پاکستانی معاشرہ اور تعلیم و تربیت کا فقدان

محمد عبدالرحمٰن فاروقی  جمعرات 15 فروری 2024
اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو معاشرہ ترقی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو معاشرہ ترقی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کسی بھی قوم کی شناخت اس کی تہذیب اور تعلیم و تربیت سے ہوتی ہے۔ آج پاکستان سمیت تقریباً تمام ہی مشرقی ممالک میں مغربی ممالک کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مغربی تعلیم سے آراستہ افراد کےلیے ملازمت کے مواقع بھی زیادہ ہوتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ تربیت معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ اور تربیت نہ ہونے سے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں۔ ماضی میں بڑے بزرگ اعلیٰ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے تھے اس کے باوجود بھی اپنے بچوں کی اچھی تربیت کیا کرتے تھے۔ بچوں کے اٹھنے بیٹھنے، کھانے پینے کے آداب پر خاص توجہ دیتے تھے۔ بچوں کو بتایا جاتا تھا بڑوں کا ادب کیسے کرنا ہے۔ لیکن اب معاشرے میں ان تمام باتوں کی کمی واضح نظر آتی ہے۔

پاکستان میں ہر دوسرا شخص مغربی ممالک کی باتیں کرتا ہے۔ ہر چیز میں مغرب کی مثال دی جاتی ہے۔ ملک کے حکمران بھی اپنی تقاریر میں سیاسی مخالفین کو آڑے ہاتھوں لینے کےلیے بھی مغرب کی ہی مثالوں کا سہارا لیتے ہیں۔

پاکستان آزاد ہونے کے بعد ملک کو درپیش دیگر مسائل کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ معاشرے کی تعلیم و تربیت تھی۔ بدقسمتی سے اس ملک میں تعلیم کو منافع بخش کاروبار بنالیا گیا لیکن تربیت کو کوسوں دور چھوڑ دیا گیا۔ ملک میں مغربی تعلیم کے فروغ کےلیے بڑے بڑے اسکول کھول دیے گئے۔ ان بڑے اسکولوں میں بھاری بھرکم فیسیں تو وصول کی جانے لگیں لیکن طلبا کی تربیت کہیں ہوتی نظر نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی نسل نو سماجی برائیوں اور اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے۔

بچوں کی شخصیت میں اخلاقی بحران اور تہذیبی اقدار کی قلت کی سب سے بڑی وجہ ان کے والدین کی غفلت ہے۔ ماں باپ اپنے مسائل میں مصروف ہیں۔ تیزی سے دوڑتی زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے میں وہ اپنے بچوں کو فراموش کیے جارہے ہیں۔ بچوں اور والدین میں سماجی دوری کی ایک اور بڑی وجہ موبائل فون بھی بن چکا ہے۔

ہر گھر کی یہی کہانی ہے۔ ایک ہی کمرے میں والدین اور بچے اپنے اپنے موبائل فونز میں اِک دنیا سے تو رابطے میں ہوتے ہیں مگر ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتے ہیں۔ کئی والدین اپنی مصروفیات کے باعث خود اپنے بچوں کو موبائل فون کی لت میں مبتلا کردیتے ہیں۔ بچے اپنا جی بہلانے کےلیے کارٹونز یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجود مواد کا سہارا لیتے ہیں۔

آج کے دور کی اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ والدین جہاں اپنے بچوں کو تعلیم کےلیے اعلیٰ ترین، مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں داخل کراتے ہیں وہاں وہ اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ کیا اس درسگاہ میں بچے کی تعلیم کے ساتھ تربیت بھی کی جارہی ہے یا نہیں۔ گھروں میں والدین خاص کر مائیں بچوں کی زبان اور ادب و آداب پر نظر رکھیں۔ یہ دنیا کا مانا ہوا اصول ہے کہ اگر تعلیم کے ساتھ تربیت نہ ہو تو معاشرہ ترقی کی سیڑھی نہیں چڑھ سکتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔