صاحب اختیار و اقتدار کے غیر ملکی بچے

مزمل سہروردی  منگل 8 ستمبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

بہت دنوں سے ایک بات ذہن کو پریشان کر رہی ہے۔ اگر قانون کے دائرے میں دیکھوں تو میری سوچ اور پریشانی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن اگر اخلاقی دائروں میں دیکھوں تو پریشانی جائز لگتی ہے۔ اگر ایک نظر سے دیکھا جائے تو جو بات مجھے پریشان کن لگ رہی ہے وہ بری نہیں ہے۔ لیکن اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو بری اور پریشان کن دونوں ہیں۔

آج پاکستان میں اشرافیہ ، صاحب اقتدار ہو یا اپوزیشن میں سب کے بچے پاکستان میں رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جسے دیکھو وہ اپنے بچوں کو پاکستان سے باہر سیٹ کرنے کے چکر میں ہے۔ پڑھے لکھے سے لے کر ان پڑھ تک دانشور سے لے کر جاہل تک سب ہی بیرون ملک جانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔

جس کا پاکستان میں روشن مستقبل نظر آرہا ہے وہ بھی دیار غیر میں سکونت کے خواب دیکھتا ہے۔پہلے بچوں کو تعلیم کے لیے باہر بھیجنے کی تیاری کی جاتی ہے۔ پھر وہاں مستقل سیٹ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بچوں کو ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ واپس نہ آئیں۔ملک میں ایک کلچر بن گیا ہے کہ امراء اور ان کے بچے بیرون ملک ہی رہتے ہیں۔پاکستان تو ویسے ہی سیر کے لیے رہتے ہیں۔

بہت بات کی جاتی ہے کہ نواز شریف کے بچے غیر ملکی شہری ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے بچوں نے غیر ملکی سکونت تب اختیار کی، جب ان کے اہل خانہ کو جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔ لیکن جب نواز شریف ملک میں اقتدار کی جنگ لڑنے کے لیے واپس آئے۔ انھوں نے یقین دلانے کی کوشش کی کہ ان کا جینا مرنا پاکستان ہے لیکن انھیں جلا وطنی پر مجبور کیا گیا تھا۔

تب بھی انھوں نے اپنے بچوں کو قائل نہیں کیا کہ وہ اپنا سب کچھ ختم کر کے وطن واپس لوٹ آئیں۔ بلکہ ایک حکمت عملی کے تحت انھوں نے اپنی و زارت عظمیٰ میں بھی اپنے بچوں کو لندن سیٹ رکھنے کے لیے کام کیا۔ اس طرح وہ پاکستان کے و زیر اعظم بھی تھے۔ لیکن ان کے بچے پاکستانی نہیں تھے۔

بات صرف نواز شریف کی نہیں ہے۔ آپ جنرل مشرف کو ہی دیکھ لیں۔ جب وہ بلا شرکت غیر پاکستان کے صدر تھے۔ تب بھی ان کا بیٹا امریکا میں مستقل رہائش پذیر کے اسٹیٹس پر تھا۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کی مثال بھی سامنے ہے۔ وہ پاکستان کے وزیر خزانہ بنے۔ پھر وزیر اعظم بنے۔ اقتدار کے مزے لوٹے لیکن بچوں کو پاکستان نہیں لائے۔ آج وزیراعظم عمران خان کے بچے بھی پاکستان میں نہیں ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ تو شروع سے ہی باہر ہیں۔ لیکن باپ وزیر اعظم بن گیا اور وہ پھر بھی پاکستان آنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ایسی ان گنت مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ گورنر پنجاب  چوہدری سرور کی مثال بھی سامنے ہے۔

اپنے خاندان میں و ہ اکیلے پاکستانی ہیں یا ہو سکتا ہے کہ ان بیگم صاحبہ بھی پاکستانی ہوں۔ بیٹے اور باقی سب برطانوی شہری ہیں۔ بیٹا لندن میں سیاست کرتا ہے۔ والد پاکستان میں سیاست کرتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو برطانوی شہریت چھوڑ کر واپس پاکستانی شہریت لینے پر قائل نہیں کر سکے ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ اگر برطانیہ کو یہ اعتراض نہیں کہ ان کے بیٹے کا والد پاکستان میں سیاست کرے اور وہ برطانیہ میں کرے تو ہمیں اعتراض کیوں۔ لیکن یہ دلیل بھی پاکستان کے مخصوص حالات میں مجھے قائل نہیں کر پا رہی ہے۔

عام ارکان اسمبلی کے بچے بھی غیر ملکی ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر قومی اسمبلی سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے تو ہر دوسرے رکن اسمبلی کے بچے غیر ملک میں سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ وہ پاکستان میں سیاست کر رہا ہے اور بچے غیر ملکی ہیں۔ جب بچے باہر سیٹ ہوتے ہیں تو آپ کی دولت رہن سہن اور زندگی باہر سیٹ ہو جاتی ہے۔ پاکستان سے آپ کا جینا مرنا ختم ہو جاتا ہے۔

آپ دیکھیں اکثر ریٹائرڈ  فوجی افسران کی اولادیں بھی غیر ملکی شہری ہیں۔ ایسی ہی  بیوروکریسی کے بچے بھی باہر سیٹ ہو رہے ہیں۔ جس افسر کو دیکھیں اس نے اپنے بچے باہر سیٹ کر دیے ہیں۔ جس سے پوچھیں بچے کیا کرتے ہیں؟ جواب یہی ہوگا کہ بیرون ملک ہیں۔ میں پریشان اس لیے ہوں کہ جب صا حب اقتدار و اختیار اپنے بچوں کا مستقبل پاکستان میں محفوظ نہیں سمجھ رہے۔ تو میں اور آپ کس کھیت کی مولی ہیں

۔ جب پاکستان کے حکمران اپنے دور حکمرانی میں اپنے بچوں کو پاکستان میں رکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ تو میں اور آپ کیا کریں؟ جب پاکستان کے امرا اور رئیس اپنے بچوں کو پاکستان میں مزید کاروبار کرنے پر ترغیب دینے کے لیے تیار نہیں ہیں تو ہم کیا کریں گے؟ جنہوں نے پاکستان میں دولت کمانے میں لا زوال کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کے بچے بھی پاکستان کو اچھا نہیں سمجھ رہے۔ تو میرے اور آپ کے بچے کیا سمجھیں گے۔

اب تو ایک عام کلچر بن گیا ہے کہ میں ہوں پاکستانی اور میرے بچے ہیں غیر ملکی۔حال ہی میں معاونین خصوصی کی غیر ملکی شہریت پر بھی سوال اٹھے ہیں۔ میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ وہ پاکستان میں حکمرانی کرنے کے لیے تو بے تاب ہیں لیکن اس غیر ملکی شہریت چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کیا وہ پاکستان کے اقتدار اور حکمرانی سے غیر ملکی شہریت کو افضل کو سمجھتے ہیں؟ آخر کیوں؟

کیا پاکستان میں صاحب اقتدار و اختیار پر یہ لازم نہیں ہونا چاہیے کہ وہ پاکستان میں اختیار اور اقتدار کے مزے لوٹنے کے عوض مکمل پاکستانی رہیں گے۔ کیا پاکستان میں کسی بھی اہم پوسٹ پر پہنچنے کے لیے یہ لازم نہیں ہونا چاہیے کہ آپ، آپ کی بیگم اور آپ کے بچے پاکستانی ہوںگے۔

اگر کسی کے بچے غیر ملکی ہیں تو اس کو پاکستان میں نہ تو حق حکمرانی ہونا چاہیے اور نہ ہی صاحب اختیار ہونا چاہیے۔ صرف اس کا پاکستانی ہوناکافی نہیں۔ اس کے بچوں اور بیگم کا پاکستانی ہونا بھی لازمی ہونا چاہیے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی حکمران ہی پاکستان کی غربت اور پسماندگی کی اصل وجہ ہیں۔ جو اپنے بچوں کا پاکستان میں مستقبل محفوظ نہیں سمجھتا ، وہ میرے بچوں کا مستقبل کیا محفوظ بنائے گا۔ پاکستان پر حکمرانی اور اختیار کی اتنی قیمت تو سب کو ادا کرنی چاہیے۔

میری بات شاید قانون کے دائرے میں تو جائز نہ لگے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کس قانون کے تحت ہم لوگوں کے بالغ بچوں پر یہ قد غن لگا سکتے ہیں۔ جب بچے بالغ ہو جاتے ہیں تو خود مختار ہو جاتے ہیں۔ لیکن قانون کے دائرے اور مجبوریاں اپنی جگہ لیکن جن کے بچے پاکستان میں نہیں رہتے کیا وہ مکمل پاکستانی ہیں؟ یہ سوال مجھے بہت پریشان کر رہا ہے۔ کیا ہم ان کے ہاتھوں میں اپنا مستقبل محفوظ سمجھ سکتے ہیں؟ اس لیے ایسی قانونی راہیں تلاش کرنے کے لیے رائے ہموار کرنا ہوگی کہ ان صاحب اختیار اور اقتدار کے بچوں کو پاکستان میں رہنے پر مجبور کیا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔