تحریک انصاف کا اندرونی میچ

مزمل سہروردی  بدھ 9 ستمبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان تحریک انصاف کا سب سے بڑا مسئلہ  اندرونی اختلافات ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ تحریک انصاف حکومت کی ناقص کارکردگی کی بڑی وجہ اس کے اندرونی اختلافات ہیں۔ عمران خان ابھی تک اپنی حکومتی ٹیم کو ایک ٹیم بنا ہی نہیں سکے ہیں۔

کہیں نہ کہیں یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ ڈسپلن کی کمی نے ایک بے ہنگم سے کیفیت پیدا کر دی ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف کو نہ تو اپوزیشن اور نہ ہی اپنے اتحادیوں سے کوئی خطرہ ہے۔ لیکن پھر بھی اندرونی اختلافات نے ایک مضبوط حکومت کو کمزور بنایا ہوا ہے۔ مرکز میں دھڑے بندی، پنجاب میں دھڑے بندی اور کے پی میں بھی دھڑے بندی۔ یوں تینوں حکومتیں عملاً مفلوج ہیں۔

کچھ عرصہ قبل بعض وزراء میں اختلافات کی خبریں آئی تھیں۔ جس پر کافی باتیں بھی ہوئیں۔ ویسے فواد چوہدری بھی گاہے گاہے باز خواں کے عنوان میں طنز مارتے رہتے ہیں۔ جس سے سوچنے والوں کے کان کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اب تو ہم سب ان کے طنزیہ جملوں کے عادی ہو گئے ہیں۔وہ کبھی کے پی کی حکومت اور کبھی پنجاب حکومت پر بھی طنز کر جاتے ہیںتاہم سب ہی ان کا احترام کرتے اور  خاموش رہتے ہیں۔ پارٹی میںبھی کوئی تلخی پیدا نہیں ہوتی۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی اس کے عادی ہوگئے ہیں اور خاموش ہی رہتے ہیں۔

لیکن اب لگتا ہے اس بار میچ ذرا سخت پڑ گیا ہے۔ فواد چوہدری کی ایک میڈیا ٹاک سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی ہے۔ اس میں تحریک انصاف کے چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی موضوع گفتگو بنے ہیں۔ چوہدری صاحب چھوٹے موٹے طنزیہ جملے کہتے رہتے ہیں لیکن ان کے مدمقابل اس کا برا نہیں مناتے تھے اور بات کو ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ لیکن بعض حلقوں کے خیال میں سیف اللہ نیازی کی یہ شہرت ایسی نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے اندر ایک گروہ خوش ہوا کہ اب میچ ٹھیک پڑ گیا ہے، اب مزہ آئے گا۔

فواد چوہدری کو تو سب جانتے ہیں لیکن سیف اللہ نیازی کو صرف وہی جانتے ہیں جو یا تو عمران خان کے قریب رہے ہیں یا انھوں نے تحریک انصاف کی اندرونی سیاست کی ہے۔ سیف اللہ نیازی عمران خان کے ساتھ پہلے دن سے ہیں۔ لیکن جب پارٹی میں جیتنے والے امید وار آئے بلکہ اے ٹی ایم داخل ہوئے تو سیف اللہ نیازی نے یہ سب قبول نہیں کیا لیکن گزشتہ انتخابات میںان کا گروپ چھا گیا تو سیف اللہ نیازی خاموشی سے گھر چلے گئے اور عمران خان اور تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر لی۔ انھیں منانے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے مفاہمت کر نے سے انکار کر دیا۔

شائد وہ مفاہمت کے آدمی ہیں ہی نہیں۔ ان کا سخت اور خشک مزاج انھیں مفاہمت کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ لیکن جیسے ہی سرمایہ دار گروپ کے کمزور ہونے کا عمل شروع ہوا۔ عمران خان کو یہ باور کرایا گیا کہ انتخاب جیتنے کے چکر میں پارٹی کا نظریاتی کارکن نظر انداز ہو گیا تو عمران خان نے تحریک انصاف کی تنظیم نو کا فیصلہ کیا۔

پہلے مرحلہ میں ارشد داد کو سیکریٹری جنرل لایا گیا۔ لیکن وہ اکیلے یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ انھیں طاقتور ساتھی کی ضرورت تھی۔ پھر سیف اللہ نیازی کی پارٹی میں واپسی ہوئی۔ یہ واپسی کسی ٹارزن کی واپسی سے کم نہیں تھی۔ اگر کوئی ان کی بطور چیف آرگنائزر تعیناتی کا نوٹفکیشن پڑھ لے تو ایسے لگے گا عمران خان نے تمام اختیارات ان کے حوالے کر دئے ہیں۔ پارٹی کی نئی تنظیم سازی میں  الیکٹیبلزکو جگہ نہیں دی جارہی، ان کو ایک سوچ کے تحت تنظیم سازی سے دور رکھا جا رہا ہے۔

تحریک انصاف کی تنظیم سازی میں کرپشن اور پیسوں سے عہدے لینے کا معاملہ پہلی دفعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ پہلے بھی پیسوں کی بازگشت سنائی دی گئی ہے۔ اگر اس بار بھی ایسی بازگشت سنائی دے رہی ہے تو کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عمران خان نے تحریک انصاف کے اندر پارٹی عہدوں کی خریدو فروخت سے لے کر ٹکٹوں کی خریدو فروخت پر سخت احتساب کرنے کے بجائے نظر انداز کرنے کی پالیسی ہی رکھی ہے۔ بس یہی کہا گیا ہے کہ بات باہر گئی تو بدنامی ہو گی۔ اس لیے بات کو دبانے کی پالیسی رکھی گئی ہے حالانکہ سب کچھ زبان زد عام ہے۔ تاہم خیالی طور پر بدنامی کو بچا لیا گیا ہے۔

فواد چوہدری گروپ گزشتہ انتخاب میں جہلم   کی قومی اسمبلی کی دونوں سیٹیں جیت گیا تھا۔انھوں  نے صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیابی حاصل کی۔

اب نئی تنظیم سازی سیف اللہ نیازی اپنی مرضی سے کررہے ہیں۔ سیف اللہ نیازی اور فواد چوہدری دونوں کو سرنڈر کرنے کی عادت نہیں ہے۔ اس لیے میچ دلچسپ اور زبردست ہونے کے امکانات ہیں کیونکہ ابھی تک بیچ بچاؤ کرنے والی قوت سامنے نہیں آئی ہے۔لیکن آخر کار فائز بندی کا آپشن ہی کام آئے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔