شہرِ قائد اپنے مسیحاؤں کی کھوج میں

 اتوار 13 ستمبر 2020
مسائلستان بنے کراچی کے ان رہنماؤں کی داستانِ جہد جنھوں نے اپنی خدمات سے  ایک معمولی ساحلی بستی کو عظیم کاسموپولٹین شہر بننے کے سفر پہ گامزن کر دیا ۔  فوٹو : فائل

مسائلستان بنے کراچی کے ان رہنماؤں کی داستانِ جہد جنھوں نے اپنی خدمات سے  ایک معمولی ساحلی بستی کو عظیم کاسموپولٹین شہر بننے کے سفر پہ گامزن کر دیا ۔ فوٹو : فائل

’’گڈ گورننس یہ ہے کہ حکومت عام آدمی کی بھلائی کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرے اور کسی قیمت پر اسے نقصان نہ پہنچائے۔‘‘(امریکی مدبر، تھامس جیفرسن)

٭٭

پچھلے چند ہفتے پاکستان بھر میں باران رحمت کا نزول جاری رہا۔بارش پانی لاتی ہے،زندگی کی خشتِ اول لہذا وہ انمول تحفہ خداوندی ہے۔زیادہ بارشیں یقینناً فصلوں کو نقصان پہنچاتی ہیں مگر طویل المیعاد لحاظ سے تب بھی وہ زرعی زمین کے واسطے سودمند ہیں۔

پاکستانی شہروں میں شدید بارش لیکن شہریوں کو عجیب مصائب میں مبتلا کر ڈالتی ہے۔نکاسی آب کا موثر نظام نہ ہونے سے گلیوں اور سڑکوں میں پانی کھڑا ہوجائے تو معمولات زندگی متاثر ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے علاقہ نشیبی ہو تو پانی گھر میں داخل ہو کے بعض اوقات عمر بھر کی کمائی تباہ کر ڈالتا ہے۔

عام آدمی کی بربادی اور روزمرہ زندگی تکلیف دہ بنا دینے کی ذمے دار ہماری حکومتیں ہیں۔انہی کی نااہلی،فرائض سے غفلت اور بے حسی کے باعث باران رحمت جیسا بے مثال آسمانی تحفہ بھی کروڑوں پاکستانیوں کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔

دنیا کے سبھی ملکوں میں زیادہ بارشوں سے علاقے زیرآب آتے ہیں۔ کبھی گھروں میں بھی پانی داخل ہوتا ہے۔مگر ان ممالک میں نکاسی آب کا بہترین بندوبست ہے۔اسی لیے چند گھنٹوں میں پانی گزرگاہوں سے نکل جاتا ہے۔مگر پاکستانی شہروں اور قصبوں میں بارشی پانی کا نکاس ہوتے ہوتے کئی دن لگتے ہیں۔

بارش کو چھوڑئیے،خصوصاً غریبوں کے کسی محلے میں گٹر ابل پڑے یا پانی کی پائپ لائن پھٹ جائے،تو راستہ ہفتوں پانی میں ڈوبا رہتا ہے مگر متعلقہ انتظامیہ یہ مسئلہ دور کرنے کے اقدامات نہیں کرتی۔یہ برے انتظام حکومت یا بیڈ گورننس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ہمارے لاہور دفتر کی گلی بھی ذرا تیز بارش سے دریائے راوی میں ڈھل جاتی ہے۔

دنیا بھر میں آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سبب انوکھے اعجوبے جنم لے رہے ہیں۔ایک بڑی تبدیلی کسی علاقے میں اچانک شدید بارش کا ہونا ہے۔دراصل موسم برسات میں کسی دن زیادہ گرمی پڑے تو سمندر،دریا ،جھیل سے کثیر پانی بخارات بن کر زبردست بادل بناتا ہے۔جب بادل آبی بخارات سے بوجھل ہو جائیں تو کسی جگہ خوب برستے اور وہاں جل تھل ایک کر دیتے ہیں۔

یہ شدید بارش مگر اس علاقے میں تباہی بھی لاتی ہے۔خصوصاً وہاں نکاسی آب کا عمدہ بندوبست نہ تو علاقہ سیلاب زدہ بن جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے برسوں میں موسم برسات کے دوران کسی دن شدید بارش کا یہ اعجوبہ ان شہروں اور علاقوں میں جنم لے گا جو سمندروں ، دریاؤں جھیلوں کے کنارے واقع ہیں جیسے کراچی ،لاہور،راولپنڈی اسلام آباد اور بہت سے علاقے۔سوال یہ ہے کہ ان شہروں اور قصبات کو شدید بارشوں سے محفوظ کرنے کی خاطر وفاقی،صوبائی اور مقامی حکومتوں نے کیا اقدمات کیے ہیں؟ یہ حکومتیں عام دنوں میں ایک ابلتا گٹر روکنے میں سستی برتتی ہیں، شدید بارش سے پیدا شدہ سیلابی کیفیت سے نمٹنا ان کے بس کی بات نہیں ۔یہی افسوس ناک صورت حال ہمیں شہر قائد میں حالیہ بارشوں کے دوران دیکھنے کو ملی۔

ریکارڈ توڑ بارشیں

اس ماہ اگست شہر کراچی اور قرب و جوار اتنی زیادہ بارشیں ہوئیں کہ اس نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ اس ماہ کراچی میں 604 ملی میٹر بارش ہوئی جو نیا ریکارڈ ہے۔ پاکستان بھر میں دوران ایک ماہ زیادہ بارش کے ریکارڈ میں اس کا دوسرا نمبر ہے۔ پہلے نمبر پر مٹھی (تھرپارکر) براجمان ہے۔ وہاں ستمبر 2011ء میں صرف پندرہ دن کے اندر 760 ملی میٹر بارشیں ریکارڈ ہوئی تھی۔27 اگست کو کراچی میں 223 ملی میٹر بارش ہوئی۔

یوں شہر قائد میں ایک دن کے اندر زیادہ بارش کا نیا ریکارڈ بن گیا۔ایک دن میں زیادہ بارش کا قومی ریکارڈ اسلام آباد رکھتا ہے۔ وہاں 23 جولائی 2001ء کو 620 ملی میٹر بارش ہوئی تھی ۔جبکہ عالمی ریکارڈ جزیرہ ای یونین کے قصبے، سیلاؤس کے پاس ہے۔ وہاں 7 اور 8 جنوری کی رات 1825 ملی میٹر بارش نے جل تھل ایک کردیا تھا۔

ایک عشرے سے حکمرانوں کی مفاداتی سیاست، بے حسی، غفلت اور غیر ذمے داری کے باعث کراچی میں جب بھی بارش ہو تو وہ کروڑوں شہریوں کے لیے باعث زحمت اور پریشانی کا سبب بن جاتی ہے۔ اس بار تو شدید بارشوں نے اہل کراچی کو نہ صرف ذہنی اذیت میں مبتلا کیا بلکہ زبردست جانی و مالی نقصان بھی پہنچایا۔میری بیگم کا میکہ کراچی میں ہے۔ لاہور میں پیدائش کے باوجود راقم کا لڑکپن اور نوجوانی شہر قائد میں گزری۔ اسی لیے کراچی سے محبت و انسیت کا رشتہ ہے۔ اس شہر اور وہاں کے باسیوں کی حالت زار دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔

میرے سالے نے نیا نظام آباد علاقے میں چند سال قبل بڑی چاہت سے گھر تعمیر کیا تھا۔ حالیہ بارشوں میں پانی گھر میں گھس آیا اور سارا قیمتی سامان خراب کر ڈالا۔ سالے بتاتے ہیں کہ پانی اچانک آیا اور کمروں میں چار فٹ سے زیادہ پانی کھڑا ہوگیا۔ مہلت ہی نہ ملی کہ فرنیچر ،الماریوں اور دیگر قیمتی سامان کو محفوظ مقامات تک پہنچا پاتے۔ ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔

برسوں کی کمائی چند گھنٹوں میں خاک میں مل گئی۔یہ ایک گھر کا ماجرائے غم نہیں، پورے کراچی میں ایسے الم ناک واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ جن افراد نے اپنے مال گوداموں میں رکھے تھے، وہ پانی بھرنے سے خراب ہوگئے اور انہیں اربوں روپے کا نقصان ہوا۔ کئی لوگ ایک دن میں عرش سے فرش پر آگرے۔ حکمرانوں کی کوتاہیوں نے انہیں برباد کردیا۔

جو سب کو پالتا ہے…

حیرت انگیز بات یہ کہ کراچی معمولی شہر نہیں بلکہ حکمرانوں سے لے کر عوام تک کے لیے سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اعدادو شمار کے مطابق اس شہر کا جی ڈی پی (نومنل) 164 ارب ڈالر ہے۔ یہ عالم اسلام میں جکارتہ (انڈونیشیا) کے بعد دوسرا بڑا جی ڈی پی ہے۔ یہ شہر صنعت و تجارت اور مالیات کا بین الاقوامی مرکز ہے۔ایف بی آر کو اپنی مجموعی آمدنی کا پچاس فیصد سے زائد حصہ کراچی سے ملتا ہے۔

اسی طرح حکومت سندھ کا 90 فیصد سے زائد جی ڈی پی اسی نگر سے وابستہ ہے۔ پاکستان میں ہر سال 60 تا 70 فیصد سامان کی نقل و حمل کراچی بندرگاہ کے ذریعے ہوتی ہے۔ دنیا کے دیگر صنعتی وتجارتی شہروں کے برعکس کراچی کی خصوصیت یہ ہے کہ بڑا سستا شہر ہے۔ اس غریب دوست دیس میں ایک مفلس بھی پیٹ بھر کر روٹی کھالیتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ کراچی وطن کے کونے کونے سے آنے والے پاکستانیوں کو پالتا ہے مگر اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں۔حالیہ بارشوں سے یہ مثل درست ثابت ہوئی۔

کراچی جیسے شہر کی اہمیت افغانستان، ازبکستان، نیپال، قازقستان اور دیگر چوالیس ممالک کے باشندوں سے پوچھیے جہاں کوئی بندرگاہ نہیں۔ وہاں کے لوگ پڑوسی ملکوں کی بندرگاہوں سے اپنا مال منگوانے پر مجبور ہیں جو انہیں مہنگا پڑتا ہے۔ اسی طرح جن ممالک میں بندرگاہیں ہیں، وہاں کے حکمران انہیں بہت سنبھال کر رکھتے ہیں۔ بندرگاہ کی ترقی کے لیے منصوبے بناتے اور اسے ہر لحاظ سے بہترین حالت میں رکھتے ہیں۔ کراچی میں تو مگر الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔

خصوصاً پچھلے دس بارہ سال میں حکمرانوں نے شہر قائد سے جیسا ظالمانہ سلوک کیا ہے، ایسا تو کوئی غیروں سے بھی نہیں برتتا ۔شہر قائد کی ایک منفرد بات یہ ہے کہ تاریخ پر نگاہ دوڑائیے تو معلوم ہوتا ہے، بحیرہ عرب کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر پر آباد اس شہر کا رنگ و روپ نکھارنے میں بعض شخصیات نے نمایاں کردار ادا کیا۔انہی کی کوششوں کے سبب مچھیروں کی معمولی بستی بیسویں صدی میں روشنیوں کا شہر اور کاسموپولٹین نگر بن گئی۔آج یہ شہر فرض شناس اور نیک نیت نئے مسیحاؤں کی تلاش میں ہے، وہی اس شہر کا حلیہ اور صورت وہیئت بدل سکتے ہیں۔

قائداعظم محمد علی جناحؒ کی روح تو اپنے آبائی شہر کی حالت زار دیکھ کر غم و غصّے سے تڑپتی ہوگی۔ یقیناً ان کے وہم و گمان میں نہیں ہوگا کہ آنے والی حکومتیں پاکستان کے سب سے بڑے معاشی و صنعتی شہر کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی۔

افسوس، اپنے سیاسی و مالی مفادات کی تکمیل کے لیے ایک ہنستے بستے نگر کو اجاڑ دیا گیا۔کراچی شروع سے مسائلستان کا گڑھ نہیں بلکہ صاف ستھرا اور امن پسند شہر تھا۔ یہ پرانی بات نہیں، محض چالیس سال قبل تک شہر کی سڑکیں دھوئی جاتی تھیں تاکہ وہ صاف ستھری رہیں۔ آج تو صرف بارش ہی ان سڑکوں پر برستی ہے، عام دنوں میں تو وہ ایک قطرہ پانی کو ترس جاتی ہیں۔

ماہرین اثریات کا کہنا ہے کہ پچاس ساٹھ ہزار سال قبل کراچی کے قرب و جوار میں واقع پہاڑیوں پر شکار اور نباتات ڈھونڈ کر زندگی بیتانے والے قدیم انسان رہتے تھے۔ انہوں نے اس علاقے کو پہلے پہل آباد کیا۔ بعدازاں یہ مقام مچھیروں کی آماج گاہ بن گیا۔ اندرون ہندوستان سے آنے والے تاجروں نے اسے بندرگاہ کی شکل دی۔وہ اپنا مال یہاں سے عرب ممالک بھجواتے تھے۔

326 قبل مسیح میں ہندوستان آئے یونانی فاتح، اسکندر اعظم نے دریائے جہلم کے کنارے مقیم ہوکر اپنے کارندوں سے ایک بحری بیڑا تیار کرایا۔ اس بحری بیڑے کا سربراہ جنرل نیا خوش تھا۔ یہ بحری بیڑا دریائے جہلم اور پھردریائے سندھ میں سفر کرتے ہوئے ’’کروکولا‘‘ نامی ایک بندرگاہ پہنچا جو بحیرہ عرب پر واقع تھی۔ دور جدید کے ماہرین اثریات اسے کراچی قرار دیتے ہیں۔ گویا سوا دو ہزار سال قبل کراچی چھوٹی موٹی بندرگاہ بن چکی تھی۔

اس بندرگاہ سے ہندوستان کے تاجر اپنا سامان مشرق وسطیٰ بھجواتے تھے جبکہ عرب تاجر اپنا مال لاتے ہوں گے۔لیکن صدیوں تک یہ تجارت معمولی رہی۔انقلاب 1842ء میں آیا جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے جرنیل چارلس نیپئر نے سندھ پر قبضہ کیا۔ اس قبضے میں رشوت ستانی کا سب سے بڑا ہاتھ تھا۔ دینے والے انگریز تھے اور لینے والے غدار مسلمان، یوں ان کی ملی بھگت سے سندھ پر اسلامی حکومت ختم ہوئی۔ میر جعفر اور میر صادق کی طرح سندھ میں بھی برطانوی کمپنی کو لالچی اور خودغرض مسلمان مل گئے جنہوں نے اپنی ہی حکومت مٹانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاریخ اسلام میں ایسے غدار جابجا نظر آتے ہیں۔

اجنبی بھلا کر گیا!

1843ء میں چارلس نیپئر پہلا گورنر سندھ مقرر ہوا۔ وہ جرنیل ہی نہیں قابل منتظم  بھی تھا۔ اس کی دوراندیش نگاہوں نے دیکھ لیا کہ آنے والے وقت میں ہندوستان میں مقیم برطانوی و ہندوستانی تاجر بذریعہ بندرگاہ کراچی مشرق وسطیٰ اور یورپ تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ نہ صرف بندرگاہ بلکہ شہر کی تعمیر و ترقی میں سرگرم ہوگیا۔

اسی نے کراچی کو سندھ کا صدر مقام بنایا۔ نیپئر کمپنی کے مفادات کی تکمیل کررہا تھا،اس کی سعی سے بہرحال کراچی کا بھی بھلا ہوا۔ نیپئر نے بندرگاہ وسیع کرائی۔ وہاں نئی گودیاں بنائیں۔ نیز ایک پل بناکر کیماڑی کو کراچی سے منسلک کردیا۔ منوڑہ پر لائٹ ہاؤس تعمیر کرایا۔ ان تمام سرگرمیوں کا مقصد یہ تھا کہ کراچی ہندوستانی و برطانوی تجارکی توجہ کھینچ لے۔

نیپئر نے پھر بندرگاہ جانے کے لیے پختہ سڑکیں بنوائیں جن میں بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) کو شہرت ملی۔ اسی نے کنٹونمنٹ کا علاقہ بنوایا اور محکمہ پولیس قائم کیا تاکہ شہر میں قانون کا نفاذ ہو۔ پانی کی ضرورت پوری کرنے کی خاطر دریائے ملیر سے پانی کی فراہمی کا آغاز کیا۔ نیز گندے اور بارشی پانی کی نکاسی کے لیے نالیوں اور نالوں کا نظام متعارف کرایا۔ یوں اپنی انتظامی سرگرمیوں سے چارلیس نیپئر نے ایک معمولی ساحلی بستی کو عظیم شہر بننے کے لازوال سفر پر گامزن کردیا۔تب تک شہر میں چون ہزار افراد آباد ہوچکے تھے۔

تیسرا گورنر سندھ، سرہنری بارٹل فریئر بھی اپنے نو سالہ طویل دورمیں کراچی کی خدمت کرتا رہا۔ اس نے بندرگاہ کو مزید وسیع کردیا۔ سرکاری تعمیر کرائیں۔ سکول اور ہسپتال بنوائے۔ صوبے میں زراعت کی ترقی کے لیے نہریں کھودیں۔ غرض وہ بھی کراچی کا مسیحا ثابت ہوا جس کی یادگار، فریئر ہال آج بھی شہر میں محفوظ ہے۔انگریز تاجروں نے مگر لوٹ مار کی خاطر ہندوستان پر قبضہ کیاتھا۔

اسی باعث ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائرکٹروں کی کوشش ہوتی کہ ہندوستانی علاقوں میں ایسے منتظم مقرر کیے جائیں جو ان کے مفادات کی تکمیل کر سکیں۔تاہم شر سے کبھی کبھی خیر بھی جنم لیتا ہے۔رفتہ رفتہ پنجاب و سندھ سے کپاس، گندم، چاول اور دیگر زرعی اشیا کراچی کے راستے برطانیہ جانے لگیں۔ جلد یہ شہر تجارت کا مرکز بن کر پھلنے پھولنے لگا۔ ہندوستان کے کئی علاقوںسے مہاجرین کراچی آکر آباد ہوئے۔ ایک ایسے ہی کاٹھیاواری مہاجر گھرانے میں 1876ء میں قائداعظم ؒ نے جنم لیا۔ تب تک شہر کی آبادی ایک لاکھ پہنچ چکی تھی۔ انگریز حاکم اپنے مفادات کی خاطر شہر میں امن و امان چاہتے تھے تاکہ معاشی سرگرمیاں متاثر نہ ہوسکیں۔

اسی لیے انہوں نے اہل شہر کی فلاح و بہبود کے لیے کئی کام کیے۔ مثلاً وسیع و عریض سڑکیں بنوائیں۔ پارک تعمیر کرائے، مارکیٹیں بنائیں اور چڑیا گھر جیسے تفریحی مراکز بھی۔ انہوں نے ہی نکاسی آب کا اولیّں نظام بھی تشکیل دیا۔ولایتی حکمرانوں نے اس نظام کے ذریعے پورے شہر میں چھوٹے بڑے نالوں کا جال بچھا دیا۔ ہر محلے کے گھروں سے نالیاں گندا پانی قریبی نالے تک پہنچا دیتیں۔ وہ نالہ پھر بڑے نالے میں جاگرتا۔ بڑا نالہ گندا پانی دریائے لیاری یا دریائے ملیر تک لے جاتا۔ وہاں سے پانی بحیرہ عرب میں جاگرتا۔ یہ نکاسی آب کا موثر نظام تھا۔ جب بھی شہر میں بارش ہوتی تو سارا پانی منٹوں میں گلیوں و سڑکوں سے نکل جاتا اور وہ صاف ستھری ہوجاتیں۔

عوام دوست مئیر

بلدیہ کراچی کی بنیاد 1853ء میں رکھی گئی۔ اس کے ارکان مگر کئی سال تک انگریز ہی ہوتے۔ آخر 1911ء میں الیکشن کرانے کی روایت پڑی۔ اسی سال سندھ کی معروف تجارتی، کاروباری اور سیاسی شخصیت سیٹھ ہرچند رائے وشن داس کو پہلا منتخب میئر کراچی بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔وہ بے غرض، بے تعصب اور عوام دوست رہنما تھے۔ انہوں نے بھی شہر قائد کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار بخوبی ادا کیا اور کراچی کے محسنین میں اپنا نام رقم کراگئے۔

ان کا دور گیارہ سال (1911ء تا 1921ء) محیط رہا اور اسی دوران تین اہم کام انجام پائے۔ اول ان کی مساعی جمیلہ سے 1913ء میں کراچی میں بجلی آگئی جس سے تجارتی و کاروباری سرگرمیوں کو بہت فروغ حاصل ہوا۔ دوم انہوں نے تارکول سے پکی سڑکیں بنائیں اور ان کے ساتھ فٹ پاتھ بھی بنوائے۔

سوم انہوں نے دریائے لیاری کا بہاؤ شہر سے باہر منتقل کرادیا۔ اس طرح نئی بستیوں کی تعمیر کے لیے مزید زمین میسر آئی۔سیٹھ وشن داس نے 1896ء میں کراچی میں ایک پریس قائم کیا تھا۔ اگلے سال پریس سے اردو ترجمے کے ساتھ ایک قرآن پاک شائع کیا گیا۔ انھوں نے کراچی میں مقیم ہر مسلمان کو یہ قرآن تحفتاً دیا۔ حتیٰ کہ ہندوستان بھر سے جو حاجی کراچی آتے تھے، انہیں بھی عرصہ دراز تک یہ قرآن پاک تحفتاًدیا جاتا رہا۔

کراچی کے دوسرے میئر غلام علی چھاگلا بھی معروف کاروباری شخصیت تھے۔ وہ صرف ایک سال اپنے عہدے پر فائز رہے۔ اسی لیے انہیں زیادہ کام کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔ مگر انہوں نے سندھ میں مسلم لیگ کو مقبول بنانے میں حصہ لیا۔ نیز ان کے بیٹے، احمد نے پاکستان کے قومی ترانے کی دھن بناکر تاریخ میں اپنا نام امر کردیا۔ انہوں نے دھن کا کوئی معاوضہ نہیں لیا اور اسے قوم کو بطور تحفہ عطا کیا۔

غلام علی چھاگلا کے بعد جمشید نسروان جی بارہ سال ( 1922ء تا 1934ء) میئر کراچی رہے۔ وہ بھی اپنے پیش روؤں کی طرح سیاست کو کمائی نہیں خدمت انسانیت کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔انھوں نے کراچی میں نئی سڑکیں بنوائیں۔

اسکول اور اسپتال تعمیر کرائے۔ناداروں کے لیے سرکاری رہائش گاہیں بنوائیں جہاں انھیں مفت خوراک ملتی۔حتی کہ معذور اور بیمار جانوروں کی دیکھ بھال کے مراکز بنائے۔شہر میں میلاد النبیﷺ کے جلوس نکلتے یا محرم کی محفلیں منعقد ہوتیں تو غیر مسلم ہونے کے باوجود ان میں خوشی سے شریک ہوتے۔عوام کی بھلائی کے لیے جمشید نسروان جی طاقتور انگریز شاہی سے بھی بھڑ گئے۔تب بھی کراچی میں پانی نایاب تھا۔لہذا انھوں نے یہ قانون بنایا کہ اب شہر میں جو سرکاری عمارت تعمیر ہوئی،وہ کل لاگت میں سے 7فیصد رقم بطور ’’پانی ٹیکس‘‘بلدیہ کو ادا کرے گی۔

انہی دنوں چیف کورٹ(موجودہ ہائی کورٹ)کی عمارت تعمیر ہوئی جس پہ تیس لاکھ روپے لاگت آئی۔یہ بڑی رقم تھی،اس لیے کورٹ کی انگریز انتظامیہ نے سات فیصد رقم(اکیس ہزار روپے)بلدیہ کو دینے سے انکار کر دیا۔جمشید نسروان جی نے شروع میں قانونی نوٹس بھجوائے۔بات نہ بنی تو ان کے حکم پر کورٹ کا پانی بند کر دیا گیا۔کورٹ کی انگریز انتظامیہ تو دم بخود رہ گئی۔اس نے پانی کی سپلائی جاری کرنے کے لیے مئیر کراچی پہ دباؤ ڈالا مگر ان کا مطالبہ تھا کہ پہلے عوام کا حصّہ دیاجائے۔آخر دہلی کی مرکزی حکومت کو ایک انگریز افسر کراچی بھیجنا پڑا جس نے گفت وشنید سے مسئلہ حل کیا۔

1915ء تک کراچی ایشیا میں اناج برآمد کرنے والی سب سے بڑی بندرگاہ بن گئی۔ تب شہر بین الاقوامی مرکز بھی بن چکا تھا۔ وہاں ہر قومیت، مذہب اور نسل کے لوگ آباد تھے اور سبھی مل جل کر رہتے۔ اس دوران شہر پھیلتا چلاگیا۔ وہاں عسکری و انتظامی عمارتیں اور تنصیبات کثرت سے تعمیر ہوئیں۔ آزادی کے وقت 1947ء میں کراچی چار لاکھ نفوس کا نگر بن چکا تھا۔ حکومت پاکستان نے اسی شہر کو اپنا دارالحکومت بنایا۔ تب اگلے چند برس میں بہ لحاظ آبادی کراچی انقلابی تبدیلیوں سے گزرا۔ دراصل بھارت سے لاکھوں مسلمان ہجرت کرکے کراچی چلے آئے۔ اسی باعث شہری آبادی صرف چار سال میں دس لاکھ تک پہنچ گئی۔

بعد ازاں، دارالحکومت اسلام آباد چلا گیا مگر شہر قائد میں مہاجرین کی آمد جاری رہی کیونکہ یہ کاروباری، مالیاتی اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز بن کر ابھرنے لگا۔ پاکستان کے کونے کونے سے روزگار کے متلاشی کراچی کا رخ کرنے لگے۔ چناں چہ 1971ء میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا تو شہر میں تقریباً تیس لاکھ انسان بس چکے تھے۔

لیاری کا مرد ِمجاہد

نو برس بعد راقم والدین کے ہمراہ لاہور سے کراچی آبسا۔ تب شہر قائد کی آبادی اکیاون لاکھ تھی۔ میرا لڑکپن اور نوجوانی کراچی ہی میں بسر ہوئی اور چالیس سال پرانا کراچی مجھے خوب یاد ہے۔ شہر پہنچ کر ہم بچوں کو لمبی چوڑی اور صاف ستھری سڑکیں دیکھ کر حیرت ہوئی ۔

نیو کراچی کو چھوڑ کر بیشتر محلوں کی گلیاں بھی اچھی خاصی کشادہ تھیں۔ اسی کشادگی کے باعث نصف کروڑ آبادی رکھنے کے باوجود کراچی پہنچ کر یہ احساس نہ ہوتا کہ وہاں لوگ زیادہ ہیں ۔اسے دیکھ کر تنگی نہیں فراونی اور وسعت محسوس ہوتی۔ میں نے صبح سویرے چند بار مشاہدہ کیا کہ بلدیہ کراچی کے ٹرک بڑے بڑے پائپوں کی مدد سے سڑکیں دھورہے ہیں۔ تب عبدالستار افغانی مرحوم میئر کراچی بن چکے تھے۔ وہ ایک فعال شخصیت اور عوام کی فلاح و بہبود میں سرگرم رہنے والے عوامی رہنما تھے۔

عبدالستار افغانی کا تعلق غریب گھرانے سے تھا۔ لیاری میں رہتے اور جوتوں کی ایک دکان میں کام کرتے تھے۔ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوکر فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لینے لگے۔ 1979ء میں کئی سال بعد بلدیاتی الیکشن منعقد ہوئے۔ علاقے کا الیکشن جیت کر کونسلر بن گئے۔ جماعت اسلامی نے انہیں میئر کے انتخاب میں کھڑا کردیا۔ ان کا مقابلہ امرا کے نمائندے سے تھا مگر وہ ایک ووٹ کی اکثریت سے یہ کڑا الیکشن جیت گئے۔مرحوم پھر 1987ء تک میئر کراچی رہے۔

حکومت نے انہیں ایک عمدہ مکان الاٹ کیا تھا مگر وہ لیاری والے چھوٹے سے گھر ہی میں مقیم رہے۔ چند برس بعد حکومت نے ڈیفنس میں 500 گز کا پلاٹ دیا تو اسے بھی لینے سے انکار کردیا۔ وہ اپنی خدمات کے عوض مادی اشیا نہیں چاہتے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں انہیں اجر کی تلاش تھی۔ان کے دور میں سیوریج کا نظام بہتر بنایا گیا۔کئی کچی آبادیاں تسلیم کر لی گئیں اور سڑکوں کی تعمیر ومرمت کے جامع منصوبے مکمل ہوئے۔پارکوں کی حالت بہت بہتر ہوئی۔

مجھے یاد ہے، پانی تب بھی کراچی میں کمیاب تھا۔ لیاری اور نیوکراچی جیسے پسماندہ علاقوں میں تو مزید برا حال تھا۔ عبدالستار افغانی نے کوششیں کیں کہ اہل کراچی کو پانی زیادہ فراہم کیا جائے اور اس معاملے میں بھی خود کو ترجیح نہ دی۔ یہی وجہ ہے وہ اکثر صبح اٹھ کر بیٹوں کے ساتھ محلے کے ہینڈپمپ جاتے اور پیپوں میں پانی بھر کر گھر لاتے۔جب کراچی واٹر بورڈ کے سربراہ کو یہ خبر ملی کہ میئر تک پانی ہینڈپمپ سے بھرنے پر مجبور ہیں تو اس نے پانی سے بھرا ایک ٹرک ان کے گھر بھجوادیا۔ عبدالستار افغانی نے ٹرک ڈرائیور سے پوچھا ’’کیا تم نے لیاری میں دیگر گھروں کو بھی پانی فراہم کیا ہے؟‘‘ ڈرائیور نے نفی میں سر ہلایا تو میئر نے ٹرک کا اپنی لینے سے انکار کردیا اور کہا ’’جب میرے علاقے کے ہر باسی کو پانی مل جائے گا تبھی میں یہ ٹرک قبول کروں گا۔‘‘ غرض کراچی نے ایسے بے غرض اور سادہ مزاج عوامی رہنما بھی دیکھے ہیں۔اہل کراچی کے مفاد کی خاطر ہی مرحوم نے اقتدار چھوڑ دیا مگر عوام کو دھوکا نہیں دیا۔

واقعہ یہ ہے کہ عبدالستار افغانی چاہتے تھے،کراچی میں موٹر وہیل ٹیکس اور پراپرٹی ٹیکس اکھٹا کرنے کا اختیار بلدیہ کو مل جائے۔یوں بلدیہ کی آمدن میں اضافہ ہوتا اور عوام کی فلاح وبہبود کے مزید منصوبے تشکیل پاجاتے۔مگر وزیر اعلی ،غوث علی شاہ کی حکومت نے نہ صرف ٹیکس جمع کرنے کا اختیار بلدیاتی حکومتوں کو دینے سے انکار کیا بلکہ معاملے کو انا کا مسئلہ بنا لیا۔

چناں چہ فروری 1987ء میں سندھ حکومت نے عبدالستار افغانی کو عہدہِ مئیر سے ہٹا کر بلدیاتی کونسل بھی توڑ دی ۔کہا جاتا ہے،نئے بلدیاتی الیکشن میں جماعت اسلامی کو شکست دینے کے لیے وزیر اعلی نے ایک لسانی جماعت کی جیت کی خاطر پوری سرکاری مشینری استعمال کی تھی۔بلدیاتی الیکشن دھاندلی سے جیت کر اس لسانی جماعت کو پھر کراچی و حیدرآباد میں قدم جمانے کا موقع مل گیا۔

عروج سے زوال تک

کراچی منتقل ہونے سے قبل والد صاحب نے بتایا تھا کہ اس شہر کی شامیں بہت خوشگوار موسم رکھتی اور راتیں بتیوں سے جگ مگ کرتی ہیں۔ کراچی پہنچے تو ایسا ہی سماں پایا۔ وسیع و عریض سڑکیں جن پر اکثر جگہ ٹریفک کم ہوتا۔ صرف صدر جاتے تو وہاں رش دیکھنے کو ملتا۔ گرمیوں میں شام کو ٹھنڈی ہوا چلتی جس سے ماحول پُر لطف ہوجاتا۔ ہم لڑکے بالے میدان میں کرکٹ یا ہاکی کھیلتے۔ اکثر علاقوں میں درخت اور سبزہ اپنی بہار دکھلاتے۔ مسلسل ہوا چلنے سے فضا دھوئیں اور مٹی سے پاک رہتی۔ بلدیہ کا عملہ پارکوں میں باقاعدگی سے پودوں اور بیل بوٹوں کو پانی دیتا۔ شام کو بن کباب کھانا اور سوپ پینا دوستوں کی من پسند تفریح تھی۔شہر میں نکاسی آب کا جامع نظام موجود تھا۔

اس زمانے میں سیوریج کے زیر زمین پائپ بچھانے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ نالیوں اور نالوں کی کثرت کے باعث بارش کا پانی چند گھنٹوں میں نکل جاتا۔ کراچی میں کھلے قطعہ زمین بکثرت تھے۔ اس لیے بقیہ پانی زمین میں جذب ہوجاتا۔کراچی میں نقل و حمل کا بہترین نظام بھی بہت بھایا۔ لاہور میں تادیر سواری کا انتظار کرنا پڑتا تھا۔ شہر قائد پہنچے تو وہاں قدم قدم پر بس، منی بس اور ویگن رواں دواں دیکھی۔ ٹرانسپورٹ اتنی زیادہ تھی کہ شہری کراچی کے کونے کونے تک پہنچ جاتا۔ کرائے بھی لاہور کی نسبت کم اور واجبی تھے۔

بسوں کے کنڈیکٹر اپنی مخصوص آوازوں اور تیز چلت پھرت کے سبب مرکز توجہ ٹھہرے۔شہر قائد ہی میں نان نہاری پہلی مرتبہ مرچوں سے سوں سوں کرتے کھائی۔ لاہور میں یہ کھابا بہت کم دستیاب تھا۔ مگر کراچی میں نہاری ہر جگہ مل جاتی ۔ سفید روٹی بھی وہیں دیکھی ورنہ لاہور میں سادہ روٹی کا رواج تھا۔ کرش، ببل اپ اور ایپل سدرا نامی بوتلوں کے منفرد ذائقے ابھی تک دماغی خلیوں میں محفوظ ہیں۔

شہر قائد میں سنگین مسائل سامنے آنے کا آغاز انیس سو نوے کے عشرے سے ہوا۔تب آبادی بڑھنے سے مختلف معاشی،سیاسی اور معاشرتی اختلافات نے جنم لیا اور کراچی کی حالت بگڑنے لگی۔نالوں پہ کچی آبادیاں بن گئیں۔کرپٹ افسروں نے وہاں پختہ عمارتیں تک بنوا ڈالیں۔اُدھر کوڑا کرکٹ اٹھانے کا نظام رفتہ رفتہ ختم ہو گیا۔کئی نالوں کے خاتمے اور بقیہ میں کوڑے کی کثرت نے گندے اور بارشی پانی کے نکاس میں رکاوٹیں پیدا کر دیں۔اس دوران کراچی کو نعمت اللہ خان اور مصطفی کمال کے روپ میں دو مسیحا مئیر ضرور ملے۔انھوں نے کراچی کا انتظام بہتر بنانے کی بھرپور کوششیں کیں جس سے معاشی ومعاشرتی طور پہ بہتری آئی مگر وہ شہر کا زوال نہیں روک سکے۔

جوڑ توڑ کی سیاست نے بھی کراچی تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔خدا خدا کرکے اب پی ٹی آئی حکومت نے کراچی کا انفراسٹکچر درست کرنے کی خاطر ’’گیارہ سو ارب روپے‘‘کا پلان پیش کیا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا وزیراعظم شہر قائد کے لیے نئے مسیحا ثابت ہو سکیں گے؟اگر وہ اپنے دور میں کراچی کا انفراسٹرکچر بہتر بنانے میں کامیاب رہے تو اس تبدیلی سے شہر ہی نہیں خصوصاً پورے پاکستان کی معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے۔ مخالفین کا تو دعوی ہے کہ یہ پلان بھی پی ٹی آئی حکومت کا ایک اور ہوائی قلعہ یا سبز باغ ہے مگر ہمیں بھلائی کی اُمید رکھنی چاہیے۔کسی سیانے نے کہا ہے:’’دیکھو،مایوسی و غم نہیں امیدوں کو اپنے نشان ِراہ بناؤ تاکہ مستقبل بہتر اور عمدہ بنا سکو۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔