ کھا‘‘۔ لہٰذا کھانے اور چھیننے کا یہ سلسلہ وزیروں اور مشیروں کی سرپرستی سے سالہا سال جاری رہتا ہے۔ کوے ہمیشہ گروہ کی شکل میں کھاتے ہیں اور کسی فاختہ، چڑیا یا بلبل کو قریب آتے دیکھ کر شور مچا کر اسے بھاگنے پہ مجبور کر دیتے ہیں۔ اسی لیے ہر ادارہ روبہ زوال ہے کہ چاپلوس لوگوں نے اپنے اپنے مجازی خداؤں کی گردن میں سریا فٹ کر دیا ہے۔ یہ سریے یا تو قبر تک ساتھ جاتے ہیں یا پھر ان سے زیادہ موٹی گردن والا زیادہ موٹے سریے کے ساتھ ان کے اقتدار کی کرسی پہ آن بیٹھتا ہے۔

ہلاکو نے بغداد کو تاراج کرنے کے بعد کہا تھا۔۔۔۔ ’’میں خدا کا قہر ہوں اور اسی کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہوں۔‘‘ پاکستان کے مختلف اداروں پہ جو قبضہ مافیا عیش کر رہے ہیں ان کی فرعونیت اور اکڑی ہوئی گردنوں میں کلف لگانے میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ کیونکہ سب کو اپنا اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے۔ وہ بزرگ سیاست دان، ادیب، شاعر، قلم کار بھی اس واردات میں شریک ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی غلطی کی نشان دہی کی، کوئی اعتراض کیا، کہیں اختلاف کیا، کسی جوہر قابل کو اس کا حق دلانا چاہا تو خود ان کا وجود نابود ہو جائے گا۔ اپنا اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے ہر سطح پر قصیدہ خوانی کرنی ضروری ہے تا کہ تا حیات اقتدار کی دیگ کے زردے کے چاول کھاتے رہیں، یہ دور نااہلوں کا ہے۔ جعلی ڈگری ہولڈرز کا ہے۔ جعلی دوا فروشوں کا ہے۔ دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کا ہے۔ یہی کاروبار عروج پر ہے، لیکن ایک بات ضرور باعث اطمینان ہے کہ یہ تمام وارداتیں کرنے والے بے نقاب بھی ہو رہے ہیں۔ جو محفلوں اور مسندوں پہ مختلف محکموں کی کرسی صدارت پہ متمکن ہیں، ان کے بارے میں سنجیدہ لوگوں کا ایک بڑا طبقہ اور خود ان کے حلقہ بگوش کیا کہتے ہیں؟ یہ اگر سن لیں اور ان ضمیر اور غیرت نام کی کوئی شے باقی ہے تو یہ کسی کو اپنا منہ نہ دکھائیں لیکن اگر ان کا ضمیر زندہ ہوتا تو یہ اپنے اپنے اداروں کے ’’پیر تسمہ پا‘‘ نہ بنتے۔

بنا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔