سیاسی شعور اور سیاسی لٹیرے

یونس مسعود  منگل 25 اگست 2020
ہمارے عوام سیاسی شعور سے بے بہرہ اور سیاست لٹیروں سے بھری ہوئی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے عوام سیاسی شعور سے بے بہرہ اور سیاست لٹیروں سے بھری ہوئی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سائنس کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ ایک ہی عمل کو اگر بار بار دہرائیں تو اس کے نتائج ہمیشہ ایک جیسے ہی آئیں گے۔ اگر نتائج میں تبدیلی چاہیے تو پھر عمل میں بھی تھوڑی بہت تبدیلی کرنی پڑے گی۔ اتنے بنیادی اور عام فہم اصول کو جانتے ہوئے بھی کچھ دانشور یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ہر پانچ سال کے بعد انتخابات ہوتے رہیں، آخرکار پاکستان سنور جائے گا۔ یعنی ہم انتخابی اصلاحات بھی نہ کریں، نظام حکومت اور سارا سیٹ اپ بھی وہی رہے، پھر بھی تبدیلی آجائے۔ اس حوالے سے مغربی ممالک کے جمہوری عمل کی مثالیں دی جاتی ہیں۔

سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا مغربی ممالک کی شرح خواندگی پاکستان جتنی ہے؟ کیا وہاں جعلی ڈگری کے حامل امیدوار الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں؟ کیا وہاں قتل، ڈکیتی اور درجنوں ایف آئی آر رکھنے والے عدالتوں سے اسٹے لے کر الیکشن لڑتے ہیں؟ کیا وہاں ہزاروں کی تعداد میں اپنے مزارعین کے شناختی کارڈ ضبط کرکے جاگیردار اپنی مرضی کے ٹھپے لگاتے ہیں؟ کیا وہاں دھمکیوں اور سرمائے سے ووٹ خریدے جاتے ہیں؟ کیا وہاں انتخابی ٹکٹ کروڑوں میں بکتے ہیں؟ کیا وہاں کی انتخابی مہم میں اربوں کی سرمایہ کاری ہوتی ہے؟ کیا وہاں بھی امیدوار کے بجائے پارٹی کے نام پر ووٹ ڈالے جاتے ہیں؟ کیا وہاں بھی پچاسی سالہ شخص کو چیف الیکشن کمیشن بنایا جاتا ہے؟ کیا وہاں بھی ووٹ ڈالنے والوں کی شرح ہمیشہ پچاس فیصد سے کم ہوتی ہے؟ اگر ان ممالک میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا تو پاکستان کےلیے ان کی مثال کیوں دی جاتی ہے؟ اگر واقعی الیکشن سے ہی سب کچھ بدلنا ہے تو پہلے الیکشن تو ڈھنگ سے کرالیجئے۔

کتنی حیرت کی بات ہے کہ تمام بڑے سرکاری اور نجی اداروں میں روزانہ کی حاضری اور دوسرے امور کےلیے بائیومیٹرک سسٹم نصب ہے، اگر نہیں ہے تو الیکشن کےلیے نہیں ہے۔ کسی شخص پر کوئی ایف آئی آر ہو تو وہ معمولی سرکاری ملازمت کےلیے بھی نااہل تصور ہوتا ہے۔ مگر سارے ملک کا نظام چلانے کےلیے ایم این اے اور ایم پی اے کا الیکشن لڑ سکتا ہے۔ انتخابی تشہیر کےلیے کروڑوں اربوں خرچ ہوتے ہیں مگر مجال ہے جو الیکشن کمیشن نے اس کا کبھی نوٹس لیا ہو یا اسے بنیاد بنا کر کسی کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے ہوں۔ اعلیٰ عدلیہ بھی سب کچھ دیکھ رہی ہوتی ہے اور دیگر تمام بااختیار ادارے بھی، لیکن انہیں ایسے امور پر توجہ دینا شاید ملکی مفاد کے خلاف دکھائی دیتا ہے۔

ڈکیت، اچکے، سرمایہ دار، جاگیردار، جعلی ڈگری والے جب نام نہاد انتخابی عمل سے گزر کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں تو عوام کا پیسہ اور وقت دونوں ضائع کرتے ہیں۔ اپنی منافقت چھپانے اور خود کو پرہیزگار ظاہر کرنے کےلیے کبھی کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کی مذمت میں کوئی قرارداد منظور کراتے ہیں تو کبھی یہ قرارداد کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جب نام آئے گا تو پورا درود لکھا جائے گا، صحابہ کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھا جائے گا، وغیرہ۔ جس سے بھولے بھالے عوام خوش ہوجاتے ہیں۔ اگر یہ واقعی اسلامی تعلیمات کو پسند کرتے ہیں تو کبھی ایسے قانون کیوں نہیں منظور کراتے کہ اب پورے ملک سے سود ختم کردیا جائے گا، شادی شدہ زانی کو سنگسار اور غیر شادی شدہ کو کوڑے مارے جائیں گے، چوروں کے ہاتھ کاٹے جائیں گے، کرپشن پر موت یا عمرقید کی سزا ہوگی؟

اسمبلیوں میں صرف اپوزیشن یا حکومت پر تنقید ہوتی ہے، کبھی یہ بحث نہیں ہوئی کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہونی چاہیے، ملک سے غربت اور مہنگائی کیسے ختم ہونی چاہیے، یکساں نظام تعلیم کیسے نافذ ہوسکتا ہے، بیرونی قرضہ کیسے ختم ہوسکتا ہے، پاکستان کے بڑے مسائل کون کون سے ہیں اور ان کا ممکنہ حل کیا ہوسکتا ہے؟

اگر پاکستانی عوام اور بااختیار ادارے واقعی پاکستان کی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں تو انہیں اصل مسائل کو سمجھنا ہوگا۔ انتخابی اصلاحات کرنا ہوں گی۔ ورنہ ہر پانچ سال کے بعد الیکشن کا جھنجھنا بجا کر خود کو بہلانا اور پھر وقت گزارنا ہی باقی رہ جائے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

یونس مسعود

یونس مسعود

مصنف انگریزی زبان کے لیکچرار ہیں اور انہوں نے انگریزی لسانیات میں ایم فل کیا ہوا ہے۔ مختلف جرائد کے لیے سماجی و مذہبی موضوعات پر قلم کاری کرتے رہے ہیں اور اب اپنی صلاحیتوں کا رُخ بلاگنگ کی سمت کرنے میں مصروف ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔