امریکی صحافی سے متعلق مطمئن کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو آخری موقع

ویب ڈیسک  منگل 1 ستمبر 2020
 آئندہ سماعت پر سنتھیا ڈی رچی سے متعلق مطمئن نہ کیا گیا تو سیکرٹری داخلہ کو طلب کریں گے، چیف جسٹس ہائی کورٹ۔ فوٹو:فائل

آئندہ سماعت پر سنتھیا ڈی رچی سے متعلق مطمئن نہ کیا گیا تو سیکرٹری داخلہ کو طلب کریں گے، چیف جسٹس ہائی کورٹ۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: ہائی کورٹ نے امریکی صحافی سنتھیا ڈی رچی سے متعلق مطمئن کرنے کے لیے وزارت داخلہ کو آخری موقع دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے امریکی صحافی سنتھیا ڈی رچی ڈی پورٹ کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا  جس میں وزارت داخلہ کو  سنتھیا ڈی رچی سے متعلق مطمئن کرنے کے لیے آخری موقع دیا گیا ہے۔

یہ پڑھیں: امریکی صحافی کا پی پی قیادت کو 250 ارب روپے کا نوٹس

چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے تحریری حکم نامے میں ریمارکس دیئے ہیں کہ سیکریٹری داخلہ کی جانب سے جاری آرڈر سنتھیا کو ماضی میں خلاف قانون ورک ویزا جاری کرنے کا اعتراف ہے، سیکریٹری وزارت داخلہ کے فیصلے نے سنجیدہ نوعیت کے سوالات کھڑے کر دیے ہیں، وزارت داخلہ ویزا پالیسی سے لاعلم ہے یا انہوں نے حالیہ کیس میں ان کو نظرانداز کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی صحافی کی رحمن ملک کیخلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست

تحریری حکم نامے میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قوانین اور پالیسیوں کو لازم طور پر تمام کیسز پر بلاتضاد اور شفاف طریقے سے لاگو کیا جانا چاہیے، سیکریٹری داخلہ کا حالیہ فیصلہ سابقہ فیصلے سے بھی متضاد ہے، سیکریٹری داخلہ نے صرف سنتھیا رچی کے بیان پر انحصار کیا اور کسی قانون کا حوالہ نہیں دیا، جب کہ وزارت داخلہ کے عدالت میں پیش نمائندہ سیکریٹری داخلہ کے فیصلے پر عدالتی سوالات کے جوابات نہ دے سکے۔

اسی سے متعلق: ایف آئی اے کی امریکی صحافی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی مخالفت

حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ نمائندہ وزارت داخلہ سے پوچھا گیا کہ سینتھیا نے وزیراعظم یا کسی ادارے کے خلاف سیاسی بیان دیا ہوتا تو کیا ہوتا؟ وزارت داخلہ کے نمائندے نے کہا کہ ایسے بیانات دینے والے کو حراست میں لے کر ڈی پورٹ کر دیا جاتا۔

عدالت نے کہا کہ  نمائندہ وزارت داخلہ جواب دینے سے قاصر رہے کہ درخواست گزار کا معاملہ اس سے کیسے مختلف ہے، آئندہ سماعت پر سنتھیا ڈی رچی سے متعلق مطمئن نہ کیا گیا تو سیکریٹری داخلہ کو طلب کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔