دو بوتل، نو سال

منصور ریاض  بدھ 26 اگست 2020
اگر اداکارہ کے خلاف کوئی سازش تھی تو اسے بے نقاب کرنے کی ضرورت تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر اداکارہ کے خلاف کوئی سازش تھی تو اسے بے نقاب کرنے کی ضرورت تھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

’’وہ آئی، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔‘‘ زمانہ جب جنگوں اور قبضوں سے ’دیکھنے اور دِکھانے‘ پر منتقل ہوا اور عورتیں اپنے محدود کردار سے نکل کر باہر آئیں تو مقولہ (یا مخولہ) ’آیا‘ سے ’آئی‘ میں تبدیل ہوگیا۔ دنیا بھر میں شوبز کے توسط بہت سی خواتین آتے ہی وائرل ہوگئیں اور باوجود ایک قدامت پسند معاشرے اور حکومتی پالیسیوں کے، پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوا، بلکہ کچھ زیادہ ہی ہوا۔

عتیقہ اوڈھو کا شمار بھی ان وائرل اداکاراؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی خوبصورتی اور اداکاری کے امتزاج سے لوگوں کو اسیر بنائے رکھا۔ ’ستارہ سے منصورہ‘ تک اپنے کرداروں کے گلیمر ناموں اور کاموں کے ساتھ اپنی شہرت برقرار رکھی، حتیٰ کہ ان کی فلموں میں ناکامی اور ایک جیسی اداکاری بھی نظر انداز کردی گئی۔ ڈھلتی عمر، ہیروئن کی مسند سے ’اترنے‘، اداکاری میں ورائٹی نہ ہونے کو انھوں نے اپنے گلیمر، ’شیرنی‘ اسٹائل، تند بیانات، سماجی کاموں، سیاست اور پھر ’بوتلوں‘ کے ذریعے پورا کیا۔
صرف دو بوتل ’اوڈھ کا‘
کیس پڑا نو سال کا

ہماری عدالت اور انصاف کی تاریخ مقدمات کی طوالت اور عجیب و غریب فیصلوں سے اٹی پڑی ہے۔ بدقسمتی ہے کہ معاشرتی طور پرالمیے کے بجائے ہم اس کو دلچسپی کے عنصر سے زیادہ دیکھتے ہیں۔ جائیدادوں کے تنازعے میں تین تین نسلیں گزر جاتی ہیں، اور کئی دفعہ بیس تیس سال بعد ملزم جیل سے یا قبر سے ’باعزت‘ بری ہوتا ہے۔ عتیقہ اوڈھو کا مقدمہ جائیداد یا کسی اور گنجلک مقدمے کی طرح نہیں تھا۔ یہ تو سیدھا سادہ ایئرپورٹ چیکنگ کا کیس تھا۔ جس میں پاکستانی قانون کے مطابق سامان سے شراب کی بوتلیں برآمد ہونا جرم ہے۔ اگر برآمد نہیں ہوئیں، تو بوتلیں ’ڈالنا‘ زیادہ بڑا جرم ہے، اور اگر سیکیورٹی کی غلطی ہے تو پھر تو سب سے زیادہ تشویش ناک بات۔ اتنا بڑا ’پلیکھا‘ تو کسی شاعر سے ہی ہوسکتا ہے؛ وہ جو کہتے ہیں ’’آنکھیں ہیں کہ شراب کی دو پیالیاں ہیں‘‘۔ شاید اتنی خوبصورت آنکھوں کا عکس سامان میں آگیا ہو۔ ویسے شراب اور عورت سے ہمارا جو پیچ در پیچ تعلق ہے، تو کوئی بعید بھی نہیں۔

بظاہر یہ پاکستانی عدالتی اور قانونی تاریخ کا ایک اور دلچسپ کیس ہے۔ عدالت نے نو سال بعد بریت کا فیصلہ کیا، جس میں مدعا مسافر کے سامان میں صرف دو بوتلوں کا نکلنا تھا۔ حساب کی رو سے ایک بوتل کے ساڑھے چار سال اور اسی طرح اگر چار بوتلیں ہوتیں، تو 9×2 کے مطابق اٹھارہ سال بنتے۔ لیکن ’ماہرینِ قانون‘ اور اہل نظر کے مطابق ایک بوتل ہوتی یا چار، فیصلے میں اتنی ہی دیر لگنی تھی، اور اب بھی کچھ پتہ نہیں کہ فیصلے کے خلاف کہیں اپیل پڑجائے یا کوئی ’افتحار چوہدری‘ نکل آئے۔

جس وقت مقدمہ ہوا، عتیقہ اوڈھو مشرف کی تیسری اور ’نظریاتی‘ لاٹ کا حصہ تھیں۔ جب پہلی لاٹ کے ماہرین اور دوسری لاٹ کے سیاسی گروہ اڑن چھو ہوچکے تھے، تو بہت سے لبرل، ماڈرن، جن میں کئی اداکار شامل تھے، مشرف کے ’نظریاتی‘ طور پر ساتھ تھے اور جگہ خالی ہونے پر ’اعلیٰ‘ عہدوں پر بھی جاپہنچے۔ آج ’ستارہ امتیاز‘ مہوش حیات اسی بچی کچھی باقیات کا حصہ ہیں، جنہوں نے سابق صدر کی بغاوت مقدمے میں سزا ہونے پر ٹویٹ پر برا سا منہ بنایا تھا، البتہ مشرف کی سابق ترجمان عتیقہ اوڈھو خاموش رہیں۔

معاملات کو پیچیدہ بنایا ہی اس لیے جاتا ہے کہ اس کی تہیں نکالنا مشکل ہوجائے۔ بظاہر یہ ہمارے ہاں کی سیدھی سادی اور مٹی پاؤ تہہ لگتی ہے کہ بوتلیں تو برآمد ہوئی ہوں گی، لیکن اداکارہ نے تعلقات استعمال کرتے ہوئے اور بااثر افراد کو کارآمد بناتے ہوئے ایئرپورٹ پر ٹھنڈ ڈال دی ہوگی۔ معاملہ تب بگڑا جب جوڈیشل ایکٹوازم کے بانی اور ماہر سوموٹو افتحار چوہدری نے نوٹس لیا اور اس کیس پر تحقیقات ہوئیں۔

افتحار چوہدری کے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ ایک تو مشرف کی عداوت میں انہوں نے ایسے کیا، کیونکہ موصوفہ سابق صدر کی ترجمان کے عہدے پر جاپہنچی تھیں۔ دوسرا جب ملک کو درپیش مسائل کے باعث بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالنے اور زیر التوا کیسز کو حل کرنے کی ضرورت تھی، افتحار چوہدری ’زچ‘ کرنے کی خاطر کبھی ٹریفک جام پر نوٹس اور کبھی اس طرح کے معمولی کیس میں سوموٹو لیتے پائے گئے۔ البتہ یہ رائے کافی حد تک درست ہے کہ بڑی بڑی باتوں کے برعکس عورت اور پینے پلانے کی بات ہو تو ہمارے ’لٹھ‘، دلچسپی اور منافقت عود کر آتی ہے۔

اس کے برعکس رائے ہے کہ معاملہ صرف دو بوتلوں کا نہیں تھا بلکہ ایئرپورٹ سیکیورٹی لیپس کا مطلب پورے ملک کی اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی پر سوالیہ نشان، جب دہشت گردی عروج پر تھی۔ دوسری سب سے بڑی بات کہ جو عام طور پر بااثر ہونا قانون سے باہر ہونے کی دلیل ہے، اس کو بھی بے نقاب کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔

اب نو سال بعد کیا ہوا، کسی کو کچھ پتہ ہے؟ اگر اداکارہ کے خلاف کوئی سازش تھی تو یہ تو بے نقاب کرنے کی ضرورت تھی۔ امید ہے کہ تفصیلی فیصلے میں بھی کچھ ’برآمد‘ نہیں ہوگا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس مقدمے میں کوئی سزا نہ ہو، کوئی چیز سامنے نہ آئے۔ جہاں مٹی ڈالنی ہوتی ہے، وہاں کوئی سوال نہیں اور جہاں کسی کو رگیدنا ہو تو مردے بھی اکھاڑ لیے جاتے ہیں۔ ایسے ہی نہیں فائزعیسیٰ کے پیچھے پڑے ہوئے۔

وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار فکر کرلیں کہ شراب کے مقدمات کے فیصلے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ معاملہ الٹ ہوا تو نو سال کے بجائے نو دن میں بھی فیصلہ آسکتا ہے، ورنہ دو بوتلوں میں نو سال لگ سکتے ہیں تو پرمٹ کا فیصلہ تو بزدار کے پوتے پڑپوتے لیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

منصور ریاض

منصور ریاض

بلاگر اردو میں تھوڑا لکھتے اور انگریزی میں زیادہ پڑھتے (پڑتے) ہیں، پڑھا لکھا صرف ٹیکنالوجی جاننے والوں کو سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔