شاہد خاقان عباسی کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم

ویب ڈیسک  جمعرات 3 ستمبر 2020
عدالت نے شاہد خاقان عباسی، ارشد مرزا، عمران الحق اور یعقوب ستار کی عبوری ضمانت میں توثیق کردی: فوٹو: فائل

عدالت نے شاہد خاقان عباسی، ارشد مرزا، عمران الحق اور یعقوب ستار کی عبوری ضمانت میں توثیق کردی: فوٹو: فائل

کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے ایم ڈی پی ایس او تقرری ریفرنس میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمیت دیگر ملزمان کی عبوری ضمانت کی توثیق کرتے ہوئے ملزمان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس کے کے آغا اور جسٹس ذوالفقار علی سانگی پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو پی ایس او میں غیرقانونی تقرری ریفرنس میں شاہد خاقان عباسی اور دیگر ملزمان کی عبوری ضمانت میں توثیق سے متعلق سماعت ہوئی،  شاہد خاقان عباسی کے وکیل خواجہ نوید ایڈوکیٹ نے پی ایس او کے سابق ایم ڈیز کی تفصیلات پیش کردیں۔

خواجہ نوید نے نجی آئل کمپنیز کا ٹرن اوور اور دیگر تفصیلات بھی پیش کیں، سابق وزیر اعظم نے بتایا کہ بھرتی کے لئے تمام ضابطوں پر عمل کیا گیا،  امیدواروں کے انٹرویوز کے بعد شارٹ لسٹ کیا گیا،  دیگر عہدوں پر بھی انٹرویوز کیے گئے، شاہد خاقان عباسی کے وکیل خواجہ نوید نے دلائل مکمل کرلیے۔

سابق ایم ڈی عمران الحق کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ میرے مؤکل کی تقرری میرٹ پر ہوئی۔ عمران الحق نے بتایا کہ میں نے 6 ارب کمانے والے پی ایس آؤ کا منافع 18 ارب تک پہنچایا۔ یعقوب ستار کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ کوئی غیر قانونی تقرری نہیں ہوئی، وزیر اعظم نے 3 امیدواروں کے انٹرویو کیے اور عمران الحق کی تقرری انٹرویو کے بعد کی گئی۔

پراسیکیوٹر نیب نے دلائل میں کہا کہ ایم ڈی پی ایس او کی تقرری خلاف ضابطہ کی گئی، عمران الحق کی تقرری کے لیے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا۔ پراسیکیوٹر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دینے چاہا جس پر جسٹس کے کے آغا نے انہیں روک دیا۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر پر اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے جو غیر قانونی بھرتی کی اس سے متعلق مؤثر دلائل دیں، ریفرنس میں کچھ اور لکھا ہے اور آپ بتا کچھ اور رہے ہیں، جسٹس کے کے آغا نے استفسار کیا کہ جو آپ بتارہے ہیں کیا وہ ریفرنس میں لکھا ہے؟۔

تفتیشی افسر نے بتایا کہ عمران الحق کا کوئی انٹرویو ہی نہیں ہوا، لیکن ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں۔ سمری اور امیدواروں کو شارٹ لسٹ بورڈ آف مینجمنٹ کی منظوری کے بغیر کیا گیا، شیخ عمران الحق ایم ڈی پی ایس او کے لیے اہل نہیں تھے، تقرری سے قبل ہی شیخ عمران الحق پی ایس او افسران اور دیگر کے ساتھ ایل این جی سےمتعلق میٹنگز کرچکے تھے، عمران الحق ان میٹنگز میں بطور ایم ڈی اینگرو شریک ہوتے رہے، ایل این جی ٹرمینل کے معاہدے پر عمران الحق نے دستخط نہیں کیے، وہ بغیر کسی اشتہار کے ڈی ایک ڈی پی ایس او لگے، بعد میں انہیں غیر قانونی طور پر مرموٹ کردیا گیا۔ عمران الحق کیخلاف اس وقت کرمنل انکوائری بھی ہورہی تھی۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے آپ کا الزام ہے کہ عمران الحق کی تقرری غیرقانونی ہے، آپ نے وزیر اعظم کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا۔ تفتیشی افسر نے بتایا ویر اعظم کا تقرری میں دباؤ ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ تفتیشی افسر نے بتایا سابق وزیر اعظم شاہد خاقان اور دیگر کی ملی بھگت سے پی ایس او میں غیر قانونی بھرتیاں کی۔

جسٹس کے کے آغا نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے شاہد خاقان  سے تفتیش کی؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ نہیں ان سے تفتیش نہیں کی۔ عدالت نے اظہار برہمی کرتے ہوئے تفتیشی افسر سے استفسار کیا آپ نے نہ ان کو نوٹس بھیجا اور نہ ہی تفتیش کی ریفرنس کیسے بنادیا؟ یہ کیس تو نیب پر بننا چاہیے، ریفرنس کالعدم کردیں تو سب ختم ہوجائے گا، کیا ایم ڈی پی ایس او کی تعیناتی سے متعلق آپ نے شاہد خاقان  سے وضاحت مانگی؟۔  تفتیشی افسر نے بتایا نہیں ہم نے وضاحت نہیں لی البتہ شاہد خاقان کیخلاف دستاویزات موجود ہے۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ وزارت کی بدنیتی سامنے آئی تھی۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیئے بدنیتی آپ کی جانب نظر آرہی ہے وزارت کی نہیں، شفاف تفتیش آپ کی ذمہ داری تھی مگر بادی النظر میں آپ نے کام مکمل نہیں کیا، جب 3 نام تھے تو ان میں وزیر اعظم نے ایک کا انتخاب کیا، آپ نے وزیر اعظم سے سوال کیوں نہیں کیا؟ بتائیں کہاں وزارت کی بدنیتی نظر آئی آپ کو؟۔  تفتیشی افسر نے بتایا کہ وزارت نے سارا پروسیس ختم کرکے از سر نو اشتہار شائع کیا۔

جسٹس کے کے آغا نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے آپ بتائیں کہ تفتیش میں الزام ثابت ہوا یا تقرری میں کون سی بے ضابطگی ہوئی ہے؟۔ اس تقرری سے ادارے کو کتنا نقصان ہوا؟ ۔ فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، ارشد مرزا، عمران الحق اور یعقوب ستار کی عبوری ضمانت میں توثیق کردی۔ عدالت نے ملزمان کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کا حکم دیدیا۔

سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی سندھ ہائی کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو نے کہا کہ نیب نے ریفرنس ڈیڑھ سال کے بعد دائر کیا۔ مجھ پر الزام تھا کہ میں نے ایم ڈی پی ایس او کی تعیناتی غیر قانونی کی۔ لمبی بحث کے بعد عدالت نے ہماری ضمانت منظور کی۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عدالت نے نیب سے جو سوال کیا اس کا ایک جواب بھی نیب کے پاس موجود نہیں تھا۔ 3 سال شیخ عمران الحق نے پی ایس او میں لگائے اور ادارہ 3 سال منافع میں رہا۔ آج جو پی ایس او ایم ڈی ہیں انہوں نے ساڑھے 6 ارب کا نقصان ملک کو دیا۔ ہم پر سیاسی مقدمات بنائے جارہے ہیں  آج چئرمین نیب کو اپنے ادارے کی کرپشن نظر نہیں آرہی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔