قرآن کا دعوتی اسلوب

رفیع الزمان زبیری  اتوار 30 اگست 2020

عبدالحسیب خاں کی کتاب ’’قرآن کا دعوتی اسلوب۔۔۔۔ہدایت، نصیحت، تذکیر‘‘ معاشرے کی تباہ حالی کو بنیاد بنا کر اللہ تعالیٰ کے ان احکام کا احاطہ کرنے کی ایک ایسی کوشش ہے جس پر عمل پیرا ہو کر ایک ستھرا، پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔حسیب خاں لکھتے ہیں ’’میری اسی سالہ زندگی ’جہد مسلسل‘ سے عبارت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز پر بڑا فضل و کرم کیا، جوانی سے لے کر آج تک سیکھنے کے عمل سے گزرتا رہا۔ بڑے بڑے جید علما کرام کی نشستوں میں حاضری، کاروبار، تعلیم اور صحت کے شعبوں سے وابستگی رہی۔ پارلیمنٹ میں چھ سال اور کاروباری تنظیموں سے خاص تعلق کی بنیاد پر تجربات اور آغاز ہی سے میں اس قابل ہو سکا کہ آج اپنی کم علمی کے باوجود اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغام کے منتخب مضامین کے مفہوم کو بیان کر سکوں۔‘‘

حسیب خاں لکھتے ہیں ’’میں سمجھتا ہوں قرآن کریم کے کئی پہلو ہیں۔ ان میں اہم ترین دو ہیں، ایک علمی مطالعہ اور دوسرا تذکیر، نصیحت اور ہدایت۔ حالات حاضرہ کے پیش نظر میں قرآن کریم کے ان احکام کو قلم بند کر رہا ہوں جن کا تعلق ہدایت، نصیحت اور تذکیر سے ہے، انسان سازی سے ہے، اخلاقی اقدار کی پاسداری سے ہے اور جس کو سادہ اسلوب میں بیان کیا گیا ہے تاکہ عام فہم انسان اس کو سمجھ سکے۔

قرآن کریم میں بھی بنیادی احکام کو بھی بار بار اس لیے دہرایا گیا ہے کہ یہ احکام الٰہی انسان کے دل میں اتر جائیں اور اس کی روح کا حصہ بن جائیں۔ قرآن کریم کے نزدیک حقیقی ایمان وہ ہے جو روح میں اتر جائے۔ قرآن کریم اس لیے اتارا گیا ہے کہ اللہ انسان کے اندر زندہ عمل دیکھنا چاہتا ہے نہ کہ ظاہری۔ قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ اگلی زندگی میں برے انجام سے بچنے کے لیے موجودہ زندگی کیسے گزاری جائے۔ سورۃ القمر میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے تو کیا کوئی ہے نصیحت حاصل کرنے والا؟

عبدالحسیب خاں لکھتے ہیں ’’مسلمانوں کی موجودہ اخلاقی پستی اور کردار کی گراوٹ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معبود حقیقی مانتے ہوئے بھی ہم انسان کیوں نہیں بن پا رہے؟ اس مادہ پرست دور میں انسان بہت تیزی سے دوڑ رہا ہے۔ اپنے سامنے آنے والی ہر چیز کو رشتوں کو اور ان کے تقدس کو پامال کرتا ہوا آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ رشتوں کا احترام ختم ہو گیا ہے اور رشتے بکھر گئے ہیں۔ قرابت داروں اور دوستوں کے ساتھ ہمارے رویے بہت تکلیف دہ ہوگئے ہیں۔ نفرتیں اور انتقامی جذبات بڑھتے جا رہے ہیں۔

ہم غیر اہم باتوں پر بھی شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں مستقلاً ذہنی دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔ اگر ہم آنکھوں سے نفرتوں کی پٹی اتار دیں تو ہر چیز صاف نظر آنے لگے۔ بحیثیت معاشرہ ہم انتہائی گراوٹ کا شکار ہیں۔ جھوٹ، دھوکا دہی، خیانت، وعدہ خلافی، غصہ، نفرت، حقارت، بد زبانی، حسد، تعصب، جہالت، ملاوٹ، رشوت، ڈاکہ زنی، لوٹ مار، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری یہ سب وہ ناسور ہیں جس نے انسان کی زندگی کو جانوروں کی سطح سے بھی نیچے گرا دیا ہے۔‘‘

حسیب خاں کو دکھ ہے کہ اسلام ہمارا دین ہے، ہم مسلمان کہلاتے ہیں لیکن کون سا گناہ ہے جو ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر نہیں کر رہے۔ مذہبی حلقوں کا سارا زور اپنے اپنے مسلکوں کو بڑھانے اور مسلمانوں کو اتنے فرقوں میں بانٹ دینا ہے کہ یہ شناخت بھی مشکل ہو جائے کہ کون مسلمان ہے، کون نہیں۔

وہ لکھتے ہیں ’’قرآن مجید میں جگہ جگہ جہنم اور جنت کا نقشہ کھینچا گیا ہے تاکہ ہدایت اور کفر واضح ہو سکے۔ صرف کلمہ پڑھ لینا اور اللہ تعالیٰ کو اپنا معبود مان لینا کافی نہیں بلکہ آخرت کی زندگی میں کامیابی صرف اسی شخص کے لیے ہوگی جو موجودہ زندگی میں خدا سے ڈر کر زندگی گزارے۔ اللہ تعالیٰ کا مومن بندہ بننے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنا مال اپنی زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے وقف کردے تاکہ اس کے بدلے اسے جنت عطا کی جائے۔ اسی کو سپردگی کہتے ہیں۔

قرآن پاک میں سورۃ المعارج میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایمان والے وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت (پابندی) کرتے ہیں، اپنا مال خرچ کرتے ہیں، آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جو اللہ کے عذاب سے ڈرتے ہیں، جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، جو امانت اور عہد کو نبھاتے ہیں اور اپنی گواہی پر قائم رہتے ہیں، یہی لوگ جنتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکمل اختیار دیا ہے، اچھے برے کی تمیز دی ہے۔ اس اختیاری صلاحیت کے ہوتے ہوئے روزمرہ کے کاموں میں نیت اور عمل کی بنیاد پر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔‘‘

عبدالحسیب خاں نے اپنی کتاب میں قرآن کریم کی ایک سو چودہ سورتوں میں سے تریسٹھ سورتوں کو منتخب کیا ہے اور پھر ہر سورۃ کی کچھ آیتوں کو منتخب کر کے ان آیتوں کا ترجمہ دیا ہے۔ ترجمہ کے بعد تعلیقات کے عنوان کے تحت آیتوں کی مناسبت سے کہیں احادیث و آثار ہیں کہیں فوائد ہیں، کہیں خلاصہ مفہوم ہے۔ کہیں احکام و مسائل ہیں اور کہیں رشد و ہدایت کی باتیں ہیں اور کہیں دعوت و نصیحت کا تذکرہ ہے اور یوں خطیب قاری اللہ داد کے بقول یہ ایک خوبصورت کتاب بن گئی ہے۔

ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کتاب کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ حسیب خاں خود احتسابی کے عمل سے گزرتے رہے ہیں۔ یہ خود احتسابی شخصی بھی رہی ہے اور اجتماعی بھی۔ بالخصوص بحیثیت مسلمان اور صاحب ایمان ہوتے ہوئے ہمارا حال سماجی، معاشی اور معاشرتی طور پر ہوگیا ہے حسیب خاں نے اس پر دکھ، ناخوشی اور تشویش کا اظہار کیا ہے اور یہ غالباً اس بات کا محرک بن گیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کے فضل و کرم سے یہ کتاب مرتب کر سکیں۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خاں ’’قرآن کریم کا دعوتی اسلوب‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ کتاب حسیب خاں کی اپنے دین سے والہانہ محبت کی عکاس ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ اے مسلمانو! اللہ اور اس کے رسولؐ کے احکامات اور ہدایات پر عمل کرو ورنہ تمہاری بڑی سخت گرفت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔