یادوں کے جنازے

سعد اللہ جان برق  بدھ 9 ستمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

ایک وقت تھا کہ لوگ اپنی ’’حجامت‘‘ دوسروں سے کرواتے تھے، حقیقتاً بھی اور محاورتاً بھی۔سستا زمانہ تھا اس لیے اپنی حجامت بنوانے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی تھی لیکن

ہوئی اس دور میں منسوب ہم سے بادہ آشامی

پھرآیا وہ زمانہ جب جہاں میں جام جم نکلے

جام جم کی جگہ آپ حجام حجم بھی کہہ سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ حجامت بنوانے کا خرچہ بڑھ گیا تولوگ خود ہی استرے یا بیلڈ وغیرہ سے یعنی اس طرح یا اس طرح اپنی حجامت بنوانے لگے چنانچہ آج ہم بھی اپنی ’’حجامت‘‘خود بنوانے جارہے ہیں لیکن اس سے پہلے ’’خودحجامتی‘‘کا ایک حقیقہ۔ہمارے بزرگوں میں ایک باپ بیٹا انتہائی کنجوس تھے۔

اتنے زیادہ کہ اکثر باپ بیٹے میں کنجوسی کا مقابلہ ہوتاتھا اور دونوں ہی جیت جاتے تھے بلکہ اس شخص کی بیوی اور بیٹے کی ماں دونوں کو ہرادیتی تھی۔ چنانچہ جب حجامت پرخرچہ ہونے لگا توباپ بیٹے نے خاندان کے ملازمت پیشہ لوگوں سے کہا کہ شیو کرنے کے بعد ’’بلیڈ‘‘پھینکا مت کرو، ہمیں دیا کرو۔پھر باپ بیٹے آمنے سامنے چارپائی پربیٹھ جاتے، لکڑی کو چیر کر اس میں بلیڈ فٹ کرکے دھاگے سے باندھ دیتے اور اس ہوم میڈ استرے کولے کرایک دوسرے پر پل پڑتے،بلیڈ تو استعمال شدہ ہوتا تھا، اس لیے ساراکام زور بازو سے لیا جاتاتھا، نتیجے میں دونوں یوں لہولہان ہوجاتے جیسے تلواروں کی جنگ لڑ کر آئے ہوں۔

ایک دن ایک اجنبی عورت نے آکر دیکھا توچلانے لگی، اے لوگوں کہاں ہوتم۔آوبیچاروں نے توایک دوسرے کو لہولہان کردیا ہے اور تم چھڑاتے نہیں ہو۔جس طرح ان بیچاروں کی مجبوری تھی ویسی ہی ہماری بھی ہے۔ اب اگرکوئی ہماری خودنوشت یا آپ بیتی‘‘یادوں کے جنازے‘‘کی حجامت کرنے کوتیار نہیں ہے یا خود ہماری استطاعت نہیں ہے تواس کا مطلب یہ تونہیں کہ ہم خود بھی اپنی حجامت کرنے کی کوشش نہ کریں۔ اب یہ کہنا تومشکل ہے کہ ہم اپنی حجامت کیسے بناتے ہیں لیکن یہ یقینی ہے کہ حجامت کو بُری بھلی کرلیں گے لیکن خود کو لہولہان بھی کرلیں گے۔

حجام پر نہ میسرہوا تو خوب ہوا

سنان غیر سے کیا اپنا سرلہو کرتے

یادوں کے جنازے نام ہم نے اس لیے رکھا ہے کہ ہم نے جوش ملیح آبادی کی یادوں کی بارات پڑھی تھی لیکن اپنے پاس کوئی بارات نہیں تھی جنازے ہی جنازے تھے۔ اس لیے ہماری یادوں میں باراتوں کی جگہ صرف جنازے ہی آسکتے تھے۔اور آئے ہیں۔ان خواہشوں ارمانوں اور تمناوں کے۔جو یا توخود ہی مرگئے تھے۔

رگوں میں زہر کے نشتر اترگئے چپ چاپ

ہم اہل درد جہاں سے گزرگئے چپ چاپ

کچھ نے خودکشی کی، کچھ کوہم نے اپنے ہاتھوں کیفرکردار تک پہنچایا اور کچھ کوزمانے نے زندہ درگور کردیا۔

ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ

سنی نہ بات کسی نے تومرگئے چپ چاپ

ان جنازوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جومرگئے ہیں بلکہ ’’چکے‘‘ ہیں لیکن ابھی دفن نہیں ہوئے ہیں، خود کو بدستور اپنے کاندھوں پر ڈھوئے جارہے ہیں۔

پلٹ کے دیکھا توکچھ بھی نہ تھا ہوا کے سوا

جومیرے ساتھ تھے جانے کدھر گئے چپ چاپ

ایسے کچھ زندہ جنازوں کاہم نے اس میں ذکر کیا بھی ہے جو خود کو ابھی تک زندہ سمجھ رہے ہیں حالانکہ ان میں زندگی کی رمق تک بھی باقی نہیں ہے اور کسی بھی اینگل سے زندہ دکھائی نہیں دیتے۔اور ہمارے ساتھ تو…

دشت تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں

ہائے کیالوگ تھے جو ساتھ نبھانے نکلے

ویسے ہماری توقع بڑی حدتک سچ ثابت ہورہی ہے۔ ہم نے اس آپ بیتی کی ابتدا میں واضح کردیاتھا کہ خداکو حاضر ناظر جان کر توجھوٹ بولا جاسکتاہے بلکہ دنیا میں سارا جھوٹ خداکو حاضر ناظرجان کرہی بولا جاتا ہے لیکن اپنے آپ کو اپنے سامنے حاضر ناظر جان کر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جھوٹ بولنا،کم ازکم ہمیں نہیں آتا اور آپ کو یہ کہاوت تومعلوم ہوگی کہ۔سچ بولنا خود کو گالیاں دیناہے۔چنانچہ ہمیں پکا پکا یقین ہے کہ ہم نے اپنی حجامت خوب بنائی ہے اور وہ بھی کند بلیڈ سے،  اس لیے یقیناً آپ کو لہولہان دکھائی دیں گے بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ استرے بلیڈ اٹھا کر ہمیں مزید لہولہان کرنے دور پڑیں۔لیکن کوئی بات نہیں۔۔۔

درطریقت ہر کہ پیش سالک آئد خیراوست

درصراط مستقیم اے دل کے گمراہ نیست

یعنی راہ طریقت میں سالک کو جوبھی پیش آئے اسی میں اس کی خیرہے کہ صراط مستقیم میں کوئی گمراہ ہوہی نہیں سکتا ہے۔(یادوں کے جنازے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔