صدیاں حسینؓ کی ہیں، زمانہ حسینؓ کا

آغا سید حامد علی شاہ موسوی  اتوار 30 اگست 2020
شہادت حسینؓ مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار اور اس کے ثمرات امت مسلمہ کے لیے بیش بہا انمول سرمایہ ہیں۔ فوٹو: فائل

شہادت حسینؓ مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار اور اس کے ثمرات امت مسلمہ کے لیے بیش بہا انمول سرمایہ ہیں۔ فوٹو: فائل

قرآن حکیم میں ارشاد خداوندی کا مفہوم ہے: ’’جب حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ خانہ کعبہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے تو انہوں نے عرض کی کہ اے پالنے والے! ہماری خدمت کو قبول فرما اور ہم دونوں کو اپنا مسلمان بندہ بنائے رکھنا، ہماری ذریت کو بھی امتِ مسلمہ بنائے رکھنا۔‘‘

اسی طرح قرآنِ پاک میں ایک اور موقع پر ارشادِ قدرت ہوا: ’’جب ابراہیم کو خدا نے بعض باتوں میں آزمایا تو پھر انہوں نے اُسے پورا کیا، خدا نے اُن سے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کے لیے پیشوا بنانے والا ہوں۔ (سورہ بقرہ) مزید فرمایا اور ہم نے ابراہیمؑ کو دنیا و آخرت میں نیکوں اور صالحین میں لے لیا ہے، جب رب نے اُن سے کہا کہ اپنے آپ کو ہمارے سپرد کردو تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو سپردِ پروردگار کرتا ہوں۔ پھر ایک اور جگہ فرمایا کہ بے شک وہ لوگ جو خدا کے فرماں بردار ہوئے اور ایک طرف کے ہورہے، وہ مشرکین میں سے نہ تھے، خدا کی نعمتوں کے شکرگزار تھے، خدا نے اُنہیں برگزیدہ کیا اور سیدھی راہ پر چلایا اور ہم نے اُنہیں دنیا میں بھی دیا، وہ دنیا و آخرت میں بے شک صالحین خدا میں سے تھے۔

یہ ایک تاریخی اور مسلمہ حقیقت ہے کہ بارگاہِ الہی میں جس کا ایمان جس قدر مضبوط ہوگا، اسی قدر امتحان اور آزمائش کا مرحلہ بھی سخت ترین ہوگا۔ انبیاء و مرسلین میں حضرت ابراہیم ؑ ہی کو لے لیں اُنہیں خدا نے مختلف آزمائش و امتحانات سے گزارا، وہ اپنی جلالتِ قدر کے لحاظ سے ہر مرتبہ امتحان و آزمائش میں کام یاب ثابت ہوئے۔ جب اُنہیں نمرود کے حکم سے آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے اُس وقت جو صبر و استقامت اور عزم و ہمت کا ثبوت پیش کیا یہ انہی کا کام تھا۔ بعدازاں جب حضرت اسمٰعیلؑ و ہاجرا ؓ کو بیابانِ فاران میں چھوڑنے کا حکم ملا تو وہ بھی ایک سخت ترین مرحلہ و آزمائش تھا۔ اب سب سے کٹھن امتحان اور آزمائش جو سب امتحانوں سے سخت ترین تھا۔ حضرت ابراہیم ؑ خلیلِ خدا خواب میں تین شبوں تک یہی دیکھتے رہے کہ خدا کے حکم سے اپنے لختِ جگر اسمٰعیلؑ کو قربان کررہا ہوں۔ پیکرِ تسلیم و رضا ابراہیم ؑ فوراً آمادہ ہوگئے کہ حکم خدا کی تعمیل کریں۔ تاہم چوں کہ یہ معاملہ اُن کے بیٹے سے متعلق تھا جن کی قربانی کا حکم تھا، لہذا حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے فرماں بردار اور اطاعت شعار نورِنظر کو اپنا خواب بتایا اور حکم خدا سنایا۔ حضرت اسمٰعیل ؑ چوں کہ خلیلِ خدا حضرت ابراہیم ؑ کے بیٹے تھے لہذا انہوں نے سرِ تسلیم فورا خم کردیا اور عرض کی کہ ان شاء اﷲ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ پھر ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے اسمٰعیل ؑ کو پیشانی کے بل لٹایا تو ہم نے کہا کہ اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ہم مخلصین کو ایسے صلہ دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بڑی آزمائش تھی جسے ہم نے ’’فدیناہ بذبح عظیم‘‘ قرار دے دیا اور آنے والی نسلوں کے لیے باقی رکھا، سلام ہو ابراہیم ؑ پر، ہم انہیں معروفات بجا لانے کا ایسا صلہ دیتے ہیں یقینا وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں۔ (سورہ الصافات)

ذاتِ الہی کے حکم کی تعمیل عقل و دانش میں آئے نہ آئے لازم ہے۔ کیوں کہ آتشِ نمرود میں کودنے کا کرشمہ عشق ہے۔ جب کہ عقل تو محوِ تماشائے لبِ بام نظر آتی ہے۔ یہی حسین ابن علی ؓ کا عشقِ الہی تھا کہ عزت و حرمت اور رفعت و وقار کا ماہِ محرم نواسۂ رسول الثقلینؐ، شہزادۂ کونین حضرت امام حسینؓ کی اپنے فرماں بردار، اطاعت شعار اصحاب ؓ باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی لہو رنگ لازوال قربانی کی یاد دلاتا ہے۔ جسے تاریخ انسانی میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے اور تاریخ بشری اس عظیم ترین قربانی کی مثال پیش کرنے سے قاصر و عاجز ہے۔

شریعت ِ مصطفویؐ میں یہ قربانی قربِ الہی کا وسیلہ قرار پائی جو دربارِ الہی میں عجز و انکساری اور تسلیم و رضا کا سرچشمہ ہے، جس سے دنیائے شریعت کی سربلندی، عالم اسلام کی یگانگت، قوم و ملت کی سلامتی اور اعلیٰ دینی اقدار کے تحفظ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔

تسلیم و رضا کی اس لازوال داستان کو دہرانا اور خاص طور پر محرم الحرام میں اس کا تذکرہ کرنا دینی فریضہ ہی نہیں، بل کہ انسانی اقدار اور اخلاقی فضائل و کمالات کی حیات کا ضامن ہے۔ امام ؓ عالی مقام کا تعلق کسی مخصوص مکتب، مذہب یا فرقے اور ملک سے نہیں بل کہ ہر باضمیر انسان بارگاہِ مظلوم کربلا میں مودب اور مغموم دکھائی دیتا ہے۔

حضرت امام حسینؓ نے روزِ عاشورہ اپنے72جاں نثاروں کو اسلام کے تقدس کی خاطر قربان کردیا اور اُس پر آنچ نہ آنے دی۔ یہاں تک کہ فاسق و فاجر کے ہاتھ میں اس کی زمام دینا بھی گوارا نہیں کیا اور اس کے خلاف آوازِ حق بلند کرکے شعائر اﷲ کے احترام کا تا قیامت سلیقہ سکھا دیا۔

حضرت امام حسینؓ نے بیعت ِ یزید کے مطالبے کو ٹھوکر مار کر دنیا کو بتا دیا کہ ہم خانوادہِ رسول ؐ ہیں، کسی ظالم و جابر کے سامنے نہیں جھکتے اور نوکِ سناں پر بھی کلمہ حق بلند کرتے ہیں۔ اسی لیے آپؓ نے گورنر مدینہ کے سامنے اپنا تعارف یوں کرایا:

’’ اے ولید! ہم خانوادہِ نبوت اور معدنِ رسالت ہیں، ہم پر فرشتوں کی آمد ہوتی ہے، خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، خدا نے اسلام کو ہمارے گھرانے سے شروع کیا اور ہم ہی پر اختتام کرے گا۔ لیکن یزید جس کی بیعت کی تو ہم سے توقع رکھتا ہے وہ شراب خوار ہے، بے گناہ افراد کا قاتل ہے، احکام خدا کو پامال کرنے والا ہے، کھلے عام فسق و فجور کرتا ہے اور مجھ ایسا اس یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔‘‘

امام عالی مقامؓ نے اس خطاب میں اپنا موقف کھلے الفاظ میں بیان کردیا کہ وہ بیعت ِ یزید کو غیر اسلامی اور غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ نواسۂ رسول ﷺ حضرت امام حسین ابن علی کرم اﷲ وجہہ کی جدوجہد اور شجاعت کا اہم ترین مقصد اُس قوت کو مٹانا تھا جو ناصرف یہ چاہتی تھی کہ اپنی تمام خامیوں کے باوجود خلافتِ اسلامیہ کے منصب پر قابض ہو، ظلم اور دنگا و فساد کی ترویج کرکے اُمتِ مسلمہ کے مخالف نہ ہونے کی صورت میں خلافت ِ اسلامیہ کے نقاب میں چھپ کر قرآن و اسلام کے خلاف اُن شیطانی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائے جو حضور ﷺ کے زمانے میں جدل و جدال سے کام یاب نہ ہونے پائے تھے۔ درحقیقت اسی یزیدی قوت کو ملیامیٹ کرنا حسینؓ کی ذمے داری تھی جسے آپؓ نے یوں بیان فرمایا: ’’میں معروفات کا حکم اور منکرات سے روکنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے نانا نام دار ﷺ اور بابا بزرگوار کی سیرت پر چلوں۔‘‘

اسی لیے امام مظلوم کربلا نے یہ رجز پڑھا:

’’میں حسینؓ ہوں، میں نے قسم کھائی ہے کہ دشمنِ خدا و رسول ﷺ کے سامنے سر نہیں جھکاؤں گا، احکاماتِ خداوندی کی حفاظت کروں گا، یہاں تک کہ دین نبیﷺ کی راہ میں مارا جاؤں۔‘‘

ایک اور جگہ امام عالی مقامؓ نے فرمایا: ’’میں علیؓ کا بیٹا ہوں جو آل ہاشم کے بہترین فرد ہیں، یہی میرا سب سے بڑا افتخار ہے کہ میرے جدِامجد رسول ﷺ خدا ہیں جو تاریخ کی بہترین شخصیت ہیں، ہم خدا کے چراغ ہیں جو روشن رہنے والے ہیں، میرے بابا علیؓ اور ماں فاطمہ زہراؓ دخترِ احمدِ مرسل ؐ ہیں، عم بزرگوار جعفر طیارؓ جو ذوالجناحین کے لقب سے مشہور ہیں، خدا ہمارے ساتھ ہے، جس نے ہمیں ہدایت و راہ نمائی کے منصب پر فائز کیا ہے، ہم تمام مخلوقات کے لیے خدا کی طرف سے پناہ گاہ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جس کا ہم کبھی کھل کر اعلانیہ اور کبھی پوشیدہ طور پر بتاتے ہیں، ہم ساقی حوضِ کوثر ہیں، قیامت کے روز جسے چاہیں جام کوثر سے سیراب کریں، یہی وہ حوضِ کوثر ہے جو قیامت کے دن جائے سعادت ہے اور دشمن نقصان اُٹھائیں گے۔‘‘

حضرت امام حسینؓ عزت و جاہ، دولت و ثروت کے خواہاں نہ تھے۔ وہ نہ شر و فساد پھیلانا چاہتے تھے نہ مسلمانوں کے امور میں رخنہ ڈالنا چاہتے تھے۔ بل کہ اُن کی شہادت کا مقصد اسلام کی سربلندی، حرمتِ انسانی کا تحفظ، شریعت ِ محمدی ﷺ کو افراط و تفریط سے بچانا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ امام عالی مقامؓ نے اپنے اصحاب باوفا اور اولادِ اطہارؓ کی شہادت پیش کرکے عقول بشری کو سربلند کرکے جو اقدار فراہم کیں وہ انسان کو عظیم ترین مرتبے پر فائز کرتی ہیں۔

آج اگر پوری کائنات میں صدائے توحید گونج رہی ہے اور ہر مسلمان کے قلب پر نقش ہے تو یہ قربانی حسینؓ کا صدقہ ہے۔ حسینؓ نے اپنی اور اپنے پیاروں و جاں نثاروں کی لازوال قربانی دے کر نہ صرف کلمۂ توحید اور مشن رسالت ﷺ کی لاج رکھی، وہاں تا ابد ہر مظلوم و ناکس کو ظالموں سے ٹکرانے اور آمروں پر چھا جانے کا حوصلہ بھی عطا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حریت پسند ہی نہیں بلاتفریق مذہب ہر قوم حسینؓ کو سلام پیش کرتی ہے۔

شہادت حسینؓ مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار اور اس کے ثمرات امت مسلمہ کے لیے بیش بہا انمول سرمایہ ہیں۔ ہر عہد میں صدائے حسینیؓ کی گونج مسلمانوں میں دین سے وابستگی اور راہ خدا میں قربانی کا جذبہ بیدار رکھے ہوئے ہے۔ یہ حسینؓ کی قربانی کا ہی اعجاز ہے کہ اسلام کا ہر سپاہی ارفع و اعلی مقاصد کے لیے ہنس کر شہادت کا جام پیتا ہے۔ یزید اپنے ظلم، جبر اور ناپاک ارادوں کے ساتھ ذلّت کی عمیق گہرائیوں میں غرق ہوگیا، لیکن رسول ؐ کا پیارا حسینؓ آج بھی عظیم ترین مقصد کے لیے دی گئی لازوال قربانی کی بہ دولت ہر عہد ہر زمانے پر راج کررہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔