عرب حکمران آزاد ریاست ِفلسطین بنا پائیں گے؟

سید عاصم محمود  اتوار 30 اگست 2020
بدترین مظالم کا شکار لاکھوں فلسطینی معصوم بچوں،عورتوں ،بوڑھوں اور مردوں کی  نگاہیں مسلم حکمرانوں کی راہ تک رہی ہیں  فوٹو : فائل

بدترین مظالم کا شکار لاکھوں فلسطینی معصوم بچوں،عورتوں ،بوڑھوں اور مردوں کی نگاہیں مسلم حکمرانوں کی راہ تک رہی ہیں فوٹو : فائل

یہ 6 اکتوبر 1973ء کی بات ہے، دوپہر دو بجے مصر اور شام کی افواج نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔ دونوں عرب ممالک اسرائیلی فوج کو شکست دینے کے متمنی تھے جسے امریکا نے جدید ترین اسلحے سے لیس کررکھا تھا۔

تین دن تک زبردست لڑائی ہوتی رہی۔ تب یہ لگنے لگا کہ عرب افواج اسرائیلی عساکر کو شکست دے دیں گی۔اس انقلاب انگیز صورتحال سے اسرائیل کے سب سے بڑے سرپرست، امریکا کے حکومتی ایوانوں میں کھلبلی مچ گئی۔ وہاں ایک یہودی وزیر خارجہ، ہنری کسنجر تعینات تھا۔ امریکی صدر رچرڈ نکسن بھی یہود کے بڑے حمایتی تھے۔

چناں چہ امریکی حکومت نے گھیرے میں آئی اسرائیلی فوج کو سہارا دینے کے لیے دس اکتوبر سے ’’آپریشن نکل گراس‘‘ (Operation Nickel Grass )کا آغاز کردیا۔ دیوہیکل امریکی اور اسرائیلی ہوائی جہاز امریکا سے ٹینک، توپیں، میزائل اور دیگر اسلحہ لیے اسرائیل پہنچنے لگے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد یہ ایک ملک سے دوسرے ملک بھاری اسلحہ پہنچانے والا سب سے بڑا فوجی آپریشن تھا۔

تیل کا ہتھیار

دوران جنگ سعودی عرب کے شاہ فیصل نے امریکا کو خبردار کیا تھا کہ وہ اسرائیل کو اسلحہ دینے سے باز رہے تاکہ مقابلہ فریقین کے مابین مبنی بر انصاف ہو سکے۔ ظاہر ہے، اسرائیلی فوج کو مزید امریکی اسلحہ ملتا تو اس کا پلہ بھاری ہوجاتا اور ایسا ہی ہوا۔ جدید ترین امریکی اسلحہ ملتے ہی اسرائیلی فوج نے نہ صرف مصری و شامی افواج کے حملے پسپا کیے بلکہ ان کے علاقوں کی طرف پیش قدمی شروع کردی۔

دس اکتوبر ہی کو شاہ فیصل، متحدہ عرب امارات کے صدر شخ زید بن سلطان النیہان اور امیر کویت شیخ صباح کے مابین گفت و شنید ہوئی تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل طے ہوسکے۔ امارات کو وجود میں آئے صرف دو برس ہوئے تھے مگر اس نوزائیدہ مملکت کے سربراہ تجربے کار، مدبر اور داعی اتحاد اسلامی تھے۔ انہوں نے شاہ فیصل پر زور دیا کہ امریکا و برطانیہ کو تیل کی فراہمی روک دی جائے۔ اس موقع پر انہوں نے ایک جملہ کہا جو بہت مشہور ہوا ’’عرب خون عرب تیل سے زیادہ قیمتی ہے۔‘‘

مذاکرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے دن عرب اوپیک ممالک نے امریکا، برطانیہ، جاپان، ہالینڈ اور کینیڈا کو تیل کی فروخت روک دی۔ اس پابندی کے خاطر خواہ اثرات مرتب ہوئے جب امریکا و برطانیہ میں تیل کی فی بیرل قیمت 3 سے بڑھ کر 12 ڈالر جاپہنچی۔ یہود کے پشت پناہ دونوں ممالک میں تیل کی شدید قلت نے جنم لیا اور وہاں اس کی راشن بندی شروع ہوگئی۔ تیل کی کمی نے امریکی و برطانوی روزمرہ زندگی تلپٹ کرکے رکھ دی۔حتی کی امریکی کاروں سے تیل چوری کرنے لگے۔

تیل کا ہتھیار مگر اسرائیلی فوج کو شکست دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ وافر امریکی اسلحہ ملنے سے اسرائیلی افواج نے عربوں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ بعدازاں ڈالروں کی کشش و چمک مصری صدر، انورا لسادات کو امریکا و اسرائیل کے کیمپ میں لے گئی۔بظاہر ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے امن کو جنگ پہ ترجیح دی۔ مسلمانان عالم نے اس یوٹرن کو غداری سے تعبیر کیا۔ آخر 1981ء میں انہی کے فوجیوں نے انورا لسادات کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔

1973ء کی حرب اکتوبر میں تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرکے مگر عرب ممالک نے اپنی اہمیت و قوت بھی عیاں کردی۔ اس اقدام سے شاہ فیصل اور شیخ زاید خصوصاً عالم اسلام میں ایسے اسلامی حکمران بن کر ابھرے جو عالمی طاقتوں کی سازشوں کا دلیری و استقامت سے مقابلہ کرسکتے تھے۔ اگرچہ شاہ فیصل کو طاقتور مغربی استعمار کے خلاف کھڑا ہونے کی بھاری قیمت چکانا پڑی جب پُراسرار انداز میں انہیں شہید کردیا گیا۔شاہ فیصل اور شیخ زاید نے جنگ اکتوبر 1973ء میں تیل کے ہتھیار سے امریکی و برطانوی تیل کمپنیوں کی اجارہ داری بھی توڑ ڈالی۔

یہ مغربی کمپنیاں ’’سات بہنیں‘‘ کہلاتی تھیں۔ جوڑ توڑ اور اندرونی گٹھ جوڑ سے تیل کی عالمی قیمت طے کرنا ان کا وتیرہ تھا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ آمدن کماسکیں۔ جبکہ عرب ملکوں سمیت تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک کو تیل کی خاطر خواہ قیمت نہ ملتی۔ شاہ فیصل، شیخ زاید اور امیر کویت کے جری اقدام سے مگر قیمت طے کرنے کا کنٹرول عرب اوپیک ممالک کو مل گیا اور یوں امریکی و مغربی تیل کمپنیوں کی مونوپلی کا دور اپنے انجام کو پہنچا۔

بدلتے حالات

آج کل شیخ زاید کے ایک بیٹے، شیخ خلیفہ متحدہ عرب امارات کے صدر اوردوسرے فرزند، محمد بن زاید نائب صدر ہیں مگر حالات کافی بدل چکے۔ 3اگست کو خبر آئی کہ اسپین کے سابق بادشاہ‘ جو آن کار لوس نے متحدہ عرب امارات میں پناہ لے لی۔ موصوف پر سرکاری معاہدوں میں کمیشن لینے اور بیٹی کے شوہر کی کرپشن سے آنکھیں بند کر لینے کا الزام ہے۔ یہ خبر پڑھ کر تعجب ہوا۔ ترقی پذیر ممالک کے حکمران قومی خزانہ لوٹ کر لندن‘ نیویارک اور میڈرڈ فرار ہو جاتے ہیں۔ پہلی بار سنا کہ کسی مغربی ملک کے سابق حکمران نے مشرقی مملکت میں پناہ لی۔

لگتا ہے‘ متحدہ عرب امارات کرپٹ مغربی حکمرانوں کے لیے پسندیدہ مقام بن رہا ہے۔13اگست کو دوسری دھماکہ خیز خبر ملی کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے سفارتی تعلقات قائم کر لیے ۔ اماراتی حکومت کے مطابق ’’اُس نے اسرائیل سے امن معاہدہ اِس لیے کیا تاکہ اسرائیلی حکومت مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر روک دے۔

اب آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی خاطر اہل فلسطین اور اسرائیل کو گفت و شنید کرنی چاہیے۔‘‘مصر اور اردن کے بعد امارات اسرائیل سے سفارتی ‘ معاشی اور سیاسی تعلقات قائم کرنے والا تیسرا عرب اور پہلا خلیجی ملک ہے۔ ظاہر ہے، اماراتی حکومت نے یہ ہنگامہ خیز قدم اٹھانے سے قبل دیگر عرب ممالک مثلاً سعودیہ‘ مصر‘ مراکش‘ الجزائر وغیرہ سے بھی صلاح مشورے کیے ہوں گے۔

بھاری ذمے داری کا بوجھ

شنید ہے کہ مستقبل میں بحرین‘ عمان‘ مراکش ‘ تیونس ‘ الجزائر اور موریطانیہ بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔مشرق وسطی کے بعض ماہرین اس فہرست میں سعودی عرب کو بھی شامل کرتے ہیں مگر فی الحال اُس نے فلسطینی مسئلہ حل ہونے تک اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔بہرحال انقلابی پیش رفت سے عیاں ہے کہ عرب حکمرانوں نے آزاد ریاست فلسطین کے قیام کی ذمہ داری اب براہ راست اپنے کاندھوں پراٹھا لی ہے۔ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی بنیادی دلیل یہی دی گئی کہ ریاست فلسطین کے قیام کی راہ ہموار ہو سکے۔

گو یا اب عرب حکمرانوں پر اس بھاری ذمے داری کا بوجھ آن پڑا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت سے گفت و شنید کر کے آزاد فلسطینی مملکت کا قیام عمل میں لے آئیں۔ کیا وہ اس فرض سے بہ احسن و خوبی عہد ہ برآں ہو سکیں گے؟اب پوری دنیا میں پھیلے کروڑوں مسلمانوں خصوصاً اسرائیلی حکمران طبقے کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ایک کروڑ تیس لاکھ فلسطینی عربوں کی نگاہیں عرب حکمرانوں پر جم گئی ہیں۔ کیا یہ حکمران پچھلے بہتر برس سے اسرائیلی حکومت کے پنجہ استبداد میں پھنسے اپنے عرب بھائیوں ‘ بہنوں اور بچوں کو آزاد کرا سکیں گے؟

اسرائیل کے مخالف مسلمانوں کی نظر میں اسرائیلی حکومت سے معاہدہ دوستی کر کے امارتی حکمرانوں نے امت مسلمہ کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا۔ ان کے نزدیک مالی مفادات پانے کی خاطر جنم لینے والے اس اقدام سے اتحاد اسلامیہ کو نقصان پہنچا اور اسلامی ممالک تقسیم ہو گئے۔

حکومت متحدہ عرب امارات کا کہنا ہے کہ اپنے سیاسی و معاشی مفادات مد نظر رکھ کر اسرائیل سے تعلقات استوار کیے گئے۔نیز اس معاہدے سے خطے میں امن و امان لانے میں مدد ملے گی۔امارات اور اسرائیل کے مابین معاہدہ دوستی کرانے میں امریکی صدر ٹرمپ کے داماد اور مشیر خصوصی‘ جیراڈ کشنر نے اہم کردار ادا کیا جو ٹیکس چوری میں جیل کی ہوا کھانے والے ایک امریکی یہودی رئیل اسٹیٹ ڈویلپر کا فرزند ہے۔

اسی نے جنوری2020ء میں مسئلہ فلسطین حل کرنے کی خاطر ’’ٹرمپ پلان‘‘ پیش کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت امریکی واسرائیلی حکمران ایسی فلسطینی ریاست بنانا چاہتے ہیں جو ہر لحاظ سے اسرائیل کے رحم وکرم پر ہو گی۔ نیز مشرقی بیت المقدس اس کا دارالحکومت قرار نہیں پایا بلکہ شہر سے باہر ایک جگہ متعین کر دی گئی۔ اہل فلسطین کو ایسی کمزور اور ٹوٹی پھوٹی آزاد ریاست درکار نہیں‘ اسی لیے انہوں نے ’’ٹرمپ پیس پلان‘‘ مسترد کر دیا۔

عرب حکمرانوں کے قول وفعل سے عیاں ہے‘ وہ امریکی حکمران طبقے پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ امریکا اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالے گا تاکہ وہ اہل فلسطین سے بات چیت شروع کرے اور یوں فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آ سکے۔

اسرائیل اور امریکا سے قربت بڑھانے والی عرب حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ اس طور پہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہوگا۔ دعا ہے کہ ان کی امید پوری ہو اور وہ خوش فہمی میں نہ بدل جائے۔ دراصل پچھلے ایک سو برس کے دوران امریکی و اسرائیلی قیادت کا رویّہ اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کبھی منافقانہ تو کبھی معاندانہ رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے  کہ عرب حکمرانوں کے نرم پڑتے رویے سے کیا اسرائیل اور امریکا کے حکمران طبقے بھی اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لے آئیں گے؟

مشرقی یروشلم کا قید خانہ

بدلتی صورتحال میں تاریخ کے جھروکوں میں نظرڈالنا ہمارے لیے فکر کے نئے در وا کرسکتا ہے۔ 1900ء میں فلسطین میں مسلمانوں کی آبادی ’’80 فیصد‘‘ تھی۔ اور یہود آبادی کا صرف ’’1‘‘ فیصد تھے۔  اس کے بعد امیر کبیر یہودیوں نے مسلمانوں سے زمینیں خرید کر وسیع علاقے پر قبضہ جمالیا۔ ان یہودی آبادکاروں کی دہشت گرد تنظیمیں بھی مدنظر رکھیے جن کے سرپرست برطانیہ و امریکا کی حکومتیں تھیں۔  1948ء میں اپنے قیام کے بعد عربوں سے جنگیں کرنا اسرائیل کا معمول بن چکا۔ اسرائیلی حکومت تب سے بین الاقوامی قوانین، اخلاقیات اور انسانی حقوق پیروں تلے پامال کرتی چلی آرہی ہے۔

1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے پر قبضہ کرلیا۔ جلد ہی حیلے بہانوں سے فلسطینی عربوں کو ان کی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کیا جانے لگا۔ یہ ظلم کرنے کی خاطر اسرائیلی حکومت نے باقاعدہ قوانین بنائے۔ جب یہ انسان دشمن قوانین اسرائیل عدالتوں میں چیلنج کیے گئے تو انہوں نے ان کو بحال رکھ کر دن دیہاڑے عدل و انصاف کا خون کر ڈالا۔ غرض اسرائیل میں پوری سرکاری مشینری فلسطینی عرب مسلمانوں کا استحصال کرنے لگی۔

اسرائیلی حکومت نے مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے میں آباد مسلمانوں پر ٹیکسوں کی بھرمار کردی جبکہ ان علاقوں میں بسنے والے یہود کو ٹیکسوں سے چھوٹ دی گئی۔ ان علاقوں میں یہود کو آٹھ منزلہ عمارتیں بنانے کی اجازت مل گئی۔

مسلمان مگر دو منزلوں سے زیادہ نہیں بناسکتے۔ یہی وجہ ہے، خصوصاً مشرقی بیت المقدس میں مسلمانوں کے محلے بہت تنگ ہوچکے۔ ہسپتالوں اور اسکولوں کے لیے اتنی جگہ نہیں کہ وہ وسعت پذیر ہوسکیں۔ ان علاقوں میں کوڑے کے ڈھیر جابجا دکھائی دیتے ہیں۔ سڑکیں بھی ٹوٹی پھوٹی ہیں کیونکہ اسرائیلی حکومت مسلمانوں کے علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں کراتی۔ وہ دانستہ ان کے محلوں کو قید خانے میں تبدیل کردینا چاہتی ہے۔

’’بتسلیم‘‘(B’Tselem) بیت المقدس کی ایک این جی او ہے جسے سیکولر یہودی چلارہے ہیں۔ یہ تنظیم مسلمانوں کے علاقوں میں سماجی خدمت انجام دیتی ہے۔ تنظیم کے رہنما بتاتے ہیں ’’مشرقی بیت المقدس میں آباد مسلمان اپنی زندگیوں پر کوئی کنٹرول نہیں رکھتے۔

حکومت نے ان کی نقل و حمل پر سخت پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ صرف ایڈوانس نوٹس دے کر ہی کوئی مسلمان باہر نکل سکتا ہے۔ حکومت جب چاہے انہیں مملکت سے بے دخل کرسکتی ہے۔ انہیں گھر عمارت بنانے کے لیے پرمٹ نہایت مشکل سے ملتے ہیں۔ جگہ جگہ دیواریں بناکر مسلم محلوں کو مغربی بیت المقدس سے کاٹ دیا گیا ہے۔

روزانہ لاکھوں فلسطینی عربوں کو علاج کرانے یا محض دوستوں سے ملنے کی خاطر سینکڑوں چیک پوسٹوں پر سے جانچ پڑتال کے توہین آمیز سلوک سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان مسلمانوں میں غربت اور بیروزگاری عام ہے۔‘‘

اسرائیل نے دیواریں اور چیک پوسٹیں بناکر مشرقی بیت المقدس کے مسلمانوں کو مغربی کنارے میں آباد بھائیوں سے تجارت و کاروبار کرنے سے روک دیا۔ یہ عرب مسلمان کوئی سیاسی جماعت نہیں بناسکتے۔ حتیٰ کہ اسرائیلی پولیس بھی صرف کسی کو گرفتار کرنے ہی مسلم محلوں میں داخل ہوتی ہے۔ اس باعث مسلم آبادیاں الگ تھلگ محلوں میں بدل چکی جہاں غربت اور بیروزگاری کے سبب جرائم پل بڑھ رہے ہیں۔زمینیں خرید کر علاقے پر قبضہ کرنا یہود کی پسندیدہ پالیسی ہے۔

مشرقی بیت المقدس میں اس پالیسی پر زور و شور سے عمل جاری ہے۔ جو فلسطینی عرب اپنا گھر یا زمین فروخت نہ کرے، اسے مختلف طریقوں سے تنگ کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جائیداد بیچنے پر مجبور ہوجائے۔ اسرائیلی حکومت کی آشیرباد سے یہود مشرقی بیت المقدس میں اپنے گھر، دکانیں اور دفاتر تعمیر کررہے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں یہود کی آبادی زیادہ سے زیادہ بڑھے اور یہ امکان ہی نہ رہے کہ علاقہ آزاد فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بن جائے گا۔

2009ء سے موجودہ اسرائیلی وزیراعظم، بنجمن نیتن یاہو نے یہ سرکاری پالیسی اختیار کررکھی ہے کہ مشرقی بیت المقدس میں مقیم مسلمانوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کیے جائیں۔ لیکن جواب میں وفاقی و ریاستی حکومتیں حتیٰ کہ بلدیہ تک وہاں بہت کم ترقیاتی کام کراتی ہے۔ اس ظلم کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان تنگ آکر مشرقی بیت المقدس سے چلے جائیں۔ لیکن وہ ریاستی ظلم و تشدد بڑی بہادری سے برداشت کررہے ہیں۔ واضح رہے، مشرقی بیت المقدس میں تقریباً پونے چھ لاکھ افراد آباد ہیں۔ ان میں سے 62 فیصد مسلمان اور 38 فیصد یہودی ہیں۔ اسرائیلی حکومت مشرقی بیت المقدس میں بھی اپنی سرپرستی میں یہودی بستیاں تعمیر کروارہی ہے۔

مغربی کنارے میں مارشل لا

مغربی کنارے کے علاقے میں بھی جابجا یہودی بستیوں کا جال بچھ چکا۔ ان کی تعداد ایک سو بتیس ہے۔ نیز 124 چھوٹی بستیوں میں بھی یہودی بستے ہیں۔ مغربی کنارے میں چار لاکھ تیس ہزار یہودی آباد ہوچکے۔ سوال یہ ہے کہ ان کی موجودگی میں کیا مغربی کنارا مستقبل کی آزاد فلسطین ریاست کا حصہ بن سکتا ہے؟ یہ عیاں ہے، اسرائیلی حکومت مغربی کنارے سے زیادہ یہود بسا کر ریاست فلسطین میں اس کی شمولیت مشکل تر بنانا چاہتی ہے۔

1967ء سے مغربی کنارے کی اصل حکمران اسرائیلی فوج ہے۔ اس علاقے کے حقیقی حاکم اسرائیلی جرنیل ہیں۔ یہی وجہ ہے، علاقے میں آباد مسلمانوں پر تو مارشل لاء نافذ ہے۔ مگر یہودی آبادکاروں پر جمہوری قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ مارشل لاء سے فائدہ اٹھا کر اسرائیلی حکومت پچھلے تریپن سال سے مختلف طریقوں کے ذریعے مغربی کنارے میں آباد مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھارہی ہے۔

بتسلم کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج اس دوران فلسطینی مسلمانوں کی کم از کم 60 فیصد رہائشی اور زرعی زمین چھین کر اپنے قبضے میں لے چکی۔ رہائشی زمینوں پر تو یہودی بستیوں کی تعمیر جاری ہے۔ زرعی زمینوں کو پارکوں یا فارموں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ بستیوں کے آبادکاروں کو اسلحہ رکھنے اور مسلمانوں پر گولی چلانے کی اجازت ہے۔ ماہرین کے مطابق اسرائیلی حکومت اپنی سکیورٹی فورسز کی مدد سے درج ذیل بنیادی طریقوں سے مغربی کنارے کو کنٹرول کررہی ہے:

(1) یہودی بستیوں کی تعمیر (2) مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا اور بائی پاس سڑکیں بنانا (3) ایسے اقدامات کرنا کہ مقامی معیشت صرف اسرائیلی معیشت کے سہارے ہی پھل پھول سکے۔ (4) دوہرے قوانین کا نفاذ۔ آبادکاروں اور فلسطینی مسلمانوں کے لیے قانون الگ ہے۔

مسلمانوں پر نہایت سخت قوانین نافذ ہیں۔ (5) مقامی آبادی میں سے غدار ڈھونڈ کر انہیں اپنا ایجنٹ بنانا تاکہ وہ متحرک فلسطینیوں کی رپورٹ اسرائیلی فوج کو دے سکیں۔ (6) پرمٹ سسٹم جس کے ذریعے مسلمانوں پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔ (7) معمولی جرائم پر اہل فلسطین کو قید کردینا۔ (8) اسرائیل کے خلاف سرگرم فلسطینیوں کو نکال باہر کرنا (9) مسلمانوں کے مکان اور دکانیں گرا دینا اور (10) فلسطینیوں پر اپنا خوف بیھٹانے کے لیے انہیں تشدد کا نشانہ بنانا۔

1967ء سے اسرائیلی فوج پچاس سے زائد پرمٹ جاری کرچکی تاکہ اہل فلسطین کی زندگیوں کو کنٹرول کیا جاسکے۔ مثال کے طور پر کسی فلسطینی نے درخت لگانا ہے تو اسے پہلے اسرائیلی فوج سے پرمٹ لینا ہوگا۔ کسی نے کتاب، پوسٹر، تصویر وغیرہ بیرون ممالک سے منگوانی ہے تو پہلے وہ پرمٹ لے گا۔ ہر کام کے لیے پرمٹ لینے کی قدغن لگا کر اسرائیلی فوج نے فلسطینی عوام کی جان عذاب میں ڈال دی۔ جب فلسطینیوں نے پرمٹ سسٹم کے خلاف شدید احتجاج کیا، تو 1993ء کے بعد اس ظالمانہ اور ’’اپارتھیڈ‘‘ سسٹم میں کچھ نرمی لائی گئی۔

امریکی حکومت کے ’’کارنامے‘‘

ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری 2017ء میں اقتدار سنبھالا تھا۔ دسمبر 2020ء میں اسے دنیا کی اکلوتی سپرپاور میں حکومت کرتے پانچ سال ہوجائیں گے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں ٹرمپ حکومت نے مذہب اسلام، مسلمانوں اور اہل فلسطین کے ساتھ کس قسم کا سلوک کیا۔

21 اکتوبر 2015ء

امریکی ٹیلی ویژن پرورگام ’’فوکس بزنس‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے صدارتی الیکشن کے امیدوار صنعت کار اور سرمایہ کار ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا ’’اگر میں (امریکی) صدر بن گیا تو یقیناً اس بات کا جائزہ لوں گا کہ کیا امریکا میں مساجد بند کردی جائیں۔

20 نومبر 2015ء

یاہو اور این بی سی نیوز چینل میں گفتگو کرتے ہوئے مسٹر ٹرمپ نے کہا ’’اگر میں حکومت میں آیا تو امریکا میں آباد تمام مسلمانوں کا ڈیٹا بیس بنانے پر غور کروں گا۔

7 دسمبر 2015ء

جنوبی کیرولینا میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کا امریکہ میں داخلہ بند کردیا جائے۔ ہم بعد میں دیکھیں گے کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔‘‘

9 مارچ 2016ء

سی این این پر ہی ایک مذاکرے کے دوران مسٹر ٹرمپ نے دعویٰ کیا ’’میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان ہم (امریکیوں) سے نفرت کرتے ہیں۔ ان کی نفرت بہت شدید ہے۔‘‘

15 دسمبر 2016ء

باقاعدہ صدر بننے سے قبل ہی ٹرمپ نے اعلان کر دیا کہ وہ ڈیوڈ فریڈمان کو اسرائیل میں امریکا کا سفیر مقرر کریں گے۔ ڈیوڈ فریڈمان انتہا پسند یہودی ہے۔ مغربی کنارے میں غیر قانونی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی خاطر یہودی تنظیموں کو بھاری امداد دیتا ہے۔1967ء سے امریکی حکومت کا قانونی طور پر یہ استدلال ہے کہ مغربی کنارے میں تعمیر شدہ یہودی بستیاں ناجائز ہیں۔ مگر ڈیوڈ فریڈمان کے تقرر سے صدر ٹرمپ نے امریکی حکومت کا یہ استدلال ختم کردیا۔

27 جنوری 2017ء

صدر بننے کے تین ہفتے بعد ٹرمپ نے ایک حکم نامے کے ذریعے سات اسلامی ممالک (سوڈان، صومالیہ، یمن، ایران، عراق، شام اور لیبیا) کے باشندوں کو امریکا میں داخلے سے روک دیا۔ ان میں سے چھ ممالک عرب تھے۔ اس حکم کی وجہ سے ہزارہا عرب مسلمان ہوائی اڈوں پر پھنس کر رہ گئے اور وہاں افراتفری نے جنم دیا۔ صدر ٹرمپ نے اس حکم کو اپنی تقریر میں ’’مسلم پابندی‘‘ (Muslim ban) کہہ کر پکارا۔ سرکاری طور پر حکم نامے کا نام یہ ہے: ’’قوم کو بچانے کے لیے دہشت گردوں کو امریکا میں داخلے سے روکنا۔‘‘

6 مارچ 2017ء

امریکا میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے صدارتی حکم نامے کے خاف عدالتوں سے رجوع کیا تھا۔ عدالتوں نے اس کی شقوں پر پابندی لگادی۔ چناں چہ ٹرمپ نے نیا حکم نامہ جاری کیا۔ اس میں عراقی باشندوں کی آمد سے پابندی ہٹالی گئی۔

29 اپریل 2017ء

صدارتی دفتر میں سو دن پورے ہونے پر ٹرمپ نے ایک تقریب سے خطاب کیا۔ اس میں انہوں نے مسلمانوں کو ’’سانپ‘‘ سے تشبیہ دی۔صدر ٹرمپ نے حکومت سنبھالتے ہی ایسی شخصیات کو وزیر و مشیر مقرر کردیا جو اسلام اور مسلم مخالف تھے۔ مثلاً سباتین گورکا کو اپنا نائب بنایا۔ موصوف کے نزدیک اسلام تشدد پر ابھارنے والا مذہب ہے۔ سابق جنرل، مائیکل فلاین مشیر قومی سلامتی بن بیٹھا۔ یہ اپنی تقریروں میں اسلام کو ’’کینسر‘‘ کہہ چکا تھا۔ اسی طرح ٹرمپ انتظامیہ کے دیگر اعلیٰ عہدے دار مثلاً مائیک پومپیو اور جان بولٹن اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا کرتے ہیں۔

6 دسمبر 2017ء

صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کردیا۔ اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کے بیشتر ممالک یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک یہ اسرائیل اور اہل فلسطین کے مابین متنازع شہر ہے۔ مگر صدر ٹرمپ نے امریکا کی پوزیشن تبدیل کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیا۔ اسرائیل نے 1980ء میں شہر کو پنا دارالحکومت بنانے کا اعلان کیا تھا۔

31 اگست2018

امریکا اقوام متحدہ کے ادارے، کو سالانہ ایک سو پچیس ملین ڈالر امداد دیتا تھا تاکہ وہ پچاس لاکھ فلسطینی مہاجریں کی خوراک اور دیگر روزمر ہ ضروریارت کا بندوبست کر سکیں۔ٹرمپ حکومت نے اس ادارے کی ساری امداد روک لی ۔امریکی حکمرانوں نے موقف یہ اختیار کیا کہ فلسطینی ہم سے امن بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔

10ستمبر2018

امریکا نے واشنگٹن میں پی ایل او کا دفتر بند کر دیا۔اس کے سفیر کو ملک بدر کر دیا گیا۔

25مارچ 2109

ٹرمپ حکومت نے شام کے علاقے،گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کر لیا۔

 18نومبر2109

امریکی وزیر خارجہ،مائک پومپیو نے اعلان کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ اب فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر کو ناجائز اور غیرقانونی نہیں سمجھتی۔

حرف ِآخر

ٹرمپ حکومت کے درج بالا اقدامات سے عیاں ہے کہ وہ یہود اور اسرائیل کی جانب حد سے زیادہ جھکاؤ رکھتی ہے۔اس نے انسانی حقوق اور اخلاقیات کو ملیامیٹ کرتے فلسطینی باشندوں پہ ظلم و ستم کو جائز قرار دے ڈالا۔امریکا اور اسرائیل کا خفیہ کھیل یہ ہے کہ عرب ودیگر اسلامی ملک اہل فلسطین پہ ہوتے مظالم سے منہ پھیر کر ان سے تعلقات قائم کر لیں۔

معاشی مفادات ،ایران کے ایٹم بم کا خوف،ترکی سے ٹکراؤ اور اپنے اقتدار کی حفاظت کے سبب شاید مذید عرب ممالک ان سے ہاتھ ملا لیں۔مگر ماہرین کا کہنا ہے،اس روش سے اسلامی اتحاد اور مسلم بھائی چارے کے نظریات کو ضعف پہنچے گا۔عالم اسلام میں تقسیم مزید گہری ہو گی۔فلسطین اور کشمیر کو پنجہ ِاغیار سے آزاد کرانا مزید کٹھن مرحلہ بنے گا۔نیز اسرائیلی حکمران شیر ہو کر بے یارومددگار فلسطینیوں پہ زیادہ مظالم ڈھانے لگیں گے۔اس موقع پہ حبیب جالب کی یہ درد بھری آواز سنائی دیتی ہے:

ظلم رہے اور امن بھی ہو

کیا ممکن ہے ،تم ہی کہو؟

ہنستی گاتی, روشن وادی

تاریکی میں ڈوب گئی

بیتے دن کی لاش پہ اے دل

میں روتا ہوں تو بھی رولے

ظلم رہے اور امن بھی ہو؟

ہر دھڑکن پر خوف کے پہرے

ہر آنسو پر پابندی !

یہ جیون بھی کیا جیون ہے

آگ لگے اس جیون کو

ظلم رہے اور امن بھی ہو؟

اپنے ہونٹ سیئے ہیں تم نے

میری زباں کو مت روکو

تم کو اگر توفیق نہیں تو

مجھ کو ہی سچ کہنے دو

ظلم رہے اور امن بھی ہو؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔