کلامِ اخترؔ پہ ایک خوش تر نظر

ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی  اتوار 13 ستمبر 2020
اخترؔ معرفت کی نہیں، بوتل کی شراب پیتے تھے اور غموں کو ڈبونے کی غرض سے پیتے تھے۔ فوٹو : فائل

اخترؔ معرفت کی نہیں، بوتل کی شراب پیتے تھے اور غموں کو ڈبونے کی غرض سے پیتے تھے۔ فوٹو : فائل

ہم نے نوجوانی میں اخترؔ شیرانی کو پڑھا، تو وہ ہمارا شوق تھا اور اب اس کہنہ سالی میں اخترؔشیرانی کو پڑھتے ہیں، تو یہ ہماری ضرورت ہے ۔ اخترؔ شیرانی کے یہاں اولاً ہمیں جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کی صاف گوئی ہے۔

اختر ؔسے پہلے (اور اس کے بعد بھی) شاعر اپنے محبوب کو کیسے کیسے ثقیل القاب سے یاد کرتے تھے دیکھیے__غیرت ِناہید، یارِ طرح دار، سیمیں بدن، دشمنِ جاں، ماہِ کامل، خانہ براندازِ چمن، وغیرہ۔ ان تراکیب سے اصل نام تو کیا، فریقِ ثانی کی جنس کا تعین بھی نہیں ہوپاتا تھا۔ شاعر بے چارے ڈرتے تھے،کوچۂ عشق میں پھُونک پھُونک کر قدم رکھتے تھے کہ کہیں اس کے بھائی آستینیں چڑھاتے ہوئے باہر نہ نکل آئیں۔ چنانچہ حسرتؔ موہانی کی احتیاط ملاحظہ کیجیے ؎

دیکھنا بھی تو اُنھیں دور سے دیکھا کرنا

شیوۂ عشق نہیں حُسن کو رسوا کرنا

ایسے ’’خوف زدہ‘‘ ماحول میں اخترؔشیرانی نے اپنی محبوباؤں کے چہروں پر سے تشبیہات و استعارات کے پردے ہٹادیے اور انہیں ان کے اصل ناموں سے مخاطب کیا۔ سلمیٰ، عذرا اور ریحانہ کو منظر عام پر لا کر اخترؔ نے اردو کے روایتی شاعر کا استحقاق مجروح کیا؟ اُس کے محبوب کا؟ یا خود ان عفیفاؤں کا؟ قاری کو اس سے کوئی سروکار نہیں وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ ’’خانہ براندازِ چمن‘‘ کے مقابلے میں سلمیٰ کو بلانا کتنا آسان ہے۔

اخترؔ کی اسی حقیقت پسندی اور جذباتیت کی بنا پر اُسے اردو کا کِیٹس(KEATS) کہا جاتا ہے۔ پروفیسر سید اختر احمد اخترؔ اورینوی (جن کے ایک مبسوط مقالے کو ’’دیوانِ اخترؔ شیرانی‘‘ میں بطور پیش لفظ شامل کیا گیا ہے) لکھتے ہیں:’’اخترؔ شیرانی کی زندگی اور شاعری کے بہت سے پہلو کِیٹس کی زندگی اور شاعری سے ملے ہوئے ہیں۔ اخترؔ نے بھی کِیٹس کی طرح عالمِ مثال کے حُسن کو عالمِ مجاز میں دیکھا۔ کِیٹس کی فینی اور اخترؔ کی سلمیٰ ان کی شاعری کی روح ہیں۔‘‘

اخترؔ کی شاعری میں فلسفہ یا فکر کی تلاش بے سُودہے۔ وہ ایک عملی اور کسی حد تک بے صبرے انسان تھے۔ وصل کے لیے زیادہ انتظار اور راتیں کالی کرنے کے بھی روادارنہ تھے اور اسی لیے دو تین متبادل ’’لائن حاضر‘‘ رکھتے تھے۔ وہ دماغ سے نہیں، دل سے شاعری کرتے تھے اوردل کی آواز رقم کرتے تھے جو سننے اور پڑھنے والے کے دل سے ٹکراتی تھی۔ مثلاً ان کی نظموں کے یہ مصرعے زبان زدِ خاص و عام ہوئے:

ع         بہارو خواب کی تنویرِ مرمریں عذرا

ع         یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی

ع         سنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں

جب یہ باتیں عام ہوئیں اور لوگوں میں سرگوشیاں ہونے لگیں تو ہمارے شاعر کو تشویش لاحِق ہوئی اور بالآخر اُسے اعتراف کرنا پڑا:

اُس حوروَش کے غم میں دنیا ودیں گنواکر

ہوش و حواس کھوکر، صبروسکوں لُٹا کر

بیٹھے بٹھائے دل میں، غم کی خلش بسا کر

ہر چیز کو بھُلا کر!

سلمیٰ سے دل لگا کر!

بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہورہا ہوں

اس طویل نظم سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسماۃ سلمیٰ صابروشاکر اور باحیا خاتون تھی جب کہ اختر ضبط و تحمل سے عاری اور جلدباز شخص تھے۔ اسی نظم کے درجِ ذیل اشعار میں یہ دونوں کیفیات بیک وقت دیکھی جاسکتی ہیں:

دیکھو وہ جا رہی ہے سلمیٰ نظر بچا کر

شرما کے مسکرا کر، آنچل سے منہ چھپا کر

جاؤ نہ پیچھے پیچھے، دو باتیں کر لو جا کر

کھیتوں میں چھُپ چھُپا کر سلمیٰ سے دل لگا کر

ایسا مکمل فلمی سین کسی اور شاعر کے کلام میں بھلا کہاں ملے گا۔ اخترؔ کی نظمیں ’’برکھارُت‘‘، ’’آج کی رات‘‘، ’’اے عشق کہیں لے چل‘‘، ’’او دیس سے آنے والے بتاــ‘‘،’’تاروں بھری رات‘‘،’’وادیٔ گنگا میں ایک رات‘‘اپنے پڑھنے والوں کو تصورات کی ایک ایسی حسین دنیا میں لے جاتی ہیںجہاں سے وہ باہر نکلنا نہیں چاہتے۔

باہر کی دنیا میںآخررکھا بھی کیا ہے؟ لوڈشیڈنگ، بدعنوانی، گرانی، انسانی خون کی ارزانی، شکر کی پریشانی (بیرونی بھی اور اندرونی بھی)۔ پس، وہ اخترؔکے ساتھ خوابوں کی دنیاؤں اور ماہتابوں کے جزیروں میں اسی طرح مست رہتے ہیں جیسے ہمارے بیشتر حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں سے اہلِ وطن کا غم دیکھا نہیں جاتا اور وہ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ایک مرتبہ اخترؔ صاحب کو خبر ملی کہ سلمیٰ رات کے وقت وادی میں آنے والی ہے۔ اس اطلاع پر موصوف نے ایک استقبال نظم کہہ ڈالی جس کا ایک بند ہی ان کی اضطرابی اور اصطراری حالت کے اظہار کے لیے کافی ہے:

زمیں پر بھیج دے آج اے بہشت اپنی بہاروں کو

بچھا دے خاک پر اے آسماں اپنے ستاروں کو

خرام ورقص کا دے حکم فطرت، ابرپاروں کو

وہ بیخود چاند کی نظروں سے گھبرائے گی وادی میں

سُنا ہے میری سلمیٰ رات کو آئے گی وادی میں!

سُنا ہے سلمیٰ وادی میں آئی تھی…مگر اپنی دادی کے ساتھ۔ اخترؔ تو یہ دیکھ کربھڑک اٹھے لیکن اس سے قبل کے یہ کچھ پیش دستی کرتے، وہ ان کے ارادے بھانپ کر واپس لوٹنے کے لیے پلٹی۔ عین اُس وقت عاشق زارچلّا اٹھا:

مجھ کو تڑپتا چھوڑ کر، پیاری چلی جاؤ گی کیا؟

میری نگاہِ شوق کو فرقت میں ترساؤگی کیا؟

اُف حشر تک یہ چاند سی صورت نہ دکھلاؤ گی کیا؟

اور پھر نہیں آؤ گی کیا؟

پیاری چلی جاؤ گی کیا؟

ہم نے کہیں پڑھا ہے کہ اخترؔ کا جنازہ اٹھنے ہی والا تھا کہ ایک برقعہ پوش خاتون خاموشی سے آئیں اور اخترؔ کا آخری دیدار کرکے چلی گئیں۔ اب یہ سلمیٰ تھیں، غدرا تھیں یا ریحانہ؟ راوی اس بارے میں خاموش ہے۔ جہاں تک ’’او دیس سے آنے والے بتاــ‘‘ کا تعلق ہے اس میں Nostalgia (دردِ وطن) کے جذبات کی فروانی ہے۔ مثلاً یہ بند دیکھیے:

او دیس سے آنے والے بتاــ!

کیا اب بھی وطن میں ویسے ہی

سرمست نظارے ہوتے ہیں؟

کیا اب بھی سہانی راتوں کو

وہ چاند ستارے ہوتے ہیں؟

ہم کھیل جو کھیلا کرتے تھے، کیا

اب بھی وہ سارے ہوتے ہیں؟

او دیس سے آنے والے بتاــ!

مشتاق یوسفی صاحب نے اس میں اپنے مطلب کا ایک نیازاویہ تلاش کرلیا۔’’چراغ تلے‘‘میں ایک جگہ لکھتے ہیں’’اخترؔ شیرانی کی ایک نظم بہت مشہور ہے جس میں انھوں نے یارانِ وطن کی خیریت پوچھنے کے بعد دیس سے آنے والے کی خاصی خبر لی ہے۔

اس بھولے بھالے سوال نامے کے تیور صاف کہہ رہے ہیں کہ شاعر کو یقین واثق ہے کہ اس کے پر دیس سدھارتے ہی نہ صرف دیس کی رِیت رسم بلکہ موسم بھی بدل گیا ہوگا اور ندی نالے اور تالاب سب ایک ایک کرکے سُوکھ گئے ہوں گے۔‘‘ یوسفی صاحب بھی اُسی دیس(ٹونک) کے رہنے والے تھے جہاںکے اخترؔ شیرانی تھے لیکن وہ شاعر نہیں، بنکار تھے اور بنکار ماضی کے بجائے مستقبل میں جیتا ہے۔ اخترؔ کے کلام میں فکرو فلسفہ تو نہیں لیکن اس کے Vision (پیش بینی) کی داد بہرحال دینی پڑے گی۔

مثلاً آج ہم آئے دن سنتے، پڑھتے اور دیکھتے ہیں کہ کوئی نوجوان جوڑا اپنے بزرگوں کی خواہشوں، ہوس زر اور جاہلانہ رسموں سے بغاوت کرتے ہوئے اپنی پسند کی شادی کرتا ہے تو ہمارا غیرت مند معاشرہ اسے ’’کاروکاری‘‘ قرار دے کر کاروبارِ حیات ہی سے آزاد کر دیتا ہے۔ شادی بیاہ کے معاملات میں والدین کو ’’وٹیو‘‘ کا حق حاصل ہے۔ اخترؔ نے برسوں پہلے اس موضوع پر ایک نظم ’’نارضامندی کی شادی‘‘ لکھی تھی جس کا ایک ایک لفظ آج کے حالات پر صادق آتا ہے۔ نظم کا آغاز اس طرح ہوتا ہے ؎

بغیر مرضی کی شادی بھی کیا قیامت ہے

یہ عمر بھر کے لیے اک مہیب لعنت ہے

آگے چل کر وہ اس شادی کی ’’کیمسٹری ‘‘ یوں بیان کرتے ہیں ؎

یہ کچھ ضروری نہیں جانبین راضی ہوں

یہ شرط ہے کہ فقط والدین راضی ہوں

نظم کا اختتام ان مذمتی الفاظ پر ہوتا ہے ؎

جواں روحوں کی خاموش قتل گاہ ہے یہ

خدا کے نام پہ سب سے بڑا گناہ ہے یہ

یہ تو صحیح ہے لیکن اخترؔ شیرانی نے’’ایک شاعرہ کی شادی پر‘‘ کے عنوان سے ایک المیہ اور احتجاجی نظم بھی لکھی جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس لیے کہ وہ شادی سب کی رضا مندی سے طے پائی تھی۔ اس نظم کے چند منتخب اشعار ملاحظہ ہوں۔ پہلے دلھن کی تعریف کرتے ہیں:

اے کہ تھا اُنس تجھے عشق کے افسانوں سے!

زندگانی تری آباد تھی رومانوں سے!

تیرے اشعار تھے، جنت کی بہاروں کے ہجوم

تیرے افکار تھے، زریں ستاروں کے ہجوم

پھر اسے سرزنش کرتے ہیں:

اب گوارا ہوئی کیوں غیر کی صحبت تجھ کو؟

کیوں پسند آگئی ناجنس کی شرکت تجھ کو؟

شعرو رومان کے وہ خواب کہا ں ہیں تیرے؟

وہ نقوشِ گل ومہتاب کہاں ہیں تیرے؟

اس کے بعد باقاعدہ ملامت اور احتجاج پر اُتر آتے ہیں:

اب نہیں تجھ میں وہ حوروں کی سی عِفّت باقی!

حور تھی تجھ میں گئی، رہ گئی عورت باقی!

سوگوار اپنی جواں موت کا ہونے دے مجھے!

مسکراتُو ، مگر اس حال پہ رونے دے مجھے!

اخترؔ پینے پلانے والے آدمی تھے۔ وہ معرفت کی نہیں، بوتل کی شراب پیتے تھے اور غموں کو ڈبونے کی غرض سے پیتے تھے۔ (اس غرض سے پینے والوں کو شاید علم نہیں کہ غم تیرنا بھی جانتے ہیں۔) ایک جگہ اخترؔ ساقی کی خوشامد کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎

غمِ زمانہ نہیں، اک عذاب ہے ساقی

شراب لا مری حالت خراب ہے ساقی

اسی غزل میں ساقی کو Convince(قائل) کرنے کے لیے ’’فتویٰ‘‘ جاری کرتے ہیں ؎

تو واعظوں کی نہ سن میکشوں کی خدمت کر

گنہ ثواب کی خاطر، ثواب ہے ساقی

ایک قابلِ غور نکتہ یہ ہے کہ اخترؔ ہر شے کو اس کی اصل حالت میں دیکھنا اور برتنا چاہتے تھے:

مئے رنگیں سے اگرنشہ ولذّت چھِن جائے

سادہ پانی ہے وہ یا موجِ شراب؟

ماہِ تاباں سے اگر نورولطافت چھِن جائے

تودۂ خاک ہے وہ یا مہتاب؟

گلِ رعنا سے جو رنگینی و نکہت چھِن جائے

سوکھی پتّی ہے وہ یا برگِ گلاب؟

جس جوانی سے کہ رنگینی عِفّت چھِن جائے

اشکِ پیری ہے وہ یا نوشِ شباب؟

بعض لوگو ں کاخیال ہے کہ اخترؔ کی محبوبائیں فرضی تھیں۔ چلیے مان لیتے ہیںفرضی تھیںـ۔۔۔ کم از کم مونث تو تھیں۔ ایسا تو نہیں تھا کہ مرد، مرد کے فراق میں ٹسوے بہارہا ہے۔ اخترؔ شیرانی کی ایک نظم ’’جہاں ریحانہ رہتی تھی‘‘ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیے:

وہ اس وادی کی شہزادی تھی اور شاہانہ رہتی تھی

کنول کا پھول تھی، سنسار سے بیگانہ رہتی تھی

نظر سے دور، مثلِ نکہتِ مستانہ رہتی تھی

یہی وادی ہے وہ ہمدم، جہاں ریحانہ رہتی تھی

یہ نظم مزاح نگاروں میں بہت مقبول ہوئی اور اس کی کئی تحریفیں سامنے آئیں۔ سب سے پہلے سندباد جہازی (مولانا چراغ حسن حسرتؔ) نے مذکر کے صیغے میں اِس کی دلچسپ تحریف کی تھی جو اُن کے فکاہیہ ہفت روزہ ’’شیرازہ‘‘ میں ۱۶دسمبر ۱۹۳۶؁ء کو شائع ہوئی۔ نظم کا پہلا بند نذر قارئین ہے:

وہ اس کوچے کا لمبردار تھا آزاد رہتا تھا

بہت مسرور رہتا تھا بہت دلشاد رہتا تھا

بسانِ قیسِ عامر صورتِ فرہاد رہتا تھا

جو اُس کو یاد رکھتا تھا وہ اس کو یاد رہتا تھا

اور اِس دالان میں اس کا چچا رحمان رہتا تھا

یہی کُوچہ ہے وہ ہمدم جہاںرمضان رہتا تھا

۲۰۰۰؁ء میں ہمارے ایک ممتاز مزاح گو سرفراز شاہد نے رمضان کو سلطانہ کے روپ میں کالج کی طالبہ بناتے ہوئے جو کچھ کہا اس کا ایک بند بھی دیکھ لیجیے:

وہ اس کالج کی شہزادی تھی اور شاہانہ پڑھتی تھی

وہ بے با کانہ آتی تھی وہ بے باکانہ پڑھتی تھی

بڑے مشکل سبق تھے جن کو وہ روزانہ پڑھتی تھی

وہ لڑکی تھی مگر مضمون سب مردانہ پڑھتی تھی

یہی کالج ہے وہ ہمدم جہاں سلطانہ پڑھتی تھی

پھر ایک اور محترم شاعر (شوکت جمال) نے’’سلطانہ‘‘کی جگہ مجنوں کوعلامت بنا کریہ معنی آفرینی کی ع یہی صحرا ہے وہ ہمدم جہاں دیوانہ رہتا تھا۔ یہ نظم بھی بہت پُرلطف ہے۔ بطورِ نمونہ ایک بند پیش خدمت ہے:

پھٹے کپڑوں میں پھرتا تھا مگر شاہانہ رہتا تھا

شرابِ عشق میں ڈوبا ہوا، رندانہ رہتا تھا

لبوں پر جس کے لیلیٰ کا سدا افسانہ رہتا تھا

سگِ لیلیٰ سے بھی جس شخص کا یارانہ رہتا تھا

وہی مجنوں لقب، وہ عاشقِ مستانہ رہتا تھا

یہی صحرا ہے وہ ہمدم جہاں دیوانہ رہتا تھا

یہ سب دلچسپ تحریفیں ہیں لیکن ہمیں حیرت ہے کہ آج تک کسی مزاح گو کو ’’او دیس سے آنے والے بتاـ‘‘ کی پیروڈی نہیں سوجھی حالانکہ یہ اس طرح شروع ہوسکتی ہے:

او ’’دیس کو کھانے‘‘ والے بتا

کس ’’جال‘‘ میں ہیں یارانِ وطن

مطلع ہم نے کہہ دیا، آگے کا کام ہم مزاح کے شاعروں پر چھوڑتے ہیں لیکن چلتے چلتے ایک لطیفہ سن لیجیے۔ ایک جنرل صاحب کسی فوجی مَیس کے دورے پر آئے۔ معائنے کے بعد انہوں نے کیڈٹوں سے اپنے مختصر خطاب میں پوچھا،’’آپ لوگوں کا کوئی مسئلہ؟ ‘‘ ایک کیڈٹ نے کھڑے ہو کر کہا،’’سر، ہمیں مَیس میں جو سُوپ دیا جاتا ہے اس میں ریت بہت ہوتی ہے۔‘‘ جنرل صاحب اِس معمولی شکایت پر سیخ پاہو کر گرجے،’’تم لوگ یہاں وطن کی خدمت کرنے آئے ہو یا سُوپ میں ریت کی شکایت کرنے؟ ‘‘ نوجوان نے جواب دیا’’سر، ہم وطن کی خدمت کرنے کے لیے آئے ہیں، اسے کھانے کے لیے نہیں!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔