جب پولیس نے قائداعظم کو گرفتار کر لیا

سید عاصم محمود  اتوار 13 ستمبر 2020
بانی ِپاکستان کی زندگی پہ لکھی منفرد کتاب سے ماخوذ سبق آموز واقعات فوٹو : فائل

بانی ِپاکستان کی زندگی پہ لکھی منفرد کتاب سے ماخوذ سبق آموز واقعات فوٹو : فائل

انگلستان میں تعلیم پاتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناحؒ کبھی کبھی دوستوں کے ساتھ برطانوی شہروں کی سیر کرنے بھی جاتے تھے۔

ایک بار انہوں نے ہندوستان میں اپنے احباب کو بتایا کہ ایک دن وہ دوستوں کے ہمراہ لندن سے باہر واقع ایک مقام گئے۔ وہاں کیمبرج، آکسفورڈ اور دیگر برطانوی یونیورسٹیوں کے طلبہ کے مابین کشتی دوڑ کا مقابلہ ہورہا تھا۔ غالباً یہ مقابلہ آکسفورڈ کے ساتھ بہنے والے دریا میں منعقد ہوا ہوگا۔مقابلے کے بعد سبھی دوست طلبہ کے ایسے گروہ میں جاپھنسے جو ہلڑ بازی اور موج مستی کررہا تھا۔ انہیں ایک گلی میں کسی کی ہتھ گاڑی مل گئی۔

دوست یکے بعد دیگرے ہتھ گاڑی چلاتے اس پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔راستے میں  پولیس نے انہیں  ہلہ گلہ کرنے والے لڑکے سمجھ کر گرفتار کرلیا۔ گرفتار شدگان میں قائداعظم بھی شامل تھے۔ معاملہ  سنگین نہیں تھا، اس لیے سچائی سامنے آئی تو سبھی لڑکوں کو تنبیہہ دینے کے بعد چھوڑ دیا گیا۔

قائداعظم کی زندگی میں یہ پہلا اور آخری عمل تھا جو قانون شکنی کے دائرے میں آتا ہے اگرچہ وہ تب بھی براہ راست اس میں ملوث نہیں تھے۔ مگر یہ کوئی خاص جرم نہ تھا، اسی باعث پولیس نے وارننگ دے کر انہیں رہا کردیا۔ کانگریسی لیڈروں اور قائداعظم کے مابین ایک بہت بڑا فرق یہ تھا کہ وہ جان بوجھ کر قانون شکنی کرتے اور مرضی سے جیل جاتے تھے۔

وہاں وہ بہترین کلاس لے کر آرام سے رہتے اور بقول قائداعظم کے بیٹھ کر ادیبانہ کتب تحریر کرتے کیونکہ انہیں وقت مل جاتا تھا۔ جبکہ قائداعظم نے ہمیشہ کسی قسم کی قانون شکنی کرنے سے پرہیز کیا اور آئین و قانون کے مطابق عمل کرنے کو ترجیع دی۔

٭٭

قائداعظم کی زندگی کے اس انوکھے اور یادگار واقعے کا ذکر حال ہی میں طبع ہونے والی ضخیم کتاب ’’میرکارواں ‘‘ میں موجود ہے۔ اس کتاب میں بانی پاکستان کی حیات کا ہر گوشہ بڑی خوبصورتی سے سمٹ آیا ہے۔ اس کو ’’انسائیکلو پیڈیا قائداعظم‘‘ کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔

اس منفرد تصنیف کے لکھاری ‘میاں محمد افضل جانے پہچانے لکھاری ہیں۔ سیکرٹری حکومت پنجاب کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہونے۔ تب سے گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تصنیف و تالیف میں مصروف ہیں۔ آپ کی کتب ’’یہ باتیں بھی قرآن میں ہیں‘‘، ’’اعلائے کلمتہ الحق کی روایت اسلام میں‘‘، ’’سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک‘‘ اور ’’قابوس نامہ‘‘ قارئین سے داد و تحسین حاصل کر چکیں۔ ’’میر کارواں‘‘ آ پ کی تازہ ترین کاوش ہے۔ یہ سات برس کی طویل محنت شاقہ سے وجود میں آئی۔

غیروں کے علاوہ اپنوں نے بھی قائداعظم سے بے بنیاد باتیں اور جعلی واقعات منسوب کر دیئے ہیں۔ اس کتاب میں قومی دلائل اور مستند شہادتوں کے ذریعے ان باتوں کا ابطال کیا گیا ہے۔

یہ کتاب کی ایک بڑی خوبی ہے۔ دوم مصنف نے رواں دواں اور شستہ نثر میں بانی پاکستان کی حیات و خدمات کو بیان کیا ہے۔ قاری ایک بار پڑھنے لگے تو کتاب ختم کر کے ہی دم لیتا ہے۔ یہ قائداعظم کی شخصیت‘ کردار اور خدمات کو کما حقہ انداز میں نئی نسل کے سامنے لاتی ہے۔ اس منفرد سوانح حیات سے مزید سبق آموز واقعات پیش خد مت ہیں۔

جب قائد اداکار بنتے رہ گئے

19 مارچ 1947ء کی بات ہے۔ بمبٔی کے تاج محل ہوٹل میں پارسی کمیونٹی نے ایک تقریب منعقد کی۔ اس میں قائداعظم بھی مدعو تھے۔ تقریب میں ایک ہندوستانی سفارت کار‘ ملک واحد ناکا بھی شریک ہوئے۔ قائداعظم خوشگوار موڈ میں تھے۔ اسی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک واحد نے قائد سے پوچھا: ’’ مسٹر جناح! کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے لندن میںاسٹیج پر اداکاری کی تھی؟‘‘

قائداعظم نے سکون سے جواب دیا: ’’میں لندن میں شیکسپئیر کے ڈراموں کے مکالمے دوستوں کو بڑے شوق سے سناتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں مکالمے بڑی خوبی سے ادا کرتا ہوں۔ جب میںنے بیرسٹری کر لی تو کچھ دوست مجھے ایک ڈرامہ کمپنی کے مینجر کے پاس لے گئے۔ اس نے مجھے کہا‘ اسٹیج پر کھڑے ہو کر شیکسپئیر کے کچھ مکالمے پڑھ کر سناؤ۔میں اسٹیج پر چڑھا اور مکالمے بول دیئے۔

مینجر اور اس کی بیوی بہت متاثر ہوئے۔انہوں نے فورامجھے ملازمت کی پیش کش کر دی۔ میںخوشی سے پھولے نہ سمایا۔ گھر آ کر میں نے والد کو خط لکھا کہ وہ مجھے اداکاری کرنے کی اجازت دے دیں۔میں نے یہ بھی لکھا کہ وکالت کے پیسے میں کامیابی خاصی دیر سے ملتی ہے۔ جبکہ اسٹیج کے کام سے مجھے فوراِ یافت ہو گی۔ اس طرح میں خود کفیل ہو جاؤں گا اور آپ (والد) کو رقم نہیںبجھوانی پڑے گی۔

’’میرے والدنے جوابی خط میںمجھے اداکاری کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے لمبا چوڑا خط لکھا۔ دیگر باتوں کے علاوہ خط میں ایک جملہ ایسا تھا جو میرے دل کی گہرائی میں اتر گیا۔ اس کی وجہ سے مجھے اپنا ارادہ تبدیل کرنا پڑا۔ جملہ یہ تھا:’’تم اپنے خاندان سے غداری مت کرو۔‘‘میں اگلے دن ڈراما کمپنی کے مینجر کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ میں اسٹیج پر اداکاری کو اپنا کیریئر نہیں بنا سکتا۔ کمپنی کے مینجر ہی نہیں مالکان کو بھی حیرت ہوئی۔

ان کا خیال تھا کہ میں ایک عمدہ اسٹیج ایکٹر بن سکتا ہوں۔ انہوں نے مجھے روکنے کی بہت کوشش کی مگر میں پکا فیصلہ کر چکا تھا کہ اداکاری نہیں کروں گا۔کمپنی سے طے شدہ شرائط کے مطابق مجھے کام چھوڑنے سے قبل تین ماہ کا نوٹس دینا تھا۔ لیکن تمہیںپتا ہے‘ وہ انگریز تھے۔ کہنے لگے‘ اچھا آپ اسٹیج ایکٹر نہیں بننا چاہتے تو ہم آپ کو خواہش کے خلاف آپ کوتین ماہ باندھ کر کیوں رکھیں؟ ہم آپ کو ابھی فارغ کرتے ہیں۔ آپ گھر جا سکتے ہیں۔ لہٰذا میرا اسٹیج اداکاری کا کیریئر چند ہفتے ہی محدود رہا اور بہت مختصر تھا۔‘‘

 کوئی غیرقانونی کام نہیں کرا سکتا

گورنر جنرل پاکستان ‘ قائداعظم کے سیکورٹی افسر‘ ایف ڈی ہنسوٹیا راوی ہیں۔ ایک بار شام کے وقت ایک بوڑھی عورت کباب لے کر گورنر جنرل ہاؤس آئی۔ گیٹ پر مامور سکیورٹی افسر کو بتایا کہ وہ گورنر جنرل کی رشتے میں چاچی ہیں۔

اور وہ کباب بنا کر لائی ہیں جنہیں محمد علی جب بچہ تھا‘ تو بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ایف ڈی ہنسوٹیا نے ایک چٹ پر بوڑھی عورت اور اس کے کبابوں کے بارے میں لکھا اور قائداعظم کو بھجوادیا۔ قائد نے جواب دیا کہ وہ اس سے ملاقات نہیں کر سکتے۔عورت واپس چلی گئی۔

اگلے روز فاطمہ جناح کی موجودگی میں قائد نے ہنسوئیا سے کہا: ’’گورنر جنرل کی حیثیت سے اب میرااصول بن چکا کہ اگر میرا کوئی رشتے دار دفتر میں مجھ سے ملنے آیا تو میں اس سے ملاقات نہیں کروں گا۔ ایسی ملاقاتوں سے رشتے دار عموماً ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ میں مانتا ہوں کہ وہ میرے رشتے دار ہیں۔ لیکن وہ اکثر مجھ سے ناجائز فرمائشیں کرتے ہیں۔

اسی لئے میں ان سے ملنا پسند نہیں کرتا۔‘‘قائداعظم کے اے ڈی سی‘ جنرل گل حسن راوی ہیں کہ ایک بار ان کا بھائی‘ احمد علی قائدسے ملنے بمبی سے کراچی آیا تھا۔ مگر قائداعظم نے  ملاقات نہیں کی۔ دراصل بانی پاکستان نے کبھی کسی خونی رشتے کو اپنی کمزوری نہیں بنایا۔ بطور گورنر جنرل وہ سیاہ سفید کے مالک تھے مگر انہوں نے رشتے دار تو کیا کسی دوست کو بھی کسی چیز سے نہیں نوازا۔ اگر یہی پالیسی آنے والے پاکستانی حکمرانی اختیار کر لیتے تو پاکستان مسائلستان نہ بنتا۔

گھوڑا پسند کرنے کی وجہ

قائداعظم کو بچپن سے گھوڑا پسند تھا۔ ان کے والد کے اصطبل میں گھوڑے موجود تھے۔ اسی لیے انہوں نے جلد گھڑ سواری سیکھ لی ۔ بعد میں قائد جب کبھی تفریحی دوروں پر جاتے تو گھڑسواری سے ضرور لطف اندوز ہوتے۔ قائدکو گھوڑے اس لیے پسند تھے کہ یہ جانور سینہ تانے ،سراونچا کیے، سیدھا چلتا ہے۔ درخت بھی اسی لیے پسند تھے کہ وہ اوپر کی طرف جاتے ہیں۔

یہی حال میناروں اور گیندوں کا ہے جن کی عظمت آسمان سے باتیں کرتی ہے۔ قائداعظم کی زندگی کا اصول تھا کہ صرف مستقبل پرنگاہ رکھیں اور سرہمیشہ بلند رہیں‘ چیڑ کے تناور درخت کی طرح جسے طوفان اکھاڑ تو دیتا ہے‘ کبھی جھکا نہیں پاتا۔

اپنے آپ پر انحصار

قائداعظم نے بچپن ہی میں کسی کے سہارے کے بغیر زندگی بسر کر لینا سیکھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے‘ بیمار ہوتے تو کسی کو اپنی تکلیف نہ بتاتے۔ ذاتی کام خود کرتے۔ حتیٰ کہ چشمہ گر جاتا تو دوسروں کو اٹھانے نہ دیتے۔ ایک مرتبہ اسمبلی میں کسی نکتے پر تقریر کر رہے تھے۔

کچھ کاغذات سامنے رکھے تھے جنہیں پڑھنے کے لئے ایک آنکھ کا چشمہ (اکا) لگا رکھا تھا۔دوران خطاب اچانک چشمہ زمین پر گر گیا۔لوگوں نے سوچا کہ جھک کر اٹھالیں گے۔ مگر نہیں‘ انہوں نے چشمہ فرش پر ہی رہنے دیا۔ ایک اور چشمہ جیب سے نکالا‘ آنکھ پر لگایا ا ور تقریر جاری رکھی۔ اپنے آپ  پر انحصار کرنے کی عادت بہت پختہ ہو چکی تھی۔

اجنبی بوڑھا انگریز دوست بن گیا

قائداعظم نومبر1892ء میں کاروبار کی جدید تربیت حاصل کرنے بمبئی سے ایک بحری جہاز پر لندن روانہ ہوئے۔ دوران سفر ایک بوڑھا انگریز سولہ سالہ ہندوستانی نوجوان کا دوست بن گیا۔ اس  کی خود اعتمادی اور وجاہت نے اسے بہت متاثر کیا۔

قائد نے اس سے لندن کے بارے میں مفید معلومات حاصل کیں۔ جب جہاز مصر کی بندرگاہ پورٹ سعید پر رکا تو بوڑھے نے قائد کو نصیحت کی کہ اپنا  بٹوہ سنبھال کر رکھنا۔ یہاں جیب کترے ہوتے ہیں۔قائد دن  بھر پورٹ سعید کی گلیوں میں گھومتے رہے۔ شام کو انہوں نے ا پنے تجربات اور تاثرات سے بوڑھے انگریز کو آگاہ کیا۔

یہ بھی بتایا کہ ان کا بٹوہ پیسے  ہونے کے باوجود محفوظ رہا۔ گویا اسی بات کو قائد نے بطور چیلنج لیا تھا۔بوڑھے نے نوجوان کو شاباش دیتے ہوئے کہا: ’’زندگی میں ہر چیز کے بارے میں احتیاط کرنا بہتر ہے۔‘‘ ہم دیکھتے ہیں کہ قائداعظم عملی زندگی میں آنے کے بعد سیاسی میدان‘ گفتگو‘ تقریروں‘ مذاکرات اور طرز عمل میں ہمیشہ محتاط رہے۔ جبکہ ہندو اور گاندھی سمیت پوری کانگریسی قیادت عام طور پر غیر محتاط اور عاقبت نااندیش واقع ہوئی تھی۔

فرانس کی بندرگاہ‘ مارسلیز تک قائداعظم اور بوڑھے انگریز کا ساتھ رہا۔ اترتے وقت اس نے قائد کو لندن میں اپنا پتا دیا اور کہا کہ مجھ سے ملتے رہنا۔ چنانچہ اگلے چار برس کے دوران وہ بوڑھا جب بھی ہندوستان سے اپنے وطن(لندن) آتا‘ تو  دبلے پتلے مگر باوقار جناح کو اپنے ہاں کھانے پر ضرور مدعو کرتا۔ اس نے اہل خانہ سے بھی قائد کو ملوایا۔ بوڑھا نوجوان ہندوستانی کے اعلی ٰ کردار ‘ بلند نگاہی اور گفتگو سے بہت متاثر تھا۔

تنگی ترشی کے دن

لنکن انز سے بیرسٹری کرنے کے بعد قائداعظم 1896ء میں کراچی واپس آگئے۔ انہوں نے کچھ عرصہ آبائی شہر میں گزارا۔ پھر اوائل 1897ء میں بمبئی چلے آئے تاکہ وہاں وکالت شروع کرسکیں۔ بمبئی میں قائد نے تین سال خاصی تنگی ترشی سے گزارے۔ اسی دوران انہیں بہت کم مقدمات ملے۔ پہلے والد اور پھوپھی ان کی مالی مدد کرتے رہے۔ پھر قائد نے قرض لے کر بھی روزمرہ اخراجات پورے کیے۔

ان تین برسوں میں عسرت و غربت کا یہ عالم تھا کہ نوجوان قائد روزانہ اپنی رہائش گاہ (اپالو ہوٹل) سے پیدل چل کر کچہری میں اپنے دفتر جاتے۔ کام ختم ہوتا تو پھر پیدل ہی واپسی کا سفر شروع ہوتا۔ ان کے پاس اتنے پیسے نہ ہوتے کہ کوئی بگھی یا تانگہ کرائے پر لے سکیں۔ وہ صرف اشد ضروریات پر ہی رقم خرچ کرتے تھے۔ گویا شیخ سعدی کے اس قول پر عمل کرتے رہے ’’چوں دخت نیست، خرچ آہستہ ترکن (اگر آمدن نہیں ہورہی تو پھر اپنے اخراجات کم سے کم کردو)۔‘‘

مالی مشکلات کے باوجود قائد ان چند چیزوں پر سمجھوتا (یعنی خرچ میں کمی) نہیں چاہتے تھے جن کا تعلق ان کی شخصیت کے وقار اور بطور وکیل پیسے کی شان سے تھا۔ ایام عسرت میں کوئی شخص ان کی خوش لباسی، رعنائی، مجلسی تعلقات، بمبئی کی اعلیٰ سوسائٹی میں گھومنے، بہترین کلبوں کی رکنیت اور شاہانہ انداز دیکھ لیتا، تو کبھی یقین نہ کرتا کہ قائداعظم کو مالی تنگی کا سامنا ہے۔فاطمہ جناح اپنی کتاب میں لکھتی ہیں ’’یہ نوجوان (قائداعظم) جس کی آنکھ میں اعتماد جھلکتا تھا، عدالتوں کے برآمدوں میں اکثر آتا جاتا اور لوگوں کو یہ تاثر دیتا کہ وہ ایک بڑا قانون داں ہے۔

مایوسیوں اور ناکامیوں کے دور میں بھی وہ دنیا والوں کے سامنے اعتماد کا مظاہرہ کرتا۔ وہ اکثر بمبئی کے بہترین کلبوں میں جاتا اور شہر کے ممتاز افراد کے ہاں تقریبات میں شرکت کرتا۔ جدوجہد کے ان دنوں میں اس کا جن لوگوں سے واسطہ پڑتا، وہ اسے ایک پر عزم نوجوان قرار دیتے لیکن کسی کو علم نہ تھا کہ اس کی جیبیں خالی تھیں۔ بہرحال مجلسی روابط نعمت ثابت ہوئے اور نوجوان کے لیے نئی راہیں کھولنے کا باعث بن گئے۔

٭٭

درج بالا دیگ کے چند دانے ہیں ورنہ ’’میرکارواں‘‘ اس قسم کے دلچسپ اور سبق آموز واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ بڑے سائز کی دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ صفحات کی کل تعداد ’’2477‘‘ ہے۔ آخر میں بہترین اشاریہ ہے۔ حیات قائداعظم کے سلسلے میں یہ کتاب نہایت قیمتی خزینے کی حیثیت رکھتی ہے۔ کتاب حاصل کرنے کا پتا یہ ہے: الفیصل، ناشران و تاجران کتب، غزنی اسٹریٹ، اردو بازار ،لاہور۔ فون نمبر:۔ 042-37230777 ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔