انسان مرد اور حیوان مرد

شیریں حیدر  اتوار 13 ستمبر 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

ہمیشہ سے اللہ تعالی کی مخلوقات کی درجہ بندی یہی سنی تھی کہ اس نے جانداروں کو انسان، حیوان اور نباتات کی صورت میں پیدا کیا ہے۔ انسانوں میں بھی مرد و زن کی درجہ بندی تھی اور نباتات اور حیوانات میں بھی۔

وقت کے ساتھ ساتھ انسانوں میں ایک تیسرے درجے کا علم ہوا ،جس کے بنانے میں، بنانے والے ہی کوئی مصلحت ہے یا ہمارے لیے مقام شکر اور عبرت کہ آپ کے ہاں ایک نارمل بچے کی پیدائش کتنی بڑی نعمت ہے اور ہم جس قدر بھی شکر ادا کریں ، وہ کم ہے ۔ زندگی کے سمندر میں تجربات کے غوطے لگائے تو علم ہوا کہ انسانوں میں تین نہیں بلکہ چار انواع ہیں، عورت، مخنث، انسان مرد اور حیوان مرد۔

آپ بتائیں کہ آپ کے گھر میں اور کوئی عورت ہو نہ ہو… ماں تو ہو گی نا؟ ممکن ہے کہ آپ کی ایک یا کئی بہنیں بھی ہوں گی۔ اس کے بعد خاندان میں کئی عورتیں ہوں گی جن سے آپ کا رشتہ حرمت کا بھی ہو گا اور کئی نامحرم بھی ہوں گی۔ اگر یہ بھی تصور کر لیں کہ آپ کے خاندان میں آپ کی ماں کے علاوہ کوئی اور عورت نہیں ہے تو بھی کبھی نہ کبھی آپ شادی کریں گے اور آپ کی زندگی میں ایک عورت بیوی کے روپ میں آ جائے گی۔ کل کلاں کو آپ کے ہاں بیٹی کی ولادت ہو گی، پوتیاں اور نواسیاں بھی آپ کی زندگی میں آئیں گی۔

یہ نازک نازک کلیاں ، وہ خوبصورت پیاری پیاری تتلیاں آپ کے گرد منڈلاتی ہیں، انھیں آپ سے والہانہ عشق ہوتا ہے، ان کی زندگی کا محور ان کے باپ، پھر بھائی، پھر شوہر اور پھر بیٹے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ان کے پیارے پیارے رشتے ہیں، دادا، نانا، چچا، تایا اور ماموں ، داماد، پوتے اور نواسے، عورت کے اندر ہر ہر رشتے سے محبت کا سمندر موجزن ہوتا ہے، اتنا کہ ہر کسی کو لگتا ہے کہ مجھ سے بڑھ کر اس عورت کو کسی سے محبت نہیں۔

اب آپ بتائیں… آپ کی گود میں کھیلنے والی، آپ کی انگلی پکڑ کر چلنے والی، آپ کے کندھوں پر سوار ہو کر دنیا کو بلندی سے دیکھنے کی خواہش کرنے والی اور آپ کو گھوڑا بنا کر سواری کرنے والی اس معصوم بچی کے قہقہوں اور مسکراہٹوں سے آپ کی زندگی میں کتنی خوب صورتی ہے۔ آپ ایک بیٹے ہیں، بھائی ہیں، شوہر ہیں، باپ ہیں اور کیا کچھ ہیں۔ کیا آپ اپنی ہوس کے ہاتھوں مجبور ہو کر کبھی نو ماہ کی بچی، دو سال، تین سال، چار سال، پانچ سال … جہاں تک بھی جاتے جائیں ، آپ کسی معصوم بچی کو اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بنا سکتے ہیں ؟ اگرہاں، تو بتائیں کہ اس سے آپ کو کیا حظ حاصل ہو گا؟ کیا آپ اپنی باقی زندگی سکون سے گزار سکیں گے، ہر دو صورتوں میں، آپ نے کسی کلی کو مسلا ہو یا کوئی آپ کی کلی کو مسل دے؟

کیا ایسا معاشرہ محفوظ تصور کیا جا سکتا ہے جہاں ہماری چند ماہ کی بچی بھی محفوظ نہ ہو، پہلے پہل کہتے تھے کہ بچیوں کو تنہا باہر نہ بھیجو، کوئی سودا سلف منگوانا ہوتا تھا تو چھوٹے لڑکوں کو دکان تک بھگایا جایا تھا، اب تو وہ دور بھی ختم ہوا۔ اس ملک میں کوئی محفوظ نہیں، نہ کوئی کلی نہ کوئی پھول۔ ہم نے جنس کو ممنوعہ موضوع بنا کر نہ بچوں کو اپنے بچاؤ کی تربیت دی ہے ، نہ انھیں ایسے شکاریوں سے محفوظ رہنے کا سبق۔ کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ بچے بہت معصوم ہوتے ہیں، ہمیں ان کی معصومیت کو ختم نہیں کرنا چاہیے، چاہے کوئی اور ان کی معصومیت ہی نہیں بلکہ ساری زندگی کو تباہ کر دے۔

دنیا کے ہر خطے میں بیہودہ ترین گالیوں کا منبع ہمیشہ عورت ہی رہی ہے۔ اب نیا رجحان آ گیا ہے کہ F والی گالی کو گالی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے پیار سے بھی کہا جاتا ہے اور بالخصوص انگریزی فلموں میں اس لفظ کی اتنی تکرار ہوتی ہے کہ ہمارے چھوٹے بچوں کو چاہے اس کا مطلب معلوم نہیں مگر وہ اسے ایک نارمل سی بات سمجھنے لگے ہیں ۔

میں تو اس قدر خوفزدہ ہو گئی ہوں کہ رات رات بھر نیند نہیں آتی، یہی حال اس ملک میں اس وقت نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کا بھی ہو گا۔ سب کی بیٹیاں، مائیں، بہنیں اور بیویاں اس ملک میں غیر محفوظ ہیں ۔ ہمار ی بیٹیاں اپنی چھوٹی چھوٹی گاڑیوں میں یونیورسٹی جاتی ہیں، کام پر جاتی ہیں، اپنے بچوں کو اسکول اور کالج میں چھوڑتی اور واپس لاتی ہیں، ڈاکٹر ہیں، وقت بے وقت کی ڈیوٹی کرتی ہیں۔ ہم سب کی نیندیں اڑ گئی ہیں کہ ان سب کو تو گھر سے نکلنا ہے، ان کے ساتھ کوئی ایسا نہیں جو انھیں صبح اور شام پک اور ڈراپ دے، ان کے بچوں کو وین، بس اور رکشے پر اسکول اور کالج سے پک اور ڈراپ دلائیں تو ان بچوں کوخطرہ ہے… کیا حل ہے اس مسئلے کا؟

ایسا نہیں کہ دنیا کے اور ملکوں میں ایسے واقعات نہیں ہوتے، مگرکہیں بھی ایسااندھیر نہیں مچا ہوا جیسا کہ ہمارے ملک میں ہے۔ عورت اپنے گھر میں محفوظ ہے نہ اسکول ، کالج، دفتر، گلی ، محلے ، سڑک، گاڑی، اسپتال یا بازار میں۔ ہرطرف شکاری اس پر گھات لگائے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپ مرد ہیں نا تو بتائیں کہ راہ چلتی عورت کے پاس سے گزرتے ہوئے ، جان بوجھ کر اس سے کندھا رگڑ کر گزرنے سے، اسے چھونے سے، اسے چٹکی کاٹ دینے سے آپ کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ اس سے آپ کی کس گھٹیا حس کی تسکین ہوتی ہے؟ مکافات عمل ایک ایسی چیز ہے جو ہوتی ہے تو ہم سمجھتے نہیں۔ اگر آپ کا شکار ہونے والی عورت، بھرے بازار میں اپنی عزت کا تماشہ بننے کے خیال سے خاموش ہوجاتی ہے تو آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ آپ کی بہن اور بیٹی بھی آپ جیسے بیمار ذہن مرد اور حیوان مرد کا شکار بن کر بھی خاموش رہتی ہو گی۔

حکومت کیا کرتی ہے… پولیس کیا کہہ رہی ہے… مجرم پکڑے جاتے ہیں کہ نہیں… عدالتیں کسی کو کیا جواز بنا کر چھوڑتی ہیں، ان سب سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنے بچوں کو لاحق خطرات سے آگاہ کریں، اپنے بچوں کو مرغی کی طرح اپنے پروں کے نیچے چھپا کر رکھیں ۔ مجبوری میں انھیں چھوڑنا پڑے تو ان کے سگے رشتوں کے پاس بھی تنہا نہ چھوڑیں، نہ ہی کسی مرد حتی کہ عورت ملازم کے پاس تنہا چھوڑیں ۔

اپنے بچوں کو ان کے جسم کی پہچان اور حفاظت کی تعلیم انھیں اس وقت سے دینا شروع کر دیں جب وہ ہماری بات کو سمجھنا شروع کر دے۔ انھیں بتائیں کہ کوئی بھی مرد یا عورت ان کے ساتھ کیا غلط کرسکتا ہے، انھیں سمجھائیں کہ وہ کسی کو بھی، ’’کسی کو بھی‘‘ اپنے جسم کو چھونے کی اجازت نہ دیں، کوئی ان کا بوسہ لے یا کوئی ان کے لباس کو اتارنے کی کاوش کرے تو وہ بھاگیں یا چیخیں… مدد کے لیے چلائیں، اس وقت تک جب تک کہ اللہ ان کے پاس کسی کو مددکے لیے بھیج نہ دے۔

ایک فورم پر بات ہو رہی تھی توکسی نے تجویز کیا۔ اس پر بہت سے لوگوں نے اتفاق کیا کہ اپنی حفاظت کے لیے لڑکیوں کو ایسی تربیت دی جانا چاہیے اور انھیں چھوٹے موٹے ہتھیار رکھنے چاہئیں۔ ’’ مگر gun taser کی تو ہمارے ہاں اجازت ہی نہیں، وہ غیر قانونی ہے!‘‘ کسی نے کہا۔ ’’کیا ایسے حالات اور واقعات کے انعقاد کے وقت اس بات کی اہمیت رہ جاتی ہے کہ کیا قانونی ہے اور کیا غیر قانونی؟‘‘

جب کسی کی زندگی پامال ہو رہی ہو، اس کے بچوں کے سامنے اس کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہوں، اسے نوچا اور کھسوٹا جا رہا ہو اور وہ اور اس کے بچے ان کے ہتھیاروں کے سامنے بے بس ہوں تو کیا انھیں حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا دفاع بھی کر سکیں یا ان مجرموں کو وہ عبرت ناک سزا دیں جس کے وہ مستحق ہیں۔

آج تک ماسوائے ضیا الحق کے دور میں زیادتی کے ایک مجرم کے سوا ، زیادتی کے کس مجرم کوایسی عبرت ناک سزا ملی ہے کہ جس کے بعد ایسا سکون ہو جاتا جیسا کہ ضیا دور کے باقی دس سالوں میں رہا تھا؟ قانون کے ترازو کے پلڑے میں بد قسمتی سے جس طرف مجرم کو رکھا جاتا ہے، وہ پلا جالی دار سوراخوں والے چھاننے کی طرح ہے جس میں سے مجرم چھن کر نکل جاتے ہیں۔ یہاں سی سی ٹی وی کیمرے کی واضح فوٹیج کو بھی ناکافی شہادت مانا جاتا ہے۔

اگر کہا جائے کہ زنا بالجبر کے مجرموں کو سزائے موت دی جائے یا سنگسار کیا جائے تو سب سے پہلے کہیں گے کہ وہ لاہور سے گوجرانوالہ، بچوں کے ساتھ اتنی رات گئے کیوں لوٹی، اس نے گاڑی چلانا ہی کیوں سیکھی… مگر اس کا اصل قصور تو یہ ہے کہ وہ عورت کیوں ہے اور پاکستان جیسے ملک میں کیوں رہتی ہے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔