بُک شیلف

رضوان طاہر مبین  اتوار 13 ستمبر 2020
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو:فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو:فائل

خاکے ہیں کہ سلاست کا ’کارواں‘


سید انیس شاہ جیلانی کیا خوب جملے سے جملہ نکالتے ہیں، انہوں نے ’خاکے‘ کیا لکھے، ایک تاریخ رقم کر دی، شخصی لوازمات اور اس وقت کے حالات وواقعات سے مل کر اُن کے قلم سے جو ’روشنائی‘ نکلی ہے‘ وہ ان خاکوں میں اپنی ایک خاص ادا کے ساتھ لفظوں کی مجسم صورت میں رواں دواں محسوس ہوتی ہے۔۔۔ ایک جملہ اگلے جملے کو اس طرح جنم دیتا ہے کہ فقرے سے فقرہ جڑا چلا جاتا ہے، لیکن وہ اپنے قاری کو کہیں بھی طویل جملے کا بوجھل پن محسوس نہیں ہونے دیتے۔

وہ ’شخصیات‘ کا خاکہ تو لکھتے ہیں، لیکن ساتھ ہی اپنے تبصرے کی سلاست کا ایک کارواں بھی ہے، جس کے کیا ہی کہنے ہیں۔۔۔ ’آدمی غنیمت ہے اور آدمی آدمی انتر‘ یہ دو کتب ’زندہ کتابیں‘ کے سلسلے میں راشد اشرف نے ایک جلد میں جوڑی ہیں۔ پہلی کتاب میں نیاز فتح پوری، شاہد احمد دہلوی، غلام رسول مہر، رئیس امروہوی، زاہدہ حنا وغیرہ شامل ہیں۔ ہر خاکے کے لیے الگ عنوان استوار کیا گیا ہے، جب کہ دوسری کتاب، جسے ’کتاب چہ‘ کہنا بجا ہوگا۔

اس میں نہایت اختصار سے ابو الکلام آزاد، امتیاز علی تاج، چراغ حسن حسرت، جواہر لعل نہرو، جگر مراد آبادی، حاجی لق لق، شوکت تھانوی سمیت 17 شخصیات ان کے نوک قلم کی زینت بنی ہیں۔ یہ خاکے اتنے مختصر ہیں کہ بعض شخصیات کے ذیل میں فقط چند سطروں کا ہی تکلف کیا گیا ہے۔ 325 صفحات پر مشتمل یہ کتاب فضلی بک سپر مارکیٹ، کراچی (021-32633887) نے شایع کی ہے، قیمت 500 روپے ہے۔

’بیتے کراچی‘ پر ایک ضخیم حوالہ


آپ شہر قائد کے کس علاقے سے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔۔۔؟ اگر آپ کو کراچی کے کسی علاقے کی وجۂ تسمیہ، تاریخ اور پس منظر سے متعلق معلومات چاہئیں، تو اس ضخیم دستاویز میں اس سے متعلق کچھ نہ کچھ مواد تو ضرور بالضرور مل ہی جائے گا۔۔۔ ورق گردانی کیجیے، تو یہ فقط کراچی کی کتھا نہیں، بلکہ اس میں تو پورے برصغیر پاک وہند کا بیان سمٹا جاتا ہے۔۔۔ تقسیم کسے قبل یہاں بسنے والے ہندوستان کے دیگر علاقوں کے لوگوں کا ذکر بھی ہے، تو بٹوارے کے ہنگام ہندوستان کے اقلیتی علاقوں سے ہجرت کرنے والے مہاجروں کا بیان بھی۔۔۔

اِن اوراق میں یہاں سے جانے والوں کے رِیت رواج اور ناموں کی بازگشت سنائی دے گی، تو قیام پاکستان کے لیے قربانیاں دینے والے ’ستم زدوں‘ کے رکھ رکھائو کا منظر بھی خوب سجا دکھائی دے گا۔۔۔ یہ ذکر ہے اقبال اے رحمٰن مانڈویا کی مرتب کردہ کتاب ’اِس دشت میں اِک شہر تھا‘ کا، جسے کراچی کے سنہرے دنوں کی داستان لکھا گیا ہے۔ بعد کے زمانوں میں جو اس عروس البلاد کی مانگ ’لہو رنگ‘ ہوئی، تو اس حساب سے یہ ایسا کچھ غلط بھی نہیں۔۔۔ یہ دراصل سماجی ذرایع اِبلاغ کی ایک ویب سائٹ ’فیس بک‘ پر تشکیل پانے والی تحریروں کی کتابی صورت ہے۔۔۔ 800 صفحات میں کراچی کے طول وارض اور ان کی تاریخ اور واقعات سموئی ہوئی۔

اس کتاب کی قیمت دو ہزار روپے ہے۔ زیک بکس (03008224645) کے زیراہتمام شایع ہونے والی اس کتاب میں حر ف تہجی کی ترتیب سے مشمولات کے علاقوں کی فہرست بھی دی گئی ہے، جو قارئین ومحققین کے لیے کافی سہولت کا باعث ہے۔

جن کی گفتار سے جوشؔ کو بھی لطف آیا


یہ گئے وقتوں کی دلی کی ایک عجیب وغریب اور منفرد سی شخصیت کا قصہ ہے۔۔۔ تھے تو وہ ایک ’عالمِ دین‘ اور ایسے کہ وہاں سید ابوالاعلیٰ جیسے لوگ زانوئے تلمذ طے کیا کیے۔۔۔ جو بولنے پر آئے، تو جوش ملیح آبادی جیسا قادر الکلام لطف اٹھائے۔۔۔ اور برہمی پر آئے تو ’شیطان کی کھڈی‘ کہہ کر ’جوش‘ کے ہی کان کھینچ لے۔۔۔ جس کی خود داری اور دبدبے کا عالم یہ کہ مولانا ابو الکلام آزاد آتے ہیں، تو اجازت نہیں ملتی، ’نظامِ حیدر آباد‘ میر عثمان کا ایلچی ان کے کواڑ پر آتا ہے، تو وہ بھی اپنے ’عالی جاہ‘ کے لیے مرصع انداز میں دی گئی ’دھتکار‘ لیے لوٹتا ہے۔

گوشہ نشینی ایسی ہے کہ برسوں اپنے گھر تک محدود رہے۔۔۔ ’جنات‘ کی پراسراری لیے ہوئے یہ مولانا عبدالسلام نیازی کا قصہ ہے۔۔۔ نظریۂ ’وحدت الوجود‘ کے قائل، روحانی مراتب کی حامل یہ شخصیت ایسی تھی، جس نے ’علمائے سو‘ سے مشابہت سے بچنے کو اپنی داڑھی مونڈھ ڈالی۔۔۔ یہ عجیب بات ہے کہ اپنے زمانے کا اتنا بڑا صاحب علم کچھ لکھ نہیں سکا۔

البتہ بولنے پر آیا تو اپنی برہمی کے لیے ’ناریل چٹخنا‘ جیسا تکیۂ کلام ایجاد کیا اور پھر عالم جلال میں ایسی ’علمی مغلظات‘ اور گالیوں کا باب کھلتا ہے کہ ماہرلسانیات اور لغات اپنے ’دفتر‘ لیے بیٹھ جائیں۔ ’زندہ کتابیں‘ والے راشد اشرف نے 262 صفحات کی اس کتاب میں ملا واحدی، شاہد احمد دہلوی، جوش ملیح آبادی سے لے کر حیدر فاروق مودودی وغیرہ تک کی یادیں اور مضامین جمع کیے ہیں۔ فضلی بک سپر مارکیٹ، کراچی (021-32633887) سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔

’لفاظی‘ سے دور کالموں کا مجموعہ


’خاص لوگ‘ انور عباس انور کے اخباری کالموں کا مجموعہ ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے اس کتاب کا عنوان ’خاص لوگ‘ کیوں رکھا۔۔۔ شاید اس کا سبب یہ ہو کہ ان کے بیش تر کالموں میں کسی نہ کسی شخصیت سے خطاب کیا گیا ہے۔۔۔ ہو سکتا ہے وہی ’خاص لوگ‘ مراد ہوں۔ ان کالموں کی سب سے بڑی خوبی اختصار ہے۔۔۔ اپنا نقطۂ نظر پہنچانے کے لیے ’کالم نگار‘ نے کہیں بھی کالم کا ’پیٹ بھرنے‘ کی سعی نہیں کی۔

اس لیے ان کے کالم بے تکلفی سے شروع ہو کر ایک بے لاگ تبصرے کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں۔۔۔ یوں وہ اپنے دیگر ہم عصروں کی طرح کسی بھی طرح کی ’لفاظی‘ بہ الفاظ دیگر ’ملمح کاری‘ کے الزام سے کوسوں دور ہیں، لیکن دوسری طرف ان کے کسی بھی کالم کے آخر میں تاریخِ اشاعت موجود نہیں ہے۔

اخبار میں چھپنے والا ایک کالم تو اپنے آپ میں خود کہہ دیتا ہے کہ اس کی کس بات کا کیا مطلب ہے، اس لیے اشارتاً باتیں بھی اچھا خاصا اِبلاغ کر جاتی ہیں، لیکن جب اخباری تحریریں کسی کتاب، رسالے یا تحقیق کا حصہ بنتی ہیں، تو اس کا نصف حوالہ اور اِبلاغ تو اس کی ’تاریخِ اشاعت‘ ہوتی ہے۔۔۔ کیوں کہ وقت بدلنے کے ساتھ حالات بھی تبدیل ہوتے ہیں۔۔۔ بعض اوقات نہیں پتا چل پاتا کہ کوئی بات ماضی کے کس واقعے کے پس منظر میں کہی گئی یا اُس وقت کیا حالات تھے؟ تاہم ’تاریخِ اشاعت‘ سے یہ ساری معلومات ہو جاتی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ’موجودہ صورت حال‘ کا مطلب، وزیراعلیٰ پنجاب ، اور صرف ’مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس‘ لکھ دینے سے بات کافی مبہم محسوس ہوئی۔۔۔ اس لیے ’کالموں‘ کی کتابی صورت میں ’حوالے‘ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، امید ہے اس جانب توجہ کی جائے گی۔۔۔ 320 صفحات کی اس مجلد کتاب کی قیمت 400 روپے ہے اور اشاعت کا اہتمام ’خاص لوگ پبلی کیشنز‘ لاہور (0300-4597873)نے کیا ہے۔

گیت نگاری پر ایک دقیق مقالہ


ڈاکٹر بسم اللہ نیاز احمد صاحبہ کا یہ 1986ء کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ راشد اشرف کی نکتہ رَس نگاہ میں سمایا اور انہوں نے اس کی اشاعت کا بیڑہ اٹھایا۔۔۔ یوں 800 صفحات کی یہ ضخیم تحقیق ’زندہ کتابیں۔68‘ کے تحت شایع ہوگئی۔۔۔

گیتوں کی ماہیت، ان کی تخلیق، علاقہ، پس منظر، موضوعات، رنگ ڈھنگ، مواقع سے لے کر ان کے معلوم لکھک وغیرہ تک تمام لوازمات پائے جاتے ہیں۔۔۔ لوگ گیت ویسے تو برصغیر پاک وہند کیا دنیا کی ہر تہذیب اور زبان میں موجود ہوں گے۔۔۔ اردو کا دامن بھی اس سے خالی نہیں۔۔۔ اردو لسانیات کی تاریخ اور گیت نگاری سے شغف رکھنے والوں کے لیے یہ ایک تحفہ ہے۔۔۔ گیت فقط کھیل کود یا جدید زمانے کی فلموں کا ہی لازمی جزو نہیں، یہ تو ننھے بچے کی لوری کی صورت میں آنکھ کھولتے ہی ہمارے سماج اور صبح وشام کا حصہ بن جاتے ہیں، پھر شادی بیاہ اور ساون رتوں میں تو گیتوں کی ایک بہار موجود ہے، پنگھٹ سے لے کر شادی بیاہ تک۔۔۔ یہاں تک کے ’جلاپے‘ تک کے گیت بھی اپنا وجود رکھتے ہیں۔

علی گڑھ گرلز کالج میں اردو کی لیکچرر رہنے والی بسم اللہ نیاز کا تعارف بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ نے لکھا ہے، جب کہ پیش لفظ ڈاکٹر جمیل جالبی جیسے محقق کے قلم سے محفوظ ہوا ہے۔ 13 ابواب پر مشتمل اس مقالے کی اشاعت فضلی بک کے تحت ہوئی ہے، اور قیمت حیرت انگیز طور پر فقط 400 روپے رکھی گئی ہے۔

آنکھ نے کیا کیا دیکھا۔۔۔؟


’’آنکھ جو دیکھتی ہے‘‘ نسیم انجم کے اُن کالموں کا مجموعہ ہے، جو روزنامہ ایکسپریس کی زینت بنتے رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ برسوں میں شایع ہونے والے ان کالموں کا بٹوارا ’سیاسیات‘ ’ادبیات‘ اور ’سماجیات‘ کے زمروں میں کیا گیا، ایک حصہ ’انٹرویو‘ کا بھی ہے، جس میں ڈاکٹر سلیم اختر، پروفیسر سحر انصاری، ستیہ پال آنند، نند کشور وکرم اور دیگر کچھ شخصیات سے گفتگو شامل ہے، جس کے بارے میں یہ واضح نہیں ہے کہ یہ انٹرویو کالموں میں شایع ہوئے یا الگ سے منصۂ شہود پر آئے، تاہم ایک انٹرویو پر مکمل تاریخ اور ’نوائے وقت‘ کا حوالہ درج ہے۔ ’الجلیس پاکستانی بکس بپلشنگ‘ کے ’ایکسپریس‘ میں شایع ہونے والے کالموں کا مجموعہ ہے۔

608 صفحات کی مجلد کتاب کی قیمت 700 روپے ہے۔ پروفیسر خیال آفاقی مجموعے کے بعض کالموں کو ’شہ پارہ‘ قرار دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کے بقول سالہا سال سے وہ اپنے قلم کے ذریعے اسلامی طرزفکر اور حب الوطنی کے محاذ پر مصروفِ جہاد ہیں۔ فلیپ بہ عنوان ’نسیم انجم کے کالم سوتے ہوئے ضمیر کو جگاتے ہیں‘ میں ممتاز محقق خواجہ رضی حیدر رقم طراز ہیں کہ کسی بھی قلم کار کا، چاہے وہ ادب وشعر سے تعلق رکھتا ہو یا صحافت سے، سب سے بڑا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے قاری کو اس مقام فکر تک لے آئے جہاں کھڑا وہ خود سوچ رہا ہے۔

اک دیے کا جلنا بھی موت ہے۔۔۔


سابق پرنسپل عبداللہ کالج رضیہ سحان کی یہ پانچویں تصنیف ہے، جس میں غزلیں، اشعار اور آزاد نظمیں شامل ہیں۔ کتاب ’آگہی کی منزل‘ کو محمود شام اردو شاعری میں خوش گوار اضافہ قرار دیتے ہیں، وہ لکھتے ہیں ’اس میں شعریت کی پوری لذتیں۔ الطاف۔ اوصاف بھی ہیں اور اپنے عہد کا آشوب بھی۔ ممتاز مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی کہتے ہیں کہ رضیہ سبحان کی نظموں میں فکر کی گہرائی اور مشاہدے کی گیرائی پائی جاتی ہے۔

موضوعات کے انتخاب میں خاصی باریک بینی کا ثبوت دیا گیا ہے۔ اس سے قبل رضیہ سبحان کے آنے والے چار شعری مجموعوں میں ’سرد آگ‘ (1997ء)، ’خاموش دستک‘ (2002ء)، سیپیاں محبت کی (2006ء) اور ’مکاں لامکاں‘ (2015ء) شامل ہے۔ زیر نظر شعری مجموعہ ویلکم بک پورٹ، کراچی (021-32639581) سے شایع ہوا ہے۔ مجموعے میں شامل یہ شعر بھی کیا خوب ہے؎یہ کہاں ضروری ہے ہر چراغ ہو روشن
اک دیے کا جلنا بھی موت ہے اندھیرے کی

جہاں تہذیبیں زندگی کرتی تھیں


’سفرنامہ ہند‘ ہندوستان کا ایک ایسا سفر ہے، جو اپنے قاری کا ہاتھ تھام کر برصغیر کی اُس نگری کی قریہ قریہ اور گلی گلی لے جاتا ہے، جہاں کبھی تہذیبیں زندگی کرتی تھیں۔ لکھنے والا یہاں بار بار ٹھیر کر کبھی کسی بازار، کسی مزار، کسی قدیمی محلے، عمارت، کسی قلعے اور کسی نکڑ پر توجہ مرکوز کراتا ہے کہ ذرا دیکھو تو، یہ نشان ماضی کے اس واقعے کی یاد دلاتا ہے اور یہاں پچھلے وقتوں میں یہ سب کچھ بیتا تھا۔۔۔ یہ کچھ اچھا ہوا اور یہ نہیں، اور ساتھ ہی آج اس کی یہ حالت ہوگئی ہے۔ پروفیسر محمد اسلم کے 1995ء میں شایع ہونے والے اس سفرنامے کو بھی راشد اشرف نے اپنے سلسلے ’زندہ کتابیں‘ کے لیے چنا ہے۔

اس میں گجرات، دکن، دلی اور یوپی سے لے کر بہار اور بنگال تک کے ’نظارے‘ ہیں تو پنجاب اور نینی تال تک کا احوال بھی خوب درج ہے۔ واقعات، تاریخ، جغرافیہ، تنازعات، شخصیات اور ان سے جڑے اہم اور دل چسپ قصے اور مختلف حقائق اسے ایک اچھی خاصی معلوماتی دستاویز کا روپ دے دیتی ہے۔ 520 صفحات کی یہ کتاب ’بزم تخلیق ادب‘ کے تحت شایع ہوئی ہے، فضلی بُک اردو بازار کے علاوہ ’اٹلانٹس پبلی کیشنز (021-32472238) سے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

’عہدِ سب رنگ‘ پر ایک دستاویز


ہم اس عہد میں جن شخصیات کی موجودگی پر بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں، شکیل عادل زادہ بھی ایک ایسا ہی نام ہیں۔۔۔ اردو پڑھنے والوں میں آج بھی ایک دنیا ان کے نام کی اسیر ہے۔۔۔ ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ اور مقبول سلسلے ’بازی گر‘ کے روح ورواں شکیل بھائی شخصیت کیا ہیں۔

واقعتاً پوری ایک انجمن ہیں۔۔۔ نوجوان صحافی اور افسانہ نگار اقبال خورشید کی ادارت میں جلوہ افروز ہونے والے کتابی سلسلے ’اجرا‘ 28 نے ’شکیل بھائی‘ کے تذکرے سے خود کو منور کیا ہے۔۔۔ تاہم اس کے زیادہ تر مواد پر ’پچھلا حوالہ‘ درج نہیں، اس لیے اندازہ نہیں ہو پاتا کہ تحریر ’اِجرا‘ کے لیے لکھی گئی ہے یا پہلے بھی کہیں اشاعت پذیر ہو چکی ہے۔

’اجرا‘ کے ’شکیل عادل زادہ نمبر‘ کا آغاز کالم نگار اور میگزین صحافت سے وابستہ عامر ہاشم خاکوانی کی تحریر سے ہوتا ہے، اس کے بعد ’اخوت‘ کے تحت بلاسود قرضوں کی فراہمی سے ہزاروں لوگوں کی معاشی زندگی میں انقلاب لانے والے ڈاکٹر امجد ثاقب بھی ابتدائی صفحات میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، پھر ’اوراق زیست‘ کے عنوان سے جمال احسانی کا طویل سوانحی مکالمہ شروع ہوتا ہے، 145صفحات پر مشتمل یہ گفتگو ایک خاصے کی چیز ہے۔

اس کے بعد مدیر اقبال خورشید کی بیٹھک کا احوال بھی آتا ہے۔ پھر پروفیسر سحر انصاری، نصیر ترابی، ڈاکٹر معین الدین عقیل اور انور شعور جیسے نابغہ روزگار جگ مَگ جگ مَگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔ ’شکیل بھائی‘ کے قلم سے لکھے گئے کتابوں کے دو فلیپ، اخلاق احمد کی یادیں بھی گویا ’اِجرا‘ کے اس خصوصی نمبر نے اپنی بانہوں میں سمیٹی ہوئی ہیں۔۔۔ اگلے صفحات میں ’شکیل بھائی‘ کے حالات زندگی کے اعادے سے کچھ تکرار کا احساس ہونے لگتا ہے، لیکن ظاہر ہے جہاں ایک شخصیت پر بہترین مواد اکٹھا کیا جائے، وہاں ایسا ہونا اچنبھے کی بات نہیں۔۔۔ ’اجرا‘ میں شامل شکیل عادل زادہ کے مقبول سلسلے ’بازی گر‘ کے کرداروں کا جائزہ یقیناً بازی گر پڑھنے والوں کو ایک منفرد تحریر کا لطف دے گی۔

’سب رنگ‘ کے ’ممتاز عاشق‘ احسن رضا گوندل کے قلم سے ’سب رنگ‘ کے کل 76 شماروں کی اشاعت کا یک ورقی احوال اور ’سب رنگ‘ ہو جانے والے عالمی فکشن نگاروں کا ذکر پرچے کی ایک مختصر مگر اہم ترین چیز ہے۔ یہی نہیں شکیل عادل زادہ سے منظوم محبت اور ان کے نام لکھے گئے خطوط مع عکس ایک تاریخی کام ہے، جن میں رئیس امروہوی، قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی، ممتاز مفتی، ابن انشا، اشفاق احمد سے لے کر ممتاز گیت نگار گلزار صاحب کے ’نامے‘ قابل ذکر ہیں۔ تاریخی تصاویر سے آراستہ 308 صفحات کی یہ ادبی دستاویز فقط 500 روپے میں دست یاب ہے (03218923722)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔