بندر والا

غلام عباس  اتوار 13 ستمبر 2020
بندر نے ان کرتبوں کے علاوہ اور بھی کئی تماشے دکھائے۔فوٹو : فائل

بندر نے ان کرتبوں کے علاوہ اور بھی کئی تماشے دکھائے۔فوٹو : فائل

میں شہر کے جس علاقے میں رہتا تھا، وہیں ایک صاحب بھی رہتے تھے۔ نام تو ان کا کچھ لمبا سا تھا مگر اس علاقے کے لوگوں میں وہ مسٹر شاہ کے نام سے یاد کیے جاتے تھے۔ وہ کسی دفتر میں اونچے عہدے پر فائز تھے اور ایک چھوٹے سے خوش نما بنگلے میں رہائش پذیر تھے۔ بڑے خلیق اور ملنسار معلوم ہوتے تھے کیونکہ ان کے بنگلے کے باہر صبح شام دو ایک موٹریں کھڑی نظر آیا کرتی تھیں۔

میں صبح کو ٹہلنے نکلتا تو کبھی کبھی ان سے ملاقات ہو جاتی، خصوصاً چھٹی کے روز۔ انہیں کسی طرح معلوم ہو گیا تھا کہ مجھے شعر و ادب سے لگاؤ ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ مجھ سے بڑے التفات سے پیش آتے اور اپنے بنگلے پر آنے کی دعوت دیتے۔ میں اسے ان کی خوش اخلاقی پر محمول کرتا اور ہمیشہ کچھ نہ کچھ بہانہ کرکے ٹال دیا کرتا، مگر ایک دن جو انہوں نے مجھے سہ پہر کی چائے پر مدعو کیا تو میں انکار نہ کر سکا۔

مجھے معلوم تھا کہ ان کا تین چار سال کا ایک صاحب زادہ ہے، جس کو میں نے کئی بار ان کی انگلی پکڑے ساتھ ساتھ چلتے دیکھا تھا۔ بڑا بھولا بھالا پیارا پیارا۔ میں نے بازار سے ٹافیوں اور چوسنے والی مٹھائیوں کی دو تھیلیاں خریدیں اور وقت مقررہ پر ان کے بنگلے پر پہنچ گیا۔

وہ غالباً میرے ہی منتظر تھے۔ خود پھاٹک پر مجھے لینے آئے اور میری آمد پر بڑی مسرت کا اظہار کیا۔ ڈرائنگ روم میں لے گئے اور ایک نرم اور آرام دہ صوفے پر مجھے بٹھایا۔ ڈرائنگ روم بڑے تکلف سے سجایا گیا تھا۔ قیمتی قالینوں، دیواروں پر خوش نما تصاویر، چینی کے ظروف، آرٹ کے نوادر، غرض ہر چیز ان کی خوشحالی کی غمازی کرتی تھی۔ اسی ڈرائنگ روم کے ایک گوشے میں ان کا صاحب زادہ چند بیٹری سے چلنے والے کھلونوں، موٹر، ہوائی جہاز، ٹینک وغیرہ سے کھیلنے میں مشغول تھا۔ اس کو دیکھ کر مسٹر شاہ نے کہا، ’’مانی، دیکھو انکل آئے ہیں، انہیں سلام کرو۔‘‘ لڑکا چونکا اور جلدی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ مگر اس کی نظریں ابھی تک کھلونوں پر گڑی تھیں۔

’’مانی بیٹے سلام کرو انکل کو۔ شاباش۔‘‘ لڑکے نے باپ کی طر ف دیکھا، پھر اپنے ننھے منے ہاتھ سے پیشانی کو چھو کر مجھے سلام کیا۔ میں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ٹافیوں اور چوسنے والی مٹھائیوں کی تھیلیاں اسے دے دیں۔

’’انکل کو تھینک یو کہو مانی۔‘‘ لڑکے نے کچھ تامل کیا۔

’’دیکھو انکل تمہارے لیے کیسی اچھی اچھی سوئیٹس لائے ہیں۔ انہیں تھینک یو کہو۔ شاباش!‘‘ آخر لڑکے نے اپنی باریک آواز میں آہستہ سے تھینک یو کہہ ہی دیا۔ میں نے دوبارہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔

’’ماشاء اللہ بڑا پیارا ہونہار بچہ ہے۔ خدا عمر دراز کرے۔‘‘ بچہ چند لمحے شرمیلے پن سے سر جھکائے کھڑا رہا۔ پھر وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا ڈرائنگ روم سے باہر جانے لگا۔ مگر مسٹر شاہ نے فوراً اسے روکا، ’’تم نے انکل کو اپنا نام تو بتایا ہی نہیں۔‘‘ بچہ رک گیا۔ وہ گھر میں ایک اجنبی کو دیکھ کر کچھ گھبرا سا گیا تھا۔

’’شاباش، شاباش، بتاؤ اپنا نام۔‘‘ لڑکے نے پہلے باپ کے چہرے کی طرف دیکھا، پھر نظریں نیچی کر کے اپنی باریک آواز میں آہستہ سے کہا، ’’خاکسار کو امان اللہ شاہ کہتے ہیں۔‘‘ مسٹر شاہ کا چہرہ کھل اٹھا۔ اتنے میں ایک خاتون ہلکے سبز رنگ کی ساڑھی میں ملبوس ڈرائنگ روم میں تشریف لائیں۔ قدرے شوخ میک اپ کیا ہوا، جس کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ خاصی قبول صورت تھیں۔ عمر میں وہ مسٹر شاہ سے، جو چالیس کے پیٹے میں معلوم ہوتے تھے ، یقیناً آٹھ دس برس چھوٹی ہوں گی۔ مسٹر شاہ نے میری ادبی صلاحیتوں کے بارے میں کچھ زیادہ ہی مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہوئے اپنی بیگم سے میرا تعارف کرایا جس پر انہوں نے بڑے ادب سے مجھے سلام کیا۔ میں نے اپنی منکسر المزاجی کو ایک ہلکی سی مسکراہٹ سے ظاہر کرتے ہوئے ان کے سلام کا جواب دیا اور وہ ڈرائنگ روم ہی میں ایک بڑی سی میز پر چائے کے برتن سجانے میں مصروف ہو گئیں۔

میں نے مسٹر شاہ سے پوچھا، ’’آپ کا صاحب زادہ ماشاء اللہ بہت ذہین ہے، کس نرسری اسکول میں جاتا ہے؟‘‘

’’ابھی تو کسی میں بھی نہیں۔ میں گھر پر خود ہی اس کو پڑھاتا ہوں۔ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ شروع ہی سے اسے پڑھنے کا شوق پیدا ہو جائے۔ مانی بیٹے، ذرا انکل کو، اے بی سی تو سناؤ۔‘‘ رفتہ رفتہ لڑکے کی جھجک دور ہوتی جا رہی تھی۔ اب کے اس نے بغیر شرمائے اے سے لے کر زیڈ تک پوری اے بی سی فرفر سنادی۔ اس دوران میں وہ دو ایک بار رکا بھی مگر باپ کی صورت دیکھتے ہی اسے اپنا آموختہ جلد ہی یاد آ جاتا تھا۔ اب تو مسز شاہ بھی خاصی بے تکلفی سے باتیں کرنے لگی تھیں۔

’’صاحب کیا بتاؤں، مسٹر شاہ کو تو بس یہی دھن ہے کہ لڑکے کو اسکول بھیجنے سے پہلے ہی لائق فائق بنا دیں۔ اس کی چوتھی سالگرہ میں بس چند ہی مہینے رہ گئے ہیں، اس کے بعد وہ اسکول جانے لگے گا۔ مسٹر شاہ چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے ہی اردو کے کچھ مشہور شعر بھی اسے یاد کرا دیں، اور کچھ تو یاد کرا بھی دیے ہیں۔ غالب کا وہ کون سا شعر تھا جو۔۔۔‘‘ میں نے جلدی سے قطع کلام کرتے ہوئے کہا، ’’معاف کیجیے گا بیگم صاحب! آپ کا صاحب زادہ بے شک بہت ذہین ہے، مگر بے چارہ اس وقت بہت تھک گیا ہوگا۔ میں وہ شعر کسی اور روز سن لوں گا۔‘‘ مسز شاہ بولیں، ’’اجی آپ تھکنے کو کہتے ہیں۔ مسٹر شاہ تو صبح صبح ہی اسے اٹھا کر بٹھا دیتے ہیں، اپنے ساتھ ہواخواری کو لے جاتے ہیں۔ اپنے ساتھ ورزش کراتے ہیں، اور ورزش بھی سخت قسم کی۔ وہ جو جاپانی کشتی جوڈو کراٹے کہلاتی ہے، اس کے بھی تو کچھ داؤ پیچ سکھاتے ہیں۔۔۔‘‘

چائے کے دوران بھی گفتگو کا موضوع زیادہ تر ان کا صاحب زادہ ہی رہا۔ آخر جب کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد میں مسٹر شاہ کے بنگلے سے نکلا تو مجھے بڑی تھکاوٹ معلوم ہو رہی تھی۔ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا تھوڑی ہی دور چلا تھا کہ ایک جگہ سڑک سے ہٹ کر میں نے ایک مجمع دیکھا جس میں بوڑھے، بچے، جوان سبھی دائرہ باندھے کھڑے تھے۔ ان کے قہقہوں کی آوازیں سن کر میرے قدم خود بخود اس مجمع کی طرف اٹھنے لگے۔ دیکھتا کیا ہوں کہ بندر کا تماشا ہو رہا ہے جسے تماشائی بڑے ذوق و شوق سے دیکھ رہے ہیں۔ بندر ایک چھوٹی سی سرخ رنگ کی انگریزی ٹوپی پہنے تھا جسے بندر والے نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ڈوریوں سے باندھ دیا تھا۔ وہ پچھلے پاؤں پر انسانوں کی طرح سیدھا کھڑا تھا اور دونوں ہاتھ کولہوں پر رکھ کر خوب مٹک مٹک کر اور اکڑ اکڑ کے ادھرسے ادھر اور ادھر سے ادھر چل رہا تھا۔ ساتھ ساتھ بندر والا ڈگڈگی بجا بجا کے کہے جا رہا تھا۔

’’بس پلپلی صاحب۔ بہت ہو چکی کلفٹن کی سیر۔ اب گھر کو سدھارو۔۔۔ لو صاحب بہادر تمہاری میم صاحب تو ناراض ہو کر ولایت چلی گئیں۔ اب تمہیں روٹی پکا کے کون کھلائے گا۔۔۔؟ کیا کہا خود پکاؤگے؟ وہ کیسے۔۔۔؟ بھئی واہ صاحب بہادر واہ تم روٹی پکانا تو خوب جانتے ہو۔۔۔ کیا کہا دشمن سے لڑوگے۔ لڑوگے۔۔۔! بندوق چلانی آتی ہے۔۔۔؟ لو یہ رہی تمہاری بندوق۔۔۔ اب کھڑے ہو کر نشانہ باندھو۔ شاباش۔۔۔ اب لیٹ کر نشانہ باندھو۔۔۔ بہت ٹھیک۔۔۔ شاباش! شاباش۔۔۔! ارے یہ کیا؟ ہوائی جہاز کو نشانہ بنانا چاہتے ہو۔۔۔؟ بھئی تم تو بڑے بہادر نکلے۔ تم نے تو سچ مچ دشمن کو بھگاہی دیا۔‘‘

بندر نے ان کرتبوں کے علاوہ اور بھی کئی تماشے دکھائے۔ مثلاً سرکو ہلا کر ہاں یا نہیں کا اشارہ کرنا، ہوا میں قلابازی لگانا، شیک ہینڈ کرنا، دونوں ہاتھوں کے بل الٹا ہو کر چلنا، کانوں کو ہلانا وغیرہ۔ ان کرتبوں کے دوران بندر کبھی کبھی دانت کچکچانے یا چڑچڑانے لگتا مگر بندر والے کی لکڑی، رسی کا جھٹکا اور آنکھ کا اشارہ جلد ہی اسے راہ پر لے آتا تھا۔ بندر کا تماشا تو میں نے زندگی میں بیسیوں مرتبہ ہی دیکھا ہوگا مگر جو مزہ آج مجھے اس تماشے کے دیکھنے میں آیا، پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ میری کلفت دور ہو چکی تھی۔ جب میں گھر لوٹ رہا تھا تو اچانک میرے ذہن میں یہ سوال ابھرا۔۔۔ بندر والا تو ڈگڈگی بجا کر تماشائی اکٹھے کر لیتا ہے۔ کیا مسٹر شاہ کو اس مقصد کے لیے ہمیشہ دعوتوں ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے؟

۔۔۔

آنندی جیسی خوبصورت کہانی کے لیے مشہور غلام عباس 17 نومبر 1909 کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ لاہور سے انٹر اور علوم مشرقیہ کی تعلیم حاصل کی۔ 1925 سے لکھنے کا سفر شروع کیا۔ ابتدا میں بچوں کے لیے نظمیں اور کہانیاں  لکھیں جو کتابی صورت میں دارلاشاعت پنجاب لاہور سے شائع ہوئیں اور غیر ملکی افسانوں کے اردو میں ترجمے کیے۔ 1928 میں امتیاز علی تاج کے ساتھ ان کے رسالے’ پھول‘ اور’ تہذیب نسواں‘میں معاون مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1938 میں آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہو گئے۔

ریڈیو کے ہندی اردو رسالے ’آواز‘ اور’ سارنگ‘ انھیں کی ادارت میں شائع ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے۔اور ریڈیو کے رسالے ’آہنگ‘ کی ادارت کی۔ 1949 میں کچھ وقت مرکزی وزارت واطلاعات ونشریات سے وابستہ ہوکر بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر  پبلک ریلیشنز کے خدمات انجام دیں۔ 1949 میں ہی بی بی سی لندن سے بطور پروگرام پروڈیوسر وابستہ ہوئے۔

1952 میں واپس پاکستان لوٹ آئے اور ’آہنگ ‘ کے ادارتی امور سے وابستہ ہوگئے۔ 1967 میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔یکم نومبر 1982 کو لاہور میں انتقال ہوا۔ غلام عباس کا نام افسانہ نگار کی حیثیت سے انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام سے کچھ پہلے احمد علی ، علی عباس حسینی، حجاب امتیاز علی، رشید جہاں وغیرہ کے ساتھ سامنے آیا۔ اور بہت جلد وہ اپنے وقت میں ایک سنجیدہ اور غیر معمولی افسانہ نگار کے طور پر تسلیم کر لیے گیے۔

غلام عباس  نے خیر وشر کے روایتی تصور سے اوپر اٹھ کر انسانی زندگی کی حقیقتوں کی کہانیاں لکھیں۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’آنندی‘1948 میں مکتبہ جدید لاہور سے شائع ہوا اور دوسرا مجموعہ ’جاڑے کی چاندنی‘ جولائی1960 میں۔تیسرا اور آخری مجموعہ’ کن رس‘ 1969 میں لاہور سے شائع ہوا۔ ان کے علاوہ’ گوندنی والا تکیہ ‘ کے نام سے ان کا ایک ناول بھی منظر عام پر آیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔