یادیں

ایاز خان  پير 16 دسمبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

پچھلا ہفتہ ایسی مصروفیات میں گزرا کہ سر کھجانے کی فرصت نہیں ملی والا محاورہ مجھ پر فٹ ہو گیا۔ اسلام آباد سے ابھی واپسی ہوئی ہے اور لطیف چوہدری صاحب نے چڑھائی کر دی ہے کہ فوری طور پر کالم پیش کرو۔ میں نے تھکاوٹ اور ذہنی انتشار کا بہانہ بنانے کی کوشش کی مگر میرا یہ عذر بھی رد کر دیا گیا ہے۔ اب کالم لکھنے پر مجبور ہونا پڑ ہی گیا ہے تو کوئٹہ سے آغاز کرتا ہوں‘وہاں بلدیاتی الیکشن کی گہما گہمی اور پولنگ بوتھوں پر رونق دیکھنے کا موقع ملا۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے ملاقات بھی ذہن میں ابھی تازہ ہے۔

کوئٹہ میں روزنامہ ایکسپریس کے بیورو چیف رضا الرحمان نے بتایا ڈاکٹر صاحب اسلام آباد سے کوئٹہ آئے ہوئے ہیں تو کیوں نہ ان سے ملاقات کر لی جائے۔ ہمارے ایڈیٹر کراچی طاہر نجمی بھی دورہ کوئٹہ میں میرے ساتھ تھے‘ ہم تینوں مقررہ وقت پر وزیر اعلیٰ ہاؤس پہنچ گئے اور ان سے گفتگو کا موقع مل گیا۔ ڈاکٹر عبدالمالک اپنی اب تک کی پرفارمنس سے مطمئن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچوں کا مستقبل پاکستان کے ساتھ وابستہ ہے اور پاکستان کی ذمے داری محض اتنی ہے کہ وہ انھیں حقوق دے‘ ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کرے۔ ڈاکٹر صاحب امن و امان کی صورتحال کو بھی بتدریج قابو میںلا رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آئی جی بلوچستان سے روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ لیتے اور انھیں ہدایات دیتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جائیں اور ناراض بلوچ قومی دھارے میں واپس آ جائیں۔ انھوں نے بلوچستان میں جاری ترقیاتی منصوبوں کے بارے میں بھی بتایا۔ بیورو کریسی کے حوالے سے ان کے کچھ تحفظات ضرور ہیں مگر مجموعی طور پر وہ پرجوش بھی ہیں اور پر امید بھی۔

کوئٹہ جانے سے پہلے ایک رات کراچی میں بھی گزری۔ شہر قائد میں آپریشن جاری ہے لیکن ابھی وفاقی وزیر داخلہ کے دعوے 20 سے 25 فیصد تک ہی صحیح ہو سکے ہیں۔ ابھی کرنے کو بہت کام باقی ہے۔ کوئٹہ سے واپس آنے کے بعد لاہور میں دو روز ہی گزرے تھے کہ سیفما کی افغانستان‘ پاکستان کانفرنس کے لیے اسلام آباد جانا پڑا۔ کوچ میں کیا گیایہ سفر جہاں کچھ اور حوالوں سے دلچسپ اور یاد گار رہا ‘وہاں جی ٹی روڈ کے نظارے بھی ایک مدت بعد دیکھنے کو ملے۔ جب سے موٹروے بنی ہے ‘ جی ٹی روڈ سے جانا اپنے لیے ممنوع ہو چکا ہے۔ اس بار علامہ صدیق اظہر کی ضد تھی کہ کنارہ ریسٹورنٹ سے لنچ کرنا ہے اس لیے جی ٹی روڈ سے سفر کرنا پڑے گا۔ انجم رشید اور احمد ولید سمیت کوئی انکار نہ کر سکا۔

دریائے چناب کے کنارے بیٹھ کر لنچ کے دوران سوہنی مہینوال کے ذکر نے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ وہاں سے عازم اسلام آباد ہوئے تو علامہ نے دینہ سے لذیذ ترین برفی کھلانے کا وعدہ کر لیا۔ سرائے عالمگیر سے گزرتے ہوئے اچانک کوچ ایک طرف رکوائی اور برفی لے کر آ گئے۔ ہم نے بہت کہا کہ برفی تو دینہ سے کھلائی جانی تھی مگر انھوں نے کہا یہ برفی بھی لاجواب ہے۔ وہ برفی واقعی ’’لاجواب ‘‘ تھی کیونکہ ہم چکھنے کے بعد ہی پر ہو گئے اور کھانے کی ہمت کسی نے نہیں کی۔ اس موقع پر مجھے شاہ جی (عباس اطہر) بری طرح یاد آئے‘ جسے جملہ مارنا کہا جاتا ہے‘ ان پر ختم تھا‘ ہمارے دفتر کے ایک ساتھی گھر سے مرغ کڑاہی بنوا کر لائے۔ شاہ کے کمرے میں کھانا لگ گیا۔ مرغ کڑاہی کا ذائقہ بھی ویسا ہی تھا جیسا علامہ صاحب کی سرائے عالمگیری برفی کا تھا۔ جیسے تیسے شاہ جی اور سب ساتھیوں نے کھانا کھا لیا‘ اسی دوران وہ ساتھی جو کھانا لایا تھا‘ آیا اور پوچھا،’’شاہ جی کڑاہی کیسی تھی؟‘‘ شاہ جی نے برجستہ جواب دیا،’’یار آج تم نے بہترین بدمزہ کڑاہی کھلائی ہے‘‘۔

میرے دماغ کی اسکرین پر شاہ جی کا چہرہ نمودار تھا کہ کوچ میں بیٹھے ساتھیوں نے موسم کا ذکر چھیڑ دیا‘دوران سفر موسم کا ذکر چھڑا تو مرحوم اختر حیات کی یاد آ گئی۔ اختر حیات سے میری پہلی ملاقات نوائے وقت میں ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ وہاں ایک ساتھ کام کیا پھر وہ ادارہ چھوڑ کر چلا گیا۔ اختر حیات بڑا کمال آدمی تھا۔ کسی سینئر سے کبھی ڈانٹ بھی پڑتی تو مسکرا کر یہ حملہ ناکام بنا دیتا تھا۔ روزنامہ ایکسپریس میں دوبارہ ساتھ ہوا تو وہ سینئر رپورٹر تھا۔ جاندار تحریر کا مالک اختر حیات جب موسم کی خبر بناتا تو اس میں واقعی جان ڈال دیتا تھا۔ اختر حیات بنیادی طور پر شاعر تھا۔ اس کی تحریر میں ایسا زبردست ردھم ہوتا تھا کہ خبر میں بھی ادب کی چاشنی مل جاتی تھی۔ اردو اخبارات میں موسم کے حوالے سے میں نے اختر حیات سے بہتر خبر کسی کی نہیں پڑھی۔ اختر حیات شرارتی بھی بہت تھا۔

ایک بار کسی تقریب میں اس سے ملاقات ہوئی تو میں نے اپنی بیگم کا تعارف کرایا۔ وہ شرارت کے موڈ میں تھا۔ کہنے لگا ایاز صاحب پچھلی بار جب آپ نے ایک اور تقریب میں بھابھی کو متعارف کرایا تھا تو وہ کوئی اور خاتون تھی۔ میرے لیے یہ حملہ خلاف توقع نہیں تھا۔ میں نے کہا اختر حیات تو عجیب آدمی ہے‘ تیرا کیا خیال ہے بندہ ساری تقریبات میں صرف ایک خاتون کے ساتھ ہی جاتا ہے۔ اس نے یہ سنا مخصوص مسکراہٹ اس کے چہرے پر آئی اور وہ رخصت لے کر چلا گیا۔ میرے کیرئیر کے دوران وہ دو اداروں میں میرے ساتھ رہا اور پھر دونوں ادارے چھوڑ کر چلا گیا۔ میں اسے بھرا (بھائی) کہہ کر پکارتا تھا۔ایک رات اطلاع ملی کہ وہ دنیا ہی چھوڑ گیا۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں پہنچ گئی۔ خیالات منتشر ہوں تو اسی طرح ہوتا ہے۔ سفر تمام ہوتے ہیں۔ لوگ ساتھ چھوڑ جاتے ہیں۔ بس یادیں رہ جاتی ہیں لیکن کبھی کبھی یادیں بھی ایسی دنیا میں لے جاتی ہیں‘ جہاں سے واپس آنے کو دل نہیں کرتا…

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔