علامہ اقبال اور ہائیڈل برگ کی ادھوری محبت

منور علی شاہد  جمعرات 3 ستمبر 2020
اقبال نے ہائیڈل برگ قیام کے دوران جرمن قوم کو بہت متاثر کیا تھا۔ (فوٹو: فائل)

اقبال نے ہائیڈل برگ قیام کے دوران جرمن قوم کو بہت متاثر کیا تھا۔ (فوٹو: فائل)

23 اگست کو تیسری بار جرمنی کے دوسرے مہنگے ترین، رومان پرور اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی اتالیق ’’ایما‘‘ کے شہر ہائیڈل برگ جانے کا اتفاق ہوا اور دوپہر تک یادگاروں پر گھومتے ہوئے چشم تصور میں مفکر پاکستان کو دیکھتا رہا۔

شاعر مشرق کی ’’مغرب‘‘ میں اپنی اتالیق سے عشق کی ابتدا دریائے نیکر کے سرسبز و شاداب کنارے کے سحر انگیز اور رومان پرور ماحول میں ہوئی تھی۔ نیلی آنکھوں اور کالے گیسوؤں والی 28 سالہ جرمن دوشیزہ ایما کی محبت گو پروان نہ چڑھ سکی، لیکن یہ نامکمل تعلق اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ گیا تھا۔ ان میں اقبال کے خطوط خاص طور پر قابل ذکر ہیں، جن میں ہمیں وہ اقبال ملتا ہے جو پاکستان میں متعارف کروائے گئے اقبال سے بالکل ہی مختلف ہے۔ ان خطوط میں اقبال نے اپنی ذہنی کیفیت کا کھل کر اظہار کیا تھا اور ایما کےلیے اپنے پرخلوص جذبات بیان کیے تھے۔ بدقسمتی سے دونوں کے بھائیوں نے ’’ظالم سماج‘‘ کا کردار ادا کیا۔ جن کی وجہ سے ’’مشرق و مغرب‘‘ کی محبت پروان نہیں چڑھ سکی۔

مختلف تحریروں میں لکھے ہوئے حالات و واقعات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ خود ایما بھی اقبال سے نہ صرف متاثر تھیں بلکہ ان سے شادی کی خواہاں تھیں۔ لیکن ایما کے بڑے بھائی نے ان کو ہندوستان جانے کی اجازت نہیں دی۔ حالانکہ وہ بالغ اور باشعور سلجھی خاتون تھیں اور اپنے فیصلے میں آزاد تھیں، لیکن پھر بھی خاندان کے فیصلے کو ترجیح دی۔

عظیم مفکر اور شاعر محمد اقبال 1907 میں ہائیڈل برگ میں جس مکان میں قیام پذیر تھے، وہ دریائے نیکر کے کنارے سڑک کی دوسری طرف واقع ہے۔ اقبال اسی گھر سے نکل کر سڑک کی دوسری طرف دریائے نیکر کے کنارے بیٹھا کرتے تھے اور وہیں پر ’’نیلی آنکھوں اور سیاہ بالوں والی 28 سالہ جرمن دوشیزہ ایما‘‘ سے ملاقات ہوئی تھی۔ دریا کا یہ کنارہ اس قدر خوبصورت، رومان پرور اور سحر انگیز ہے کہ گہرے سیاہ بادلوں کے موسم میں ہر جرمن دوشیزہ وہاں جنت کی حور کی مانند ہی لگتی ہے۔ 1907 میں اقبال اس وقت تیس برس کے لگ بھگ تھے اور نہ صرف شادی شدہ بلکہ دو بچوں کے باپ بھی تھے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی اس رہائش گاہ کو شہر کی پارلیمنٹ 1969 میں ایک یادگار ورثہ قرار دے چکی ہے۔ مفکر پاکستان نے انہی رومان پرور کناروں پر بیٹھ کر اک نظم ’’ایک شام‘‘ (دریائے نیکر، ہائیڈل برگ کے کنارے) لکھی تھی، جس کا جرمن زبان میں ترجمہ کرکے اس کو یادگاری کتبے پر لکھ کر وہیں نصب کیا گیا ہے۔ نظم کے اشعار کچھ یوں ہیں:

خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خاموش ہر شجر کی
وادی کی نوا خاموش
کہسار کی سبز پوش خاموش
فطرت بےہوش ہوگئی ہے
آغوش میں شب کے سوگئی ہے
کچھ ایسا سکوت کا فسوں ہے
نیکر کا خرام بھی سکوں ہے
اے دل، تو بھی خاموش ہوجا
آغوش میں غم کو لے کے سوجا

اس دریا کی قریبی سڑک کو اقبال کے نام سے منسوب کرکے اقبال کو خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ یہ اقبال اوفر کے نام سے مشہور ہے۔ دریائے نیکر کے کنارے سے جنم لینے والی مشرق و مغرب کی محبت، اقبال کے خطوط آج جرمن و پاک ادب و کلچر میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اقبال کے ان خطوط کی تعداد 27 بتائی جاتی ہے، جو 1907-1914 اور پھر وفات سے قبل 1931-1933 کے عرصے میں لکھے تھے۔ ان خطوط میں اقبال نے ہائیڈل برگ سے اپنی والہانہ چاہت کا اظہار کیا تھا۔

ایک خط میں اقبال ایما کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’اپنے اس دوست کو مت بھولیے جو آپ کو ہمیشہ اپنے دل میں رکھتا ہے اور جو کبھی آپ کو فراموش نہیں کرسکتا۔ ہائیڈل برگ میں میرا قیام ایک خواب لگتا ہے۔ میں اس خواب کو دہرانا چاہتا ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے؟ آپ خوب جانتی ہیں‘‘۔

اقبال نے 1909 میں لاہور سے ایک خط لکھا جس میں اپنی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں ’’ میرا جسم یہاں ہے لیکن میرے خیالات جرمنی میں ہیں‘‘۔ اقبال کے ان خطوط میں ہمیں اقبال کی بالکل الگ شخصیت ملتی ہے جس کے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ کبھی مفکر پاکستان حکیم الامت بھی بن سکیں گے، ناقابل یقین لگتا ہے۔ انہی خطوط میں اقبال نے اپنی پہلی شادی سے متعلق بھی ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور انتقاماً ملک چھوڑنے یا شراب نوشی کے ذریعے خودکشی کی دھمکی آمیز بات بھی لکھی تھی۔ بی بی سی نے ایک رپورٹ میں ہائیڈل برگ اور اقبال کے ان خطوط پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔

اقبال کے یہ محبت نامے ایک تاریخی ادبی ورثہ ہیں۔ مختلف تحریروں کے مطابق ایما یہ خطوط پاکستان کے آرکائیوز کے سپرد کرنا چاہتی تھیں، جو ممکن نہ ہوسکا اور بالآخر 1970 کے اوائل میں اپنی موت سے پہلے یہ سب خطوط پاکستان جرمن فورم کے حوالے کردیے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ اقبال نے اپنی وفات سے پہلے کے آخری برسوں میں جہاں ایما کو خطوط لکھ کر پرانی محبت کو یاد کیا تھا وہیں گول میز کانفرنس لندن کے موقع پر جرمنی جاکر ان سے ملاقات کی کوشش بھی کی تھی، جو ناکام رہی تھی۔

اقبال کا انتخاب ہائیڈل برگ، جرمنی کا علم و عرفان کا وہ شہر ہے جہاں جرمنی کی سب سے پہلی اور قدیم یونیورسٹی موجود ہے، جو 1386 میں قائم ہوئی تھی۔ اس شہر کا ایک اور عالمی اعزاز یہ ہے کہ اس کے 8 باشندوں کو امن کا عالمی نوبل پرائز بھی مل چکا ہے۔ اقبال نے وہاں قیام کے دوران فلسفہ اور اپنی فکر و سوچ کے علاوہ شاعری سے جرمن قوم کو بہت متاثر کیا تھا۔ ’’اقبال اور ایما‘‘ کی محبت کی ادھوری داستان اب جرمن کلچر کا باقاعدہ حصہ بن چکی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔