پسِ پردہ ملاقاتیں مگرکب تک؟

تنویر قیصر شاہد  پير 14 ستمبر 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

لیجیے صاحب، ایک اور خلیجی عرب مسلمان ملک، بحرین، بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے ۔ اورکل 15ستمبر2020ہے ۔ کل ہی عالمی تاریخ کا ایک ایسا معاہدہ ہونے جارہا ہے جو عالمِ عرب، عالمِ اسلام اور مشرقِ وسطیٰ کی سیاست و معیشت اور سوچ پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ کل بروز منگل واشنگٹن میں ، امریکی صدر کی ثالثی میں، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں ۔ بحرین بھی اس تقریب میں شریک ہورہا ہے ۔ اس معاہدے پر اسرائیل کی طرف سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے وزیر خارجہ (اور اماراتی ولی عہد کے بھائی) عبداللہ بن  زائد النہیان دستخط کریں گے ۔

اسرائیلی وزیر اعظم، نیتن یاہو، کو اس معاہدے پر دستخط کرنے کی اتنی جلدی اور خوشی ہے کہ اُنہوں نے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے ایک ہفتہ قبل ہی دُنیا کو واشنگٹن پہنچنے کی اپنی یقین دہانی کرواتے ہُوئے کہا تھا:’’ اس معاہدے پر دستخط کرنا میرے لیے فخر اور اعزاز ہوگا۔‘‘ یقیناً نیتن یاہو کے لیے یہ ایک قابلِ فخر اعزاز ہے کہ اسرائیل کو عالمِ عرب میں ایک بڑی سفارتی فتح مل رہی ہے ۔ اس سے قبل اسرائیل عالمِ عرب کے تین بڑے ممالک پر فوجی فتح بھی حاصل کر چکا ہے ۔

دیکھا جائے تو کل واشنگٹن میں ہونے والا معاہدہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی بھی بہت بڑی کامیابی ہے ۔ وہ اس سفارتی کامیابی کے پردے میں دوسری بار امریکی صدارت کا انتخاب جیتنے کا پروگرام بنائے بیٹھے ہیں۔ شاید اسی لیے دل شکستہ فلسطینی رہنما، صائب اریکات، نے کہا ہے : ’’ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینیوں کے خون کی قیمت پر دوسری بار امریکی صدر بننے کی راہ ہموار کررہے ہیں۔‘‘ صائب اریکات نے یہ بھی کہا ہے کہ ’’اب اسرائیلی مصنوعات متحدہ عرب امارات کے بازاروں پر یلغار کرنے والی ہیں ، اماراتی شہریوں کو چاہیے کہ وہ ان اسرائیلی مصنوعات کا مقاطعہ کریں ۔‘‘ غریب بھائی کی استدعا مگر کون سنتا ہے ؟

پچھلے ماہ کے وسط میں متحدہ عرب امارات نے یہ دھماکا خیز اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے جارہا ہے ۔ ایک مہینے کے اندر اندر عالمِ عرب کسقدر بدل گیا ہے ۔ اس ایک ماہ کے دوران کئی دیگر عرب ممالک بھی کسمساتے ہُوئے کہتے سنائی دیے ہیں کہ وہ بھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کے آرزو مند ہیں۔ بحرین نے تو پہل کر لی ہے ۔ اس ایک ماہ کے دوران جنوب مشرقی یورپ کے اکثریتی مسلمان ملک، جمہوریہ کوسووو،نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرلیاہے۔ کوسووو (Kosovo)کے ہمسائے مسیحی ملک، سربیا، نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کررہا ہے۔

اس پر فلسطینیوں نے سخت ناراضی اور امریکا و اسرائیل نے نہایت مسرت کا اظہار کیا ہے۔ اس ایک مہینے کے دوران اسرائیلی خفیہ ایجنسی، موساد، کے چیف (یو سی کوہن) نے یو اے ای کا دَورہ کرلیا ہے۔ اسرائیلی مسافر طیارے بھی متحدہ عرب امارات اُتررہے ہیں۔ عالمِ عرب کے وزرائے خارجہ کی تنظیم نے اکثریتی طور پر اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کی ’’نارملائزیشن‘‘ کی کسی بھی شکل میں مخالفت یا مذمت کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

اگرچہ اس پر فلسطینی قیادت شدید ناراض بھی ہُوئی ہے۔ فلسطینی قیادت اور فلسطینیوں کے جذبات و احساسات کا مگر کسے پاس ہے؟ سب مفادات کا کھیل ہے۔ اسی مفاد کے کھیل میں یہ خبر بھی آئی ہے کہ امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کو اس سال کے امن نوبل انعام کے لیے نامزد کر دیا گیا ہے کہ اُنہوں نے اسرائیل اور یو اے ای (اور اب بحرین) کو باہم ’’دوست‘‘ بنا کر ’’عالمی امن‘‘ کا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے ۔ بائیس برس قبل جب ایک اور امریکی صدر (جمی کارٹر) نے شکست خوردہ مصری صدر انور السادات اور فاتح اسرائیلی وزیر اعظم مناہم بیگن کو باہم بٹھا کر صلح کروائی تھی اور ایک دوسرے کو تسلیم کروایا تھا تو اس کے صلے میں ان دونوں (سادات اور بیگن) کو بھی امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ امن کے نوبل انعام کی ایک اوقات اور حقیقت یہ بھی ہے۔

بعض اطراف سے کہا جارہا ہے : چھپ چھپ کر اسرائیل سے ملنے سے یہی بہتر ہے کہ سب کے سامنے ملا جائے۔سو، اب دواور عرب ممالک (یواے ای اور بحرین) نے بھی اسرائیل سے معانقہ اور مصافحہ کر لیا ہے ۔ ’’نیوزویک‘‘ (اشاعت25 اگست2020) کے ایک مضمون نگار نے انکشاف کیا ہے کہ’’ 2018میں یواے ای نے خفیہ طور پر اسرائیل سے جدید ترین دفاعی سامان خریدا تھا۔

اور اِسی سال ایک اور مشہور عرب ملک (جس کے اسرائیل سے ابھی سفارتی تعلقات نہیں ہیں)کے شہزادے نے اسرائیل سے خفیہ طور پر 250ملین ڈالر کے ایسے جدید دفاعی آلات خریدے تھے جو اس کی آئل تنصیبات پر غیر ملکی حملے کے ریفرنس میں پیشگی خبردار کر سکتے ہیں ۔

مراکش نے بھی خفیہ طور پر اسرائیل سے جدید ڈرون خریدے ہیں ، حالانکہ مراکش نے ابھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے جب دو سال پہلے اومان میں قدم رکھا تو سلطان قابوس نے اُنکا ریڈ کارپٹ استقبال کیا تھا۔‘‘ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، ایوب کارا، آن دی ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ اُردن ، مصر ، ترکی اور اب متحدہ عرب امارات کے علاوہ بھی کئی دیگر عرب ممالک ہم سے کسی نہ کسی شکل میں تعلقات استوار کیے ہُوئے ہیں۔ ایران کس شدت سے اسرائیل کی مخالفت کرتا ہے لیکن عراق ، ایران جنگ میں اِسی ایران نے مبینہ طور پر اسرائیل سے ہتھیار خریدے تھے ۔

ان مثالوں کی موجودگی میں ’’عالمی امن کے خواہاں‘‘ پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ بجائے اس کے کہ اسرائیل سے پسِ پردہ تعلقات رکھے جائیں ، کیوں نہ براہِ راست اسے تسلیم کرکے مصافحے اور معانقے کیے جائیں؟ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے یہی تو کیا ہے۔ ہم پاکستانیوں کے معاملات ذرا مختلف ہیں ۔ ہم دل و جان سے فلسطین کے ساتھ ہیں۔ فلسطینیوں سے ہماری محبت سب پر عیاں ہے۔ اسی لیے اسرائیل کا بھی کہنا ہے کہ ’’پاکستانی، فلسطینیوں سے بڑھ کر فلسطینی ہیں۔‘‘ ذمے داران اسرائیلیوں سے یہ الفاظ ہمارے سابق وزیر خارجہ، خورشید محمود قصوری، نے بھی مبینہ طور پر سُن رکھے ہیں۔

میرے سامنے خورشید محمود قصوری صاحب کی850 صفحات پر مشتمل لکھی گئی معرکہ خیز کتاب پڑی ہے:Neither a Hawk Nor a Dove پانچ سال پہلے یہ کتاب مارکیٹ میں آئی تھی اور تہلکہ مچا دیا تھا۔دیگر کئی انکشافات کے ساتھ جناب خورشید محمود قصوری نے اپنی اس کتاب میں (صفحہ739پر) بڑی تفصیل کے ساتھ یہ انکشاف خیز داستان بھی رقم کی ہے کہ کس طرح اور کن حالات کے تحت ،پاکستان نے بیرونِ پاکستان، براہِ راست اسرائیل سے رابطہ کیا تھا۔یہ بھی ستمبر کی ایک ستمگر شب تھی جب جنرل صدر پرویز مشرف کے دَورِ اقتدار میں وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے پہلی بار، آن دی ریکارڈ، ترکی کے شہر استنبول میں رات کے وقت اسرائیلی وزیر خارجہ سلوان شلوم (Silvan Shalom) سے ملاقات کی تھی۔

اس ملاقات میں قصوری صاحب کے ساتھ ترکی میں پاکستان کے سفیر اور پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے افسر بھی شریک تھے۔ ترکی نے یہ ملاقات کروانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔قصوری صاحب لکھتے ہیں کہ اس ’’تاریخی‘‘ ملاقات کے بارے میں صدر جنرل پرویز مشرف نے پہلے ہی فلسطینی اور سعودی عرب کی اعلیٰ ترین قیادت کو اعتماد میں لے رکھا تھا۔ پاکستانی اور اسرائیلی وزرائے خارجہ نے رات اکٹھے کھانا کھایا اور دوسرے روز ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔