خان کا ’اعزاز‘

منصور ریاض  جمعـء 4 ستمبر 2020
غلام سرور  پاکستان کی تاریخ کے اب تک کے ’ورسٹ منسٹر‘ ثابت ہورہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

غلام سرور پاکستان کی تاریخ کے اب تک کے ’ورسٹ منسٹر‘ ثابت ہورہے ہیں۔ (فوٹو: فائل)

یقین کیجیے، یہ کالم اور ’اعزاز‘ عمران خان کے سر کم سے کم نہیں ہے۔ جب ہر دوسری تحریر وزیراعظم کےلیے ہو اور حمایتی اور مخالفین یکجا ہوکر ’وزیراعظم کا ایک اور اعزاز‘ دینے میں مصروف ہوں، تو آپ عمران خان کے علاوہ ’ورلڈ کپ‘ کسی اور کو دے بھی کیسے سکتے ہیں؟ لیکن کریڈٹ جاتا ہے وزیراعظم خان کی ٹیم کے ایک ہونہار اور تجربہ کار غلام سرور خان کو، جن کی کارکردگی اور ’بولتی‘ بظاہر ایک ’عوامی ایوارڈ‘ کو اپنے نام کرتی نظر آرہی ہے۔

اپنی تازہ ’فرسٹریشن‘ میں غلام سرور خان نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے پینتیس سالہ دورِ حکومت کے ’لٹیروں‘ کو واجب القتل اور پھانسی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایسی انتہاپسند سوچ اور طرز کی خود کابینہ اور حکومتی ارکان نے مذمت کی۔ اور وہ بھی اس موقع پر جب فیٹف پر قانون سازی کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن میں ایک حد تک مفاہمت کی ضرورت ہے؛ جب کوشش ہے کہ بے پناہ مخالفت کے باوجود پارلیمنٹ میں معاملات کم سے کم پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہ جائیں۔

اگرچہ یہ بیان وزیراعظم کے ’چائنیز ماڈل‘ اور حکومتی ٹائیگرز کی پالیسی، خاص کر ’بوٹ چھٹ‘ فیصل واوڈا کا تسلسل ہے، لیکن آج کل تو یہ بھی حد پار نہیں کررہے۔ ایسا کیا ہوا کہ غلام سرور خان جو پائلٹوں کے معاملے پر عالمی جگ ہنسائی اور پاکستان کی ایئر اسپیس کو سکیڑ چکے ہیں، پھر آپے سے باہر ہوگئے اور اپنی ایک اور ’خفت‘ چھپانے کےلیے ایک بار پھر فلور پر فرنٹ فٹ پر آئے، جب موقع تھا نہ محل؟

اس سے پہلے بھی اسمبلی فلور پر ہی انھوں نے جہاز گرتے ہی پاکستان کا ایسا جہاز گرایا کہ ان ملکوں نے بھی ایئر اسپیس بند کی جن کی فضائی اڑان کچھ لوگ ایک درخت سے دوسرے درخت تک سمجھتے تھے۔

عمران حکومت کی اولین کابینہ میں غلام سرور خان کچھ لے دے کے بعد اپنے اثرورسوخ کی بدولت ’من چاہی‘ پٹرولیم کی وزارت پانے میں کامیاب تو ہوئے، لیکن ان کے دور میں پٹرول، گیس بحران کے بعد گیس کے ہوشربا بلوں نے عوام تو کیا، وزیراعظم کے بھی ہوش ٹھکانے لگادیے۔ زمین سے فضائی وزارت تو پہلے مل گئی تھی، لیکن وزارت ’دکھائی‘ جہاز گرنے پر۔ چولہا بندی اور فضائی ناکہ بندی کروانے کے بعد اب اپوزیشن بندی کا بول کر اپنی ساری ہونہاری اور تجربہ کاری کو سرور خان نے صرف دو سال میں ’نونہالی‘ میں بدل دیا ہے۔

پُرفضا اور اہم علاقے ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے سرور خان کی ہونہار سیاست کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’فیئر پلے‘ میں چوہدری نثار علی خان جیسے بروا کو متعدد بار چت کرچکے ہیں، جو عوامی سیاست پر نبض رکھنے کے باوجود کبھی راولپنڈی کے فوکل پوائنٹ سے باہر نہیں نکلے۔ سرور خان پاکستان کے ایک نہایت seasoned سیاستدان کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں، جو سیزن بدلنے پر ’ادھر سے اُدھر‘ ہونے میں بھی طاق ہیں۔ اگرچہ راولپنڈی کے ’قریب‘ سے تعلق رکھتے ہیں، پر شیخ رشید کی قبیل سے تعلق نہیں رکھتے، اور سیاست اور بیان بازی کریز میں رہ کر کرتے رہے ہیں۔ اپنے فرزند کے ہمراہ راولپنڈی سے متصل دو اہم قومی اسمبلی کی سیٹوں پر آج کل تبدیلی والی پارٹی کے پلیٹ فارم سے براجمان ہیں۔ اس سے پہلے مشرف کی ق لیگ، پیپلز پارٹی اور ضیاء الحق کی مسلم لیگ میں بھی رہ چکے ہیں، جہاں وہ چوہدری نثار کے انڈر الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ 1985 سے سیاست میں صوبائی اسمبلی کے ذریعے اِن ہیں، اور اس سے پیشتر وفاقی اور صوبائی کابینہ میں رہ چکے ہیں۔ غرض سیاست کے ہر داؤ پیچ سے واقف ہیں۔

ساتھ ہی غلام سرور کی ’پہنچ‘ کا اندازہ بھی اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیراعظم کے رائٹ ہینڈ جہانگیر ترین کو اِدھر سے آؤٹ ہونے کے بعد لندن میں بھی ’کسوکی‘ دیے جارہے ہیں۔ لیکن سرور خان پٹرول اور گیس بحران پر اعلان ہونے کے باوجود ہر قسم کی انکوائری سے بچے رہے، اور صرف عمران خان نے ان کی وزارت بدلنے پر اکتفا کیا۔ ان کی ہوا بازی کی وزارت سنبھالنے کے بعد پاکستانی ریاست اور نیشنل ایئرلائن کو پائلٹوں کے لائسنس والے معاملے پر شدید مالی اور اخلاقی طور پر نقصان ہوا، لیکن غلام سرور وزیراعظم کی کاپی کرتے ہوئے اکڑتے رہے کہ پائلٹ مافیا کو گھر بٹھا دوں گا۔ ’’کوا چلا…‘‘

بدقسمتی سے اس ارض پاک میں حکمرانوں کی کارکردگی دیکھتے ہوئے بہترین کے بجائے بدترین ’ایوارڈ‘ کا زیادہ رَن پڑتا ہے۔ ملکی نقصان اور تجزیوں کی روشنی میں ملک غلام محمد، پرویز مشرف اور آصف زرداری کی حکمرانی پر زیادہ شدومد سے سوالات اٹھے ہیں، لیکن بدترین حکمرانی کا سہرا سرعام شراب پھوڑنے اور پاکستان توڑنے پر یحییٰ خان کے سر رہا ہے۔

تحریک انصاف کو بہرحال اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ ان کے دور میں ٹیم کے ارکان بھی ’ریڈار کے نیچے‘ آئے ہیں۔ نواز شریف کی ’سیکرٹ‘ کابینہ نہیں، جہاں وزیر مشیر کا پتہ ہی نہیں ہوتا تھا، اور جس کا پتہ چلتا تھا، اُس کا پتّا ہی کاٹ دیا جاتا تھا۔ ’نائب کپتانوں‘ کی تو اسد عمر، شاہ محمود، پرویز خٹک کی شکل میں ٹرائیکا موجود ہے۔ اُدھر ڈوبنے کے بعد اِدھر نکلنے پر اسد عمر کی کووڈ 19 میں پرفارمنس پر واہ واہ ہے۔ شیخ رشید، فواد چوہدری، زرتاج گل، مراد سعید وغیرہ حکومت کےلیے فوکر اور مخالفین کےلیے خنجر کا کام کرتے ہوئے بہت اِن ہیں۔ دوسری طرف یہ کہا جارہا ہے کہ ٹیم کو خود سر پر ’چڑھایا‘ گیا ہے تاکہ بوقت ضرورت وقتاً فوقتاً یہ کہا جاسکے کہ ’’ٹیم ہی اچھی نہیں تھی، ورنہ کپتان کی نیت اور خلوص تو ہر چیز سے بالاتر ہے‘‘۔

بہرحال ’’اور بھی ہوں گے ٹیم میں غلام سرور کے سوا‘‘۔ لیکن غلام سرور کی بدقسمتی کہی جاسکتی ہے کہ انھوں نے ایسی ’سٹھیائی‘ ہوئی پرفارمنس دکھائی ہے کہ وزرا کی کارکردگی ’طشت از بام‘ ہونے کے بعد استدلالی طور پاکستان کی تاریخ کے اب تک کے ’ورسٹ منسٹر‘ ثابت ہورہے ہیں۔

اسے کیریئر کا آخر کہیں، ’موقع‘ نہ ملنے کا غم یا عمران کی طولانی حکومت کا پریشر کہ ملک تو چھوڑیں، غلام سرور، خان منصور کی مستقبل کی سیاست کو بھی زک پہنچاتے محسوس ہورہے ہیں۔ کیونکہ سیاسی خانوادہ تبدیلی مٹیریل تو ہے نہیں؛ موسم بدلنے پر صاحبزادے نے ادھر سے اُدھر تو ہونا ہی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

منصور ریاض

منصور ریاض

بلاگر اردو میں تھوڑا لکھتے اور انگریزی میں زیادہ پڑھتے (پڑتے) ہیں، پڑھا لکھا صرف ٹیکنالوجی جاننے والوں کو سمجھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔