محمد عمر میو۔۔۔۔ ایک منفرد تخلیق کار

ندیم سبحان میو  اتوار 6 ستمبر 2020
وہ لکڑی پر کندہ کاری کے فن میں ایک نئی جہت کے موجد ہیں ۔  فوٹو : فائل

وہ لکڑی پر کندہ کاری کے فن میں ایک نئی جہت کے موجد ہیں ۔ فوٹو : فائل

شاعر مشرق علامہ اقبال کا کہنا ہے:

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سوہنی دھرتی کو رب کریم نے قدرتی وسائل کے ساتھ ساتھ انسانی وسائل سے بھی مالامال کیا ہے۔ ذہانت اور ٹیلنٹ کسی کی میراث نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ کاروبار حیات کے ہر شعبے میں پاکستانیوں نے اپنا لوہا منوایا ہے۔ آرٹ کی اگر ہم بات کریں تو مصوری کی مختلف اشکال سے لے کر فنون لطیفہ کی تمام شاخوں میں فن کاروں نے اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور وطن عزیز کا نام روشن کیا۔ تاہم موجودہ دور میں، جب کہ سوشل میڈیا کی صورت میں تشہیر اور معلومات تک رسائی کا انتہائی مؤثر ذریعہ دستیاب ہے، کچھ منفرد فن کار اب بھی گم نامی کے اندھیروں میں ہیں۔

سبب یہ ہے کہ یا تو وہ سادہ طبع کے باعث تشہیر کے جھمیلوں سے دور رہ کر اپنے کام کے ذریعے اپنی تسکین کو ترجیح دیتے ہیں یا پھر ان کے فن سے مالی فائدہ اٹھانے کے متمنی موقع پرست افراد اور اداروں کی ’حرکات ‘ نے انھیں دلبرداشتہ کردیا اور انھوں نے اپنے نادر فن کو اپنی ذات تک محدود کرلینے ہی میں عافیت جانی۔

گذشتہ دنوں ہماری ملاقات کراچی کے علاقے محمودآباد، منظور کالونی میں مقیم ایک ایسے ہی منفرد آرٹسٹ محمد عمر میو سے ہوئی۔ شرعی داڑھی اور سر پر ٹوپی جمائے ہوئے محمد عمرمیو اپنی ظاہری وضع قطع کے مانند طبیعت میں بھی اتنے ہی سادہ ہیں۔ وہ لکڑی پر کندہ کاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ آرٹ کی زبان میں یہ فن ’ زائلوگرافی ‘ ( Xylography ) کہلاتا ہے۔ لکڑی پر نقش و نگار اُبھارنا یا کھودنا ایک قدیم فن ہے اور صدیوں سے اس کا استعمال ہوتا چلا آرہا ہے۔ پندرھویں صدی سے کتابوں کی طباعت کے لیے بھی زائلوگرافی سے کام لیا جاتا رہا۔

چوبی ٹکڑوں (بلاکوں) پر حروف یا تصاویر تراش لی جاتی تھیں اور پھر ان بلاکوں کو چھاپے کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ تاہم محمد عمر میو کا کہنا ہے کہ زائلو گرافی کی جس قسم میں وہ مہارت رکھتے ہیں وہاں ان کے مقابل کوئی نہیں۔ بہ الفاظ دیگر اس فن کی یہ قسم انھی نے متعارف کرائی ہے اور اس پر کام کرنے والے وہ دنیا میں واحد انسان ہیں۔ زائلوگرافی کی اس قسم میں لکڑی پر کوئی بھی نام، عبارت یا فقرہ کندہ کیا جاتا ہے اور پھر اس پر رنگ کرکے اسے خوب صورت فن پارے میں ڈھالا جاتا ہے۔

محمد عمر کے مطابق فائبرگلاس میں اس نوع کے نمونے بازار میں دکھائی دے جاتے ہیں مگر لکڑی پر یہ کام کرنے کی مہارت انھی کے پاس ہے۔ انھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کئی کمپنیوں نے ان سے مختلف فن پارے بنوائے اور پھر ان کی ڈائی بناکر مشینوں کے ذریعے فائبر کے نمونے بنانے اور فروخت کرنے شروع کردیے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں دستیاب فائبر کے بیشتر نمونوں کی ڈائیاں انھی کے فن پاروں سے بنائی گئی ہیں۔

محمد عمر میو کے مطابق فن پارے کے لیے لکڑی کا انتخاب وہ اس (فن پارے) کی نوعیت کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ اس میں کسی درخت کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اگر انھیں کسی کا نام کندہ کرنا ہے تو اس کے لیے مختصر جسامت کی لکڑی درکار ہوگی۔ اگر اسمائے الٰہی، تسمیہ، آیت یا کوئی فقرہ کندہ کرنا مقصود ہو تو پھر اسی اعتبار سے موزوں لمبائی اور چوڑائی کی لکڑی کھوجی جاتی ہے۔

محمد عمر کہتے ہیں کہ وہ آٹھ، آٹھ فٹ طویل چوبی ٹکڑوں کو بھی فن پاروں کی شکل دے چکے ہیں۔ فن پارے کی ضرورت کے لحاظ سے لکڑی کا انتخاب کرنے کے بعد وہ اسے دستی آلات کی مدد سے صاف ستھرا اور ہموار کرتے اور مطلوبہ شکل میں لاتے ہیں۔ اس کے بعد لکڑی پر مطلوبہ نام، یا عبارت وغیرہ تحریر کرنے کے بعد اس پر ایک مرکب کا لیپ کردیتے ہیں۔ مرکب کے خشک ہوجانے پر وہ اسے تراش کر نام اور عبارت وغیرہ اُبھار لیتے ہیں اور پھر مختلف رنگوں کے امتزاج سے اسے ایک منفرد فن پارے کی شکل دے دیتے ہیں۔

محمد عمر کے مطابق وہ فن پارے کی نوعیت کے لحاظ سے لکڑی کے ساتھ ساتھ درخت کی چھال اور جڑ کو بھی کام میں لاتے ہیں۔ محمد عمر کہتے ہیں کہ اس فن سے ناتا جوڑے انھیں کم و بیش رُبع صدی گزرچکی ہے۔ اس عرصے میں بیشتر فن پارے انھوں نے اپنی قلبی تسکین کے لیے تخلیق کیے۔ متعدد فن پارے تحفتاً اقربا اور دوست احباب کو پیش کیے۔ بالآخر حالات نے انھیں مجبور کردیا کہ وہ اپنی اس خداداد صلاحیت کا استعمال مالی مشکلات میں کمی کے لیے بھی کریں۔ چناں چہ انھوں نے اپنے شناساؤں کے توسط سے کچھ افراد کے لیے کام کیا۔ بہ تدریج ان کے کام کو پہچان ملی اور ان کی مانگ بڑھنے لگی۔ اب تک وہ سیکڑوں افراد اور اداروں کو ان کی منشا کے لحاظ سے فن پارے بناکر دے چکے ہیں۔ محمد عمر میو نے بتایا کہ ان کا فن صرف نام و عبارات کی کندہ کاری تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ ضرورت کے مطابق چوبی کینوس کو فوٹو فریم یا دیگر صورتوں میں بھی ڈھال دیتے ہیں۔

محمد عمر میو سے یہ گفتگو ان کے دو منزلہ گھر کے سادہ سے ڈرائنگ روم میں ہورہی تھی جس کی دیواروں پر ان کے فن پارے آویزاں تھے۔ پیشے کے لحاظ سے محمد عمر استاد ہیں اور ایک سرکاری پرائمری اسکول میں طلبا کے اذہان کو علم کی روشنی سے منور کرنے کی مقدس ذمے داری نبھارہے ہیں۔

جب ہم نے ان سے استفسار کیا کہ تدریس جیسے مقدس فریضے کی ادائیگی کرتے ہوئے وہ زائلوگرافی کی جانب کیسے راغب ہوئے اور پھر اس فن کو یہ منفرد جہت دینے کا خیال کیسے آیا تو مخصوص دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوئے کہ قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے کے دوران وہ خطاطی کی جانب مائل ہوئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی دل چسپی میں اضافہ ہوا مگر وہ اس فن میں کچھ منفرد کرنا چاہتے تھے۔ ایک روز انھیں خیال آیا کہ کیوں نا وہ کینوس کے طور پر لکڑی کا استعمال کریں۔ چنانچہ وہ اس خیال کو عملی جامہ پہنانے میں جُت گئے۔ محمدعمر کہتے ہیں کہ انھوں نے زائلوگرافی کی اس جہت میں اپنی خداداد صلاحیت، محنت اور لگن کے بل بوتے پر مہارت حاصل کی۔ چوں کہ یہ چوبی کندہ کاری کی نئی سمت تھی لہٰذا کسی سے اس کی تربیت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

محمد عمر میو کے مطابق ان کے والد تقسیم ہند کے بعد اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور آئے۔ پھر کچھ عرصے کے بعد کراچی منتقل ہوگئے۔ یہاں اس خاندان نے صدر کے علاقے میں رہائش اختیار کی۔ یہیں ان کے والد محمد لال خاں نے لڑکپن سے نوجوانی کی حدود میں قدم رکھا اور پھر رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ یہیں یکم جنوری 1973ء کو محمد عمر کی پیدائش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم انھوں نے گورنمنٹ لوئر سیکنڈری اسکول یونین سے حاصل کی۔ پھر ابراہیم علی بھائی گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول سے میٹرک میں کامیاب ہونے کے بعد اسلامیہ آرٹس اینڈ کامرس کالج کے طالب علم ہوگئے۔

گزراوقات کے لیے محمد عمر میو کے دادا نے پرندوں کی خرید و فروخت کو ذریعہ بنالیا تھا۔ ایمپریس مارکیٹ میں واقع ان کی دکان پر ہر قسم کے پرندے فروخت ہوا کرتے تھے جن میں نایاب نسل کے طیور بھی شامل تھے۔ محمدعمر کے والد بھی کاروبار میں ان کے دادا کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ لال خاں خود کبوتروں کے شوقین تھے اور ان کے پاس نایاب نسل کے کبوتر ہوا کرتے تھے۔ شوقین افراد دوردراز سے ان کی دکان پر خاص طور سے نایاب کبوتر لینے کے لیے آتے تھے۔ ان میں اعلیٰ اور سیاسی طبقے کے افراد بھی شامل تھے۔

یوں ان کے دادا اور والد کے تعلقات بااثر طبقے سے استوار ہوتے چلے گئے۔ انھی تعلقات کی بنیاد پر والد نے انٹرمیڈیٹ سے فارغ ہوتے ہی محمدعمر کو محکمہ تعلیم میں پرائمری ٹیچر بھرتی کرادیا۔ بہ طور استاد انھیں خدمات انجام دیتے ہوئے اٹھائیس برس گزر چکے ہیں۔ ان دنوں وہ جمشید ٹاؤن کی یونین کونسل 6 منظور کالونی کے گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول میں تعینات ہیں۔ دوران ملازمت ہی انھوں نے علامہ اقبال اوپن یونی ورسٹی سے گریجویشن اور پھر بی ایڈ کی سند حاصل کی۔

اس منفرد فن کی جانب محمد عمر کی آمد، خاندانی و تعلیمی پس منظر جان لینے کے بعد ہم نے گفتگو کا سلسلہ دراز کرنے کے بجائے ان کے اصرار پر چائے اور دیگر لوازمات سے ’انصاف‘ کیا جو ان کے فرزند دسترخوان پر سجاگئے تھے۔ بعدازاں ہم نے محمد عمر سے ان کے مزید فن پارے دیکھنے کی فرمائش کی تو وہ ہمیں گھر کی چھت پر لے آئے جسے انھوں نے اپنی ورک شاپ کی شکل دے رکھی ہے۔

یہاں ان کے کچھ فن پارے خام شکل میں موجود تھے۔ ایک کونے میں درخت کے تنے کا ایک حصہ رکھا ہوا تھا جس میں سے کٹی ہوئی شاخیں نکل رہی تھیں۔ درخت کے اس حصے پر کچھ لکھا ہوا نظر آرہا تھا۔ ہم نے غور کیا تو اندازہ ہوا کہ کِیلیں تنے میں گاڑ کر انھیں سورۂ اخلاص کی شکل دی گئی تھی۔ استفسار کرنے پر محمد عمر نے بتایا کہ ان کے فن کی ایک جہت یہ بھی ہے مگر اس جانب فی الوقت ان کی توجہ زیادہ نہیں ہے۔

ورکشاپ کی دیواروں پر مختلف فن پارے آویزاں نظر آئے۔ ان میں ایک خاصے بڑے گول چوبی ٹکڑے پر ایک معروف ٹی وی چینل کا لوگو بنا ہوا تھا۔ محمد عمر نے بتایا کہ یہ تحفتاً دینے کے لیے بنایا تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی ٹیلی ویژن چینلز کو مختلف نوعیت کے فن پارے بناکر دے چکے ہیں جو وہاں سیٹ کی زینت بڑھانے کے لیے استعمال کیے جاتے رہے۔

بالخصوص مذہبی پروگراموں کے لیے آیات پر مبنی فن پارے ان سے بنوائے گئے۔ محمدعمر نے کہا کہ وہ معروف صحافی شاہدغزالی کے خاص طور سے مشکور ہیں جنھوں نے کسی غرض کے بغیر انھیں الیکٹرونک میڈیا کے حلقے میں متعارف کرایا۔ ٹیلی ویژن چینل کا ذکر آیا تو انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ ایک بار صف اول کے ایک ٹیلی ویژن چینل کے افسر نے ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم آپ سے کام کرائیں گے مگر معاوضے کی وصولی کی رسید پر جو بھی رقم درج ہو آپ کو اس پر دستخط کرنے ہوں گے۔انھوں نے یہ پیشکش رد کردی۔

محمد عمر سے گفتگو جاری تھی کہ اسی اثنا میں ہماری نظر فن پارے کی صورت بنی صلیب پر پڑی۔ برابر ہی میں پڑے ایک اور فن پارے پر نامانوس زبان میں کوئی لفظ لکھا ہوا تھا۔ محمد عمر میو نے بتایا کہ انھوں نے اپنی قومی زبان اور عربی کے علاوہ چینی، فرانسیسی اور عبرانی زبانوں میں بھی کام کیا ہے اور عیسائیت، یہودیت اور سکھ ازم کی مقدس عبارات کو بھی اپنے فن پاروں کی زینت بنایا ہے۔

یہ نامانوس زبان کا لفظ دراصل عبرانی میں ’شالوم‘ (سلام) تھا۔ ان فن پاروں کو دیکھنے اور ان کی مزید گفتگو سننے کے بعد ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ مذہبی رجحانات کے حامل مگر میانہ رو انسان ہیں۔ وہ مذہبی رواداری کے قائل ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے مابین برداشت اور رواداری کی فضا قائم ہو۔ محمد عمر کا کہنا تھا کہ مذہبی رواداری کے فروغ میں ان کا فن معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر حکومت سرپرستی کرے تو وہ اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔

ورک شاپ کی دیوار پر ہمیں ایک چوبی ٹکڑے پر ’شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی‘ کا نام کندہ دکھائی دیا۔ ہمیں اس جانب متوجہ پاکر محمدعمر کہنے لگے کہ وہ ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے راہنماؤں کے ناموں کے فن پارے بناکر دے چکے ہیں، اور ان جماعتوں کی جانب سے ان کے کام کو سراہا بھی گیا ہے۔ ایران اور فرانس کے قونصل خانوں کے لیے بھی محمد عمر سے فن پارے بنوائے جاچکے ہیں۔ محمد عمر کہتے ہیں کہ ایرانی قونصل جنرل نے خاص طور سے ان کا کام، جو ’’پنجتن پاک‘‘ کے ناموں پر مشتمل تھا، بہت پسند کیا تھا۔

پچیس برس کے دوران محمد عمر نے سیکڑوں فن پارے تخلیق کیے۔ اپنے فن کی نمائش کے سوال پر محمد عمر نے بتایا کہ 2004ء میں آرٹس کونسل کراچی میں منعقدہ ’سولو ایگزیبیشن‘ میں انھوں نے پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ پرل کانٹی نینٹل کراچی میں بھی وہ ایک بار اپنے فن پاروں کی نمائش کرچکے ہیں۔ تاہم اس کے بعد مالی دباؤ کی وجہ سے وہ اب تک نمائش کا انعقاد نہیں کرسکے۔ بعض افراد نے محمد عمر سے ان کے فن پاروں کی نمائش کے لیے رابطہ کیا مگر ان کا مطمحِ نظر ان کے فن سے مالی فائدہ اٹھانا تھا۔ محمدعمر کے مطابق اس قسم کے افراد اور ادارے فن کار کی محنت سے کماتے ہیں جبکہ خود اسے (فن کار کو) برائے نام مل پاتا ہے۔ یہ صورت حال فن کار کی حوصلہ شکنی کا باعث بنتی ہے۔

محمدعمر اپنے فن کو زندہ رکھنے کے لیے اس کی ترویج کے خواہاں ہیں۔ اگر انھیں کوئی موزوں پلیٹ فارم مل جائے جو انھیں ان کے وقت کا مناسب معاوضہ بھی ادا کرے تو وہ اس فن کی تدریس پر راضی ہیں۔ فی الوقت وہ اپنے ایک صاحبزادے کو اس کی تربیت دے رہے ہیں۔

یادگار فن پاروں کی بابت استفسار پر محمد عمرکا کہنا تھا کہ انھیں اپنی ہر تخلیق سے پیار ہے کیوں کہ وہ دل سے کام کرتے ہیں۔ تاہم کچھ عرصہ قبل انھوں نے ایم ایم عالم کے بھتیجے کو نشان حیدر پانے والے شہدا کی تصاویر اور تاریخ شہادت پر مشتمل فن پارے تحفتاً دیے تھے ۔ یہ انھیں خود بھی بہت پسند آئے تھے۔ محمدعمر کے مطابق پاکستان میں یہ پہلا موقع تھا جب ان شہدا کو ’ زائلوگرافی‘ کے ذریعے خراج عقیدت پیش کیا گیا ہو۔ مستقبل میں وہ سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری کو اپنے فن میں ڈھالنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

رب کریم نے محمد عمر میو کو چار بچوں سے نوازا ہے۔ ان کی ایک بیٹی اور تین بیٹے ہیں۔ بیٹی اپنے گھر کی ہوچکی ہے۔ بڑا بیٹا بھی شادی شدہ اور ایک کمپنی میں اچھے عہدے پر فائز ہے۔ منجھلا بیٹا آٹوڈیزل میں ڈپلوما مکمل کرچکا ہے اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ملازمت کا بھی متلاشی ہے۔ چھوٹا بیٹا الیکٹریکل انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کررہا ہے اور اسی کو محمدعمر میو اپنا فن منتقل کررہے ہیں۔

ہم اس نادر فن کار سے مزید گفتگو کے متمنی تھے مگر آسمان پر چھاتی سیاہ گھنگھور گھٹاؤں نے ہمیں ارادہ ملتوی کرنے پر مجبور کردیا۔ چناں چہ ہم نے محمد عمر میو سے اجازت طلب کی اور دفتر کی راہ لی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔