بڑا بھائی اور پنٹر لوگ

سعد اللہ جان برق  جمعـء 4 ستمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

یہ توہم بھی جانتے ہیں آپ بھی جانتے ہیں اور ’’وہ‘‘بھی جانتے ہیں اور’’وہ وہ‘‘بھی جانتے ہیں صرف وہی نہیں جانتے جنھیں جاننا چاہیے باوجود جاننے کے مدعی ہیں گویا

پتاپتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

یہ ’’گل‘‘جس کا نام حکومت ہے اس کے ساتھ جوسب سے بڑا پرابلم ہے وہ یہ ہے کہ جوکرنے کے کام ہوتے ہیں وہ یہ ہرگز نہیں کرتی البتہ ’’نہ کرنے‘‘کے کام ’’کرنے‘‘سے پہلے کرتی ہے۔آپ نے خود دیکھا ہوگا دیکھ رہے ہیں اور دیکھتے رہیں گے کہ جوکام اخبارات میں زور شور سے ’’ہوتے ہوئے‘‘دکھائی دیتے ہیں وہ کہیں بھی اور کبھی نہیں ہوتے لیکن جوکام ہورہے ہوتے ہیں۔

ان کی بھنک بھی کسی کوسنائی نہیں دیتی۔ہم تو پرانے زمانے کے ہیں اس لیے نئے زمانے کی ’’اداؤں‘‘سے واقف نہیں ہیں لیکن جونئے زمانے کے نئے لوگ ہیں وہ سب کچھ جانتے ہیں چنانچہ ہم نے ایک مرتبہ اپنے بیٹے سے کہا کہ ذرا اخبارات پر دھیان دو اور ’’ضرورت ہے‘‘یا ’’آسامیاں ہیں‘‘یا ’’درکار ہیں‘‘جیسے اشتہارات پر درخواست بھیج دیاکرو نوکری مل جائے گی۔ اس نے ہنس کر کہا، میں ایسا کرتاہوں لیکن جہاں جس آسامی کے لیے درخواست بھیجتا ہوں ان آسامیوں پر لوگ ایک ایک تنخواہ بھی لے چکے ہوتے ہیں۔ہم نے کہا۔تم ’’دیر‘‘  کردیتے ہو شاید۔بولا، جی نہیں میں دیر نہیں کرتا بلکہ وہ ’’سویر‘‘کردیتے ہیں آسامیاں بانٹتے ہیں اور اشتہار بعد میں دیتے ہیں۔

اب اخبارات میں سنا ہے کہ زکوۃٰ کے فنڈ سے مستحقین کے لیے بارہ ہزار روپے جاری کیے جارہے ہیں اور یہ ہمارے لیے بالکل ہی ایک نئی خبرہے کیونکہ ہمیں تویقین تھا کہ جس دن سے ضیاء الحق نے یہ عشروزکوۃ کا بابرکت سلسلہ شروع کیا ہے اس دن سے چار دن پہلے ہی ’’مستحقین‘‘پیدا کیے گئے تھے اور پھر ان میں مال غنیمت کی تقسیم بھی عمل میں آئی تھی۔جو اب تک ہرپارٹی کی ہرحکومت کے سائے تلے آرام سے چل رہی ہے بلکہ ایک اور حیرت یہ کہ کیا اس فنڈ میں ابھی کچھ باقی بھی ہے اور اگرباقی ہے تو ہم اسے معجزہ ہی کہیں گے کہ بلی کی موجودگی میں گوشت موجود ہے،  ناممکن سمجھو۔یہ نہیں ہوسکتا ہے۔مشن امپاسیبل۔ ارے ہاں۔ہم بھی نا۔شاید حکومت کا اثر ہم پر بھی پڑا ہے۔

’’الناس علی دین ملوکھم‘‘اس لیے وہ بات نہیںکرتے جوکرنے کی ہوتی ہے اور وہ باتیں نہیں کرتے ہیں جو کرنے کی نہیں ہوتیں۔اب اس سارے قصے میں ہم یہ توبتانا بھول گئے کہ زکوۃ ہوتی کیاہے؟یہ کوئی سبزی ہے پھل ہے،یاغلہ۔یا یہ کہ اسے کھاتے ہیں پیتے ہیں یا اور ۔۔زکوۃ اصل میں اسلام کے پانچ اراکین میں سے چوتھا رکن ہے لیکن بیچارا بہت ہی غریب اور مسکین ہے اس لیے اسے نکال باہرکردیا گیاہے اور اس کی جگہ ’’عمرے‘‘کودی گئی ہے۔مردحق ضیاء الحق واصل بحق سے اس کی یہ کس مپرسی دیکھی نہیں گئی اس لیے اس نے اسے ’’گود لیا‘‘اور پھر حکومتوں کی گود میں ’’دیا‘‘۔ اصل میں اس ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات دیکھ کرساری حکومتیں اس پر ریجھ جاتی ہیں اور آتے ہی سب سے پہلے اسے گود لیتی ہیں

لیلیٰ ہوں۔لیلیٰ۔ایسی ہوں لیلیٰ

ہر کوئی چاہے مجھ سے،ملنا اکیلا

لیکن ’’ہونہار بروا‘‘تھا اور اس کے چکنے چکنے پات بھی تھے اور بہت ہی رنگین بھی تھے۔اسے گود لینے کے لیے اور بھی بہت سارے نیک وصالح لوگ یا ادارے بھی کوشاں تھے۔تب حکومت نے وہی کام کیا جواسے کرنا چاہیے تھا۔اپنے ’’پنٹروں‘‘کے ذریعے اسے وصولنا شروع کیا ۔اب’’پنٹر ‘‘تو  پنٹر ہوتے ہیں ان کے لیے کیا پاک،کیا ناپاک، اصل چیز ’’وصولی‘‘ ہے۔

شاید کچھ ’’پنٹر‘‘ کے معنی بھی نہ جانتے ہوں اس لیے بتائے دیتے ہیں کہ انڈرورلڈ میں کارکن مکھیوں یا چھوٹے درجے کے کارکنوں اور ہفتہ وصولنے والوں کو پنٹر کہاجاتاہے، یوں سمجھ لیجیے پارٹیوں کے ’’کارکن‘‘ ہوتے ہیں اور بے نام ہی کام آتے رہتے ہیں۔اب ہفتہ وصولنے والوں کو’’بڑے بھائی‘‘ نے صرف ’’وصولی‘‘ کے لیے کہا ہوتا ہے، یہ دیکھنے کے لیے نہیں کہ وصولی پاک ہے یا ناپاک،جائز ہے یا ناجائز، کہاں سے آتی ہے کس راستے آتی جاتی ہے۔

کیونکہ نوٹ پرصرف اس کی مالیت درج ہوتی ہے یا گارنٹی۔یہ نہیں لکھاہوتاہے کہ حرام کاہے یا حلال کا ہے، سود کا ہے یا ناسود کا۔سو آج کل زکوۃ کو حکومت نے گود لے کو پنٹروں کے ذریعے وصولنے کا طریقہ رائج کیا ہوا ہے اور ’’مستحقین‘‘ ڈھونڈنے کاکام ایک الگ قسم کے پنٹروں کے ذمے ہے۔ اوراس بات پر جتنا بھی تعجب کیاجائے کم ہے کہ کیا ’’چیل‘‘کے گھونسلے میں اب بھی ماس باقی ہے جیسے بانٹنے کی بات کی جارہی ہے۔

لگتا ہے یقیناً کہیں سے ’’ماس‘‘ہاتھ لگاہے۔نہ بھی لگا ہو تو ’’ریوڑ‘‘ تو موجود ہے پنٹر بھی بہت ہیں اور محکموں اور ٹیکسوں کی چھریاں بھی۔ اور کالانعاموں کے اس عجیب وغریب عجیب الخلقت ریوڑ کے بارے میں تو ہم بتاتے رہتے ہیں کہ حکومت نے نہ جانے کہاں سے یہ ’’ترقی دادہ نسل‘‘درآمد کرکے پالی ہوئی ہے جس کے جانور بیک وقت دودھ بھی دیتے ہیں اور انڈے بھی،اون بھی دیتے اور کھالیں بھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ تیل کے کنوئیں بھی ہیں۔وہ ایک فلم میں کرایہ دار کومکان دکھاتے ہوئے مالک دکان دکان کی خوبیاں بتاتے ہوئے کہتاہے۔

یہ دیکھو یہ سیڑھیاں ’’اوپر‘‘ جاتی ہیں اور  کمال ہے کہ یہی سیڑھیاں اوپر سے نیچے بھی آتی ہیں، یہ دروازہ دیکھو۔یہ بند بھی ہوتاہے اور کھلتا بھی ہے اور یہ چھت؟دھوپ سے بھی بچاتی ہے اور بارش بھی برساتی ہے۔ہمارے یہ ملٹی پرپز کالانعام بھی ایسے ہی کثیرالمقاصد اور کثرالفوائد ہیں۔ یہ ٹیکس بھی دیتے ہیں زکوۃ بھی دیتے ہیں کھالیں بھی دیتے ہیں چندے بھی دیتے ہیں جرمانے بھی ادا کرتے ہیں۔سفیدہاتھی بھی پالتے ہیں مونہوں کے لیے نوالے بھی پیدا کرتے ہیں یا بنتے ہیں۔صرف ایک جھنڈا ایک ڈنڈا اور چند پنٹر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔