دورہ انگلینڈ: سینئرز نے بھی اپنی اہمیت منوا لی

پروفیسر اعجاز فاروقی  اتوار 13 ستمبر 2020
نوجوان کھلاڑیوں کا پرفارم کرنا خوش آئند ہے، اسی کے ساتھ سینئرز نے بھی اپنی اہمیت منوا لی۔ فوٹو: فائل

نوجوان کھلاڑیوں کا پرفارم کرنا خوش آئند ہے، اسی کے ساتھ سینئرز نے بھی اپنی اہمیت منوا لی۔ فوٹو: فائل

پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ انگلینڈ خوش اسلوبی سے ختم ہو گیا، عموماً وہاں ہر دورے میں کوئی نہ کوئی تنازع تو سامنے آتا ہی ہے مگر شکر ہے اس بار سیریز خوش اسلوبی سے کھیلی گئی۔

دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کا رویہ بہت اچھا رہا، کورونا وائرس کی وجہ سے کئی ماہ میدان سونے رہے، ایسے میں کرکٹ کی واپسی خوش آئند رہی، انگلش شائقین کھیلوں سے بہت محبت کرتے ہیں، ٹیسٹ میچز میں بھی اسٹیڈیمز بھرے ہوتے تھے، البتہ اس بار انھیں عالمی وبا کے سبب آنے کی اجازت نہ تھی،دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں نے اس کا کوئی اثر نہ لیتے ہوئے عمدہ پرفارم کیا۔

ٹیسٹ سیریز کے بعد ٹی ٹوئنٹی میچز بھی ٹی وی پر دیکھ کر شائقین نے بڑا لطف اٹھایا ہوگا، بس موسم نے کافی مزاکرکرا کر دیا جس کی وجہ سے کئی میچز متاثر ہوئے، ہو سکتا ہے کہ اگر تمام میچز ہو جاتے تو پاکستان ٹیم کیلیے نتائج ایسے نہ رہتے، ٹیسٹ سیریز میں ہم پہلا میچ جیتنے کی پوزیشن میں آ گئے تھے مگر بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا جس کا نقصان اٹھانا پڑا اور پھر باقی دونوں میچز ہی ڈرا ہو گئے جس میں موسم کا اہم کردار رہا۔

ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی بارش نے ہی دونوں ٹیموں کا استقبال کیا، پہلا میچ بارش کی نذر ہوا، دوسرے میں ہمیں شکست ہوئی مگر پھر تیسرا ٹی ٹوئنٹی جیت کر سیریز برابرکر دی،ان میچز میں ایک بات سامنے آئی کہ تینوں طرز میں کھیلنے کی وجہ سے شاہین شاہ آفریدی پر کام کا بوجھ بڑھ گیا۔

ٹیم مینجمنٹ کو انھیں درمیان میں کہیں آرام کا موقع دینا چاہیے تھا،محمد عامر کو ٹی ٹوئنٹی میں کھیلتے دیکھنا اچھا لگا مگر انھیں ٹیسٹ کرکٹ میں بھی واپس آنا چاہیے کیونکہ اس میں ہماری بولنگ کو تجربے کی کمی کا سامنا ہے،دوسرے میچ میں بابر اعظم اورفخرزمان نے اچھا آغاز فراہم کیا، بابر ہماری بیٹنگ لائن کے سر کا تاج ہیں، دنیا کے بڑے بڑے کرکٹرز سے ان کی تعریفیں سن کر فخر کا احساس ہوتا ہے، اسی طرح نوجوان حیدر علی نے موقع ملنے پر اپنی صلاحیتیں ثابت کر دیں۔

نوجوان کھلاڑیوں کا پرفارم کرنا خوش آئند ہے، اسی کے ساتھ سینئرز نے بھی اپنی اہمیت منوا لی، محمد حفیظ کو کھیلتے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی 20 سال کا نوجوان ہو حالانکہ وہ 40برس کے ہونے والے ہیں اس کے باوجود ان کی فٹنس قابل رشک ہے، وہاب ریاض نے بھی بولنگ میں اپنی اہمیت منوائی، بولنگ میں شاداب خان کی کارکردگی بہتر رہی، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہ سیریز جیتنی چاہیے تھی مگر دوسرے میچ میں بڑے اسکور کے بعد شکست نے اس کا امکان ختم کر دیا۔

کافی عرصے تک ہماری ٹیم رینکنگ میں پہلی پوزیشن پر رہی مگر اب چوتھے نمبر پر آ چکی ہے، پی سی بی کو سوچنا پڑے گا کہ اس کی وجوہات کیا ہیں، سب سے افسوسناک بات یہ دکھائی دی کہ جس کھلاڑی نے ٹیم کو عروج تک پہنچایا ابتدائی دونوں میچز میں ٹیم مینجمنٹ نے اسے کھلایا ہی نہیں، دورے کے آخری میچ میں سرفراز احمد کو کھیلنے کا موقع ملا تو بیٹنگ کیلیے نہیں بھیجا گیا، کوچ مصباح الحق کو چاہیے کہ وہ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں۔

سب نے نوٹ کیا ہوگا کہ تیسرے میچ کی مشکل صورتحال میں جب نوجوان کپتان بابر اعظم دباؤ کا شکار ہو کر حارث رؤف کو ڈانٹ رہے تھے تو سرفراز نے ہی انھیں سمجھایا کہ بولر کا حوصلہ بڑھاؤ، اس سے پاکستان کو فتح حاصل کرنے میں مدد ملی، آپ کو ٹیم میں تجربے کی بھی ضرورت ہوتی ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ سرفراز کو تینوں ٹی ٹوئنٹی کھلانے چاہیے تھے، اس دورے میں سلیکشن کے حوالے سے بعض غلطیاں دکھائی دیں جیسے ٹیسٹ سیریز میں سہیل خان کو باہربٹھایا گیا حالانکہ انھوں نے 2 پریکٹس میچز میں 5،5 وکٹیں حاصل کی تھیں،سابقہ پرفارمنس پر موجودہ فارم کو اہمیت دیتے تو شاید ٹیم کوئی میچ جیت جاتی۔

سرفراز کے حوالے سے ایک بات اور بتانا چاہوں گا، وہ کراچی آتے ہی میرے نام سے ہونے والے کرکٹ ٹورنامنٹ کا میچ دیکھنے پہنچ گئے، اگلے دن پھر خود کھیلتے ہوئے بھی دکھائی دیے، اس سے ان کی کرکٹ سے محبت ظاہر ہوتی ہے، ان کی ٹیم پاکستان کرکٹ کلب نے ٹائٹل بھی جیت لیا، اس ٹورنامنٹ میں ہم نے کوئی انٹری فیس نہیں رکھی تھی، چیف ایگزیکٹیو پی سی بی وسیم خان بھی ایک دن میچ دیکھنے کیلیے آئے، وہ بھی ایونٹ کے معیار سے خاصے متاثر ہوئے اور کہا تھا کہ مزید ایسے ٹورنامنٹس ہونے چاہئیں، میں اسی طرح کرکٹ کی خدمت کرتا رہوں گا تاکہ پاکستان کو کراچی سے مزید جاوید میانداد، ظہیر عباس، معین خان، راشد لطیف،سرفراز احمد، شاہد آفریدی اور اسد شفیق جیسے کرکٹرز ملیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔