مسئلہ کشمیر پر مختلف موقف کیوں

محمد سعید آرائیں  منگل 25 اگست 2020
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

ایکسپریس نیوز کے پروگرام ’’ایکسپرٹس ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ تنازعہ کشمیر پرحکومت کا یوم استحصال منالینا کافی نہیں،  لگتا ہے کہ حکومت کا کشمیر پر فوکس نہیں رہا۔ بھارت سے تجارتی و سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی بات بھی ہوئی ۔

تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ ہم نے سال بھر کچھ نہیں کیا، بس سال میں 15 اگست کو یوم استحصال منالیا۔ کشمیر ہائی وے کو سری نگر ہائی وے کا نام دے دیا اور ہم کشمیر کو بزور بازو نہیں لے سکتے لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ہم خاموش ہوکر بیٹھ جائیں اور کچھ نہ کریں،ہمارے بس میں جو بھی ہے وہ ہمیں کرتے رہنا چاہیے۔ سب لوگوں نے کشمیر کو اعداد و شمار کا کھیل بنادیا ہے۔ 72 سال سے ہم سنتے آ رہے ہیں کہ کشمیر ہمارا اٹوٹ انگ ہے اور آیندہ ہمارے بچے بھی شاید یہی سنتے رہیں گے۔

وزات  خارجہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر حقیقی طور پر اس طرح اجاگر نہیں کرسکی جیسا ہونا چاہیے تھا مگر اب وزیر خارجہ نے سری نگر کو اپنی منزل قرار دیا ہے اور حکومتی رہنما بھی اب اس بات پر اکتفا کر بیٹھے ہیں کہ انشا اللہ سری نگر تک جائیں گے۔ وزیر خارجہ ایک سال میں صرف یہ کرسکے ہیں کہ اچانک پاکستان کا ایک نیا نقشہ جاری کردیا اور کہا کہ ہم جلد سری نگر میں نماز شکرانہ ادا کریں گے۔

وزیر مواصلات مراد سعید نے یوم استحصال پر بھارت کے خلاف اس کے کشمیر میں مظالم کا ڈاک ٹکٹ جاری کرکے اپنی ذمے داری پوری کردی۔ وزیر دفاع، وزیر خارجہ اور قومی سلامتی کے مشیر نے کنٹرول لائن جا کر فوجی جوانوں کی عظمت، ہمت و جذبے کو خراج تحسین پیش کرکے یہ سمجھ لیا کہ ان کے ایسا کرنے سے بھارت اپنے مظالم سے باز آجائے گا اور مقبوضہ کشمیر میں ایک سال سے بھارتی مظالم اور لاک ڈاؤن برداشت کرنے والے کشمیریوں کے دکھ کا مداوا ہو جائے گا۔ حکومت نے ایک سال میں بیان بازی کے ساتھ یہ کہا ہے کہ 5 اگست کو یوم استحصال منالیا۔

قوم کو کشمیریوں کے ساتھ کھڑا دکھانے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرلی جب کہ پہلے وزیر اعظم اس سلسلے میں ہر جمعہ کو خاموشی اختیار کراتے تھے اور خود کو دنیا میں کشمیر کا سفیر قرار دلاتے تھے مگر کورونا سے قبل کے 6ماہ میں انھوں نے کشمیریوں کے لیے کوئی غیر ملکی دورہ کیا اور نہ ہی وزیر خارجہ عالمی دنیا تو کیا خلیجی ممالک کو بھی بھارتی جارحیت کے خلاف مذمتی بیان دینے پر آمادہ کرسکے۔ کورونا کے 6مہینوں میں بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنی مرضی کے فیصلے کرتا رہا اور ہم صرف اس کی مذمت کرتے رہے کیونکہ واقعی ہم اس کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔

اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ایک منٹ کی خاموشی کے بعد کیا حکومت مکمل خاموشی اختیار کرلے گی؟ ایک ریٹائرڈ  جنرل کا کہنا ہے کہ کشمیر کے لیے جنگ سے گریز نہیں کریں گے۔ اب تک پاکستان نے مسئلہ کشمیر کے لیے جو کیا ہے وہ بہت کم ہے۔ ن لیگ کے رہنما خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر حکومت کے ساتھ ہیں۔ ملک کے اندر تو اس سلسلے میں اچھا کام ہوا ہے مگر ہمارا اختلاف حکومت کی مفلوج سفارت کاری سے ہے اور اصل کام ملک سے باہر کرنے کا ہے جو نہیں کیا گیا۔

مسئلہ کشمیر پر صرف ترکی اور ملائیشیا ہمارے ساتھ کھڑے ہیں اور تمام مسلم ممالک کے بھارت سے اچھے تعلقات ہیں۔ کشمیر کے سلسلے میں بھارت سے لڑنا ہے یا نہیں لڑنا ہم اب تک یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکے، ہمیں چین کی طرح خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے آپشنز موجود ہیں جب کہ وہ کسی آپشن پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔

آزاد کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کا موقف ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے لیے جو کیا گیا اس سے آگے بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ کورونا سے قبل جو اقدامات ہوئے تھے اب نئے سرے سے انھیں آگے بڑھانا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے تین اہم جزو ہیں، ہمیں ان تینوں کو ایک لڑی میں پرونا ہوگا۔ اس سلسلے میں پاکستان کی وزارت خارجہ ہمارے ساتھ رہے اور ہمیں آگے کرے کیونکہ ہم کشمیر کے فریق ہیں۔ مسلم لیگ کے ایک اور رہنما  کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر اب عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر ہمیں اخلاق اور انسانی حقوق کی جنگ لڑنی ہے جب کہ ہم نے تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن میں کوئی قرار داد تک پیش نہیں کی اور انسانی حقوق کا معاملہ بھرپور انداز میں اٹھانے کا موقعہ ضایع کردیا ہے۔ ایک تجزیہ کار کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ سڑکوں پر نکلنے، تقاریر اور ریلیوں سے کشمیر بالکل بھی آزاد نہیں ہوگا اور عالمی برادری میں ہمیں کشمیر کا کیس نئے سرے سے لے جانا ہوگا۔ یقیناً کشمیر کے مسئلے پر اب ہمیں سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بات سو فیصد درست ہے کہ ماضی کی طرح موجودہ حکومت عملی طور پر کچھ نہیں کر پائی اور پیشکش کے باوجود وزیر اعظم عمران خان کشمیر کے لیے اپوزیشن کو ساتھ ملانا نہیں چاہتے جب کہ تنہا وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ ایک سال قبل ہوا مگر وزیر خارجہ نے حقائق چھپائے اور ہماری سفارتکاری دنیا میں کوئی موثر کردار ادا نہ کرسکی، اس لیے اب ضروری ہے کہ وزیر اعظم اپوزیشن کا تعاون حاصل کریں اور وزارت خارجہ دنیا میں یہ اہم مسئلہ اجاگر کرنے کے لیے پہلے او آئی سی کا تعاون حاصل کرکے دنیا میں جائیں کیونکہ محض جذباتی تقاریر سے یہ مسئلہ حل ہوا ہے نہ ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔