آخ چھیں

ڈاکٹر یونس حسنی  اتوار 6 ستمبر 2020

لوگوں کی چھیڑ بھی عجیب ہوتی ہے کوئی ’’آخ چھیں‘‘ کہنے سے چڑتا ہے تو کوئی ’’قلاقند‘‘ سے چڑتا ہے تو کوئی ’’تُرئی‘‘ سے۔ کسی کو چچا کہہ دو تو سخت برا مانتا ہے غرض کوئی اصول مقرر نہیں ہے اور پتا نہیں چلتا کہ کب، کون کس چیز سے چرنے لگے۔ ہماری موجودہ حکومت کی چھیڑ ’’نواز شریف‘‘ ہیں۔ یہ حکومت جب سے وجود میں آئی ہے ’’نواز شریف‘‘ سے اسی طرح چڑتی ہے جیسے ہمارے ہمسائے ’’قلاقند‘‘ سے۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو ماضی میں نواز شریف سے کوئی پرخاش رہی ہے کہ وہ ان کا نام لیتے ہی ہتھے سے اکھڑ جاتے ہیں اور سارے سیاسی اخلاقیات وغیرہ دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔

نواز شریف تین مرتبہ اس ملک کے وزیر اعظم اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ وغیرہ کے مناصب پر فائز رہ چکے ہیں ظاہر ہے ان عہدوں پر رہتے ہوئے انھوں نے اربوں روپیہ خرچ کیا ہوگا اور ملکی ترقی کے منصوبے بنائے ہوں گے۔ اس سارے کاروبار میں ان پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے جو کام کیے منصوبے بنائے اور ان کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اس کے دوران انھوں نے اربوں ہی روپے کی کرپشن بھی کی۔

اس لیے ان کا معاملہ نیب کے حوالے کیا گیا۔ مقدمے تیار ہوئے اور چلے بھی ایک مقدمے میں مالی کرپشن یہ ثابت ہوا کہ وہ اپنے بیٹے کی ایک کاروباری فرم سے وابستہ رہے جس سے انھوں نے کوئی مالی فائدہ یا تنخواہ وصول نہیں کی، وصولی کی توقع ضرور تھی، اس جرم میں جو مقدمے کا منشا نہ تھا ان کو سزا ہوگئی۔

دوسرا مقدمہ جو نیب کے تحت چلا اس میں نیب عدالت نے انھیں متعدد سزائیں سنا دیں اور وہ جیل بھیج دیے گئے ۔

ادھر نواز شریف بڑی گھن گرج کے ساتھ جیل گئے تھے مگر جیل جاتے ہی ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ مرض بھی عجیب ہوا۔ ان کے پلیٹ لیٹس گرنے لگے اور ان کو اٹھانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھیں۔ عام طور پر50,000 سے کم پلیٹ لیٹس خطرناک سمجھے جاتے ہیں مگر نواز شریف صاحب کے پلیٹ لیٹس 25 ہزار تک گر گئے اور کسی طرح بڑھنے کا نام نہ لیتے تھے دوران علاج ایک مرحلے پر ان کے پلیٹ لیٹس 12 ہزار رہ گئے جس پر زندہ رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ وہ جیل میں اور جیل کے باہر زیر علاج رہے مگر پلیٹ لیٹس نے بڑھنے کا نام نہ لیا بہ مشکل تمام یہ پھر 25 ہزار تک پہنچ پائے۔ اب حکومت نے فوراً میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جس کے ایک رکن وزیر اعظم کے معتمد ڈاکٹر فیصل بھی تھے۔ اس بورڈ نے نواز شریف صاحب کی حالت کو تشویش ناک قرار دیا ان کی رپورٹس کا معائنہ کرنے کے بعد پنجاب کی وزیر صحت جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں نے نواز شریف صاحب کی علالت کو انتہائی سنجیدہ قرار دیا اور بالآخر عمران خان نے بھی طبی نزاکتوں کے پیش نظر عدالتی احکامات کے تحت نواز شریف کو اپنی پسند کے ملک اور پسند کے ڈاکٹر سے علاج کرانے کی اجازت دے دی۔

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اس وقت حکومت خوفزدہ تھی کہ کہیں نواز شریف پاکستان میں کچھ ہو نہ جائے ورنہ ان پر الزام آئے گا کہ حکومت نے مریض کو پسند کا علاج نہیں کرانے دیا گیا، غرض اچھی طرح ٹھونک بجا کر نواز شریف کو جانے دیا گیا اور وہ برطانیہ میں اپنے بچوں کے پاس چلے گئے کہ ہر مریض ایسے موقع پر اپنوں کے درمیان رہنا پسند کرتا ہے۔

ہفتہ دو ہفتہ بعد ایک تصویر شایع ہوئی جس میں نواز شریف اپنے قدموں سے چلتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف جا رہے تھے۔ ایک بار وہ فٹ پاتھ پر ہلکی چہل قدمی کر رہے تھے یہاں ادھم مچ گیا کہ یہ تو چل پھر رہے ہیں (انھیں تو صاحب فراش ہونا چاہیے تھا) حالانکہ چہل قدمی عموماً طبی مشورے کے تحت کی جاتی ہے۔

برطانیہ میں بھی ان کے پلیٹ لیٹس کا مسئلہ حل نہ ہو سکا البتہ ان کے دل میں اسٹنٹ ڈالنے کی ضرورت محسوس ہوئی مگر دل کی جراحی اس لیے نہ ہو سکی کہ کورونا کے دوران کسی قسم کی جراحی مضر ہو سکتی تھی۔ اس لیے فی الحال وہ دواؤں پر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی طبی رپورٹیں ارسال کرتے رہے ہیں۔

ادھر فضل الرحمن صاحب نے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا عندیہ اور بڑی جماعتوں کو نظر انداز کرکے خود اپنی جماعت کے بل بوتے پر تحریک کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس سلسلے میں ان کا رویہ تمام جماعتوں کے برخلاف زیادہ منطقی ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ جماعت ووٹ چرا کر آئی ہے، ناجائز حکومت سے اس لیے اس کے خلاف جدوجہد جائز ہے جب کہ دو بڑی جماعتیں تمام تر اظہار اختلاف کے باوجود اس حکومت کو جو ان کے خیال میں بھی ناجائز ہے وقت دینے کے درپے ہیں۔

مولانا نے نواز شریف صاحب سے رابطہ کیا اور نواز شریف نے مولانا سے مکمل اتفاق کیا اور حکومت گرانے کی جدوجہد کی حمایت کی۔ اسی کے بعد مریم نواز ایک جم غفیر لے کر عدالت حاضر ہوئیں جو ہوا سو ہوا۔ دوسری طرف نواز شریف نے اپنی جماعت کو اپنے موقف سے آگاہ کیا اور مسلم لیگ کے رویے کی لچک سختی میں بدل گئی۔

ظاہر ہے حکومت ان رابطوں سے بے خبر نہیں رہی ہوگی انھیں نواز شریف کی یہ ’’سیاسی سرگرمیاں‘‘ ایک آنکھ نہ بھائیں۔ اب پھر چند تصاویر اخبارات اور ٹیلی ویژن کی زینت بنیں اور کہا گیا ’’ہائیں یہ کیسے بیمار ہیں جو چل پھر رہے ہیں۔‘‘ حالانکہ وہ تصاویر ان کے فلیٹ سے اپنے بیٹوں کی معاونت میں گاڑی تک آنے کی تھیں۔ اب شور یہ مچ رہا ہے کہ یہ چل پھر کیوں رہے ہیں انھیں تو بستر پر ہونا چاہیے تھا۔ یہ حکومت کو دھوکا دے کر گئے ہیں انھوں نے جو رپورٹیں ارسال کی ہیں وہ پرانی اور نامکمل ہیں۔اب وزیر صحت پنجاب جنھوں نے رپورٹس پڑھ کر ان کی شدید علالت کی تصدیق کی تھی کہہ رہی ہیں کہ فوراً واپس آئیں اور واپس آکر انھیں سیدھا جیل جانا ہوگا۔وزراء صاحبان جیل کے دروازے کھولے کھڑے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر نواز شریف دھوکا دے کر گئے ہیں تو تشکیل شدہ میڈیکل بورڈ، وزیر صحت پنجاب اور خود وزیر اعظم کو مستعفی ہو جانا چاہیے کیونکہ یہ سب لوگ کسی نہ کسی حد تک ان کے ’’فرار‘‘ کے شریک کار ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔