متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین ’’امن‘‘ معاہدہ

ڈاکٹر زمرد اعوان  پير 14 ستمبر 2020
اس معاہدے کی پاکستان سمیت ترکی، ایران اور کئی اسلامی ممالک نے مخالفت کی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

اس معاہدے کی پاکستان سمیت ترکی، ایران اور کئی اسلامی ممالک نے مخالفت کی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 15 ستمبر 2020 کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے مابین ’’تاریخی امن معاہدہ‘‘ پر دستخطی تقریب کا انعقاد کرنے والے ہیں۔ یہ دستاویز جس کو ابراہم معاہدے کا بھی نام دیا گیا، کا اعلان صدر ٹرمپ نے گزشتہ مہینے واشنگٹن میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا۔ مشرقی وسطی میں مصر اور اردن کے بعد اسرائیل کے ساتھ کسی بھی ملک کا یہ تیسرا امن معاہدہ ہے۔ اسرائیل کے ساتھ مصر نے 1979 میں چار، جبکہ اردن نے 1994 میں تین جنگوں کے بعد علاقوں پر قبضے کے تنازعات کو حل کرنے کےلیے امن معاہدات کیے۔ اس کے برعکس متحدہ عرب امارات کی اسرائیل کے ساتھ نہ تو سرحدیں ملتی ہیں اور نہ ہی بالواسطہ تنازعات کی تاریخ ہے۔ ان حالات میں دیکھنا یہ ہے کہ اس معاہدے کے کیا محرکات ہیں اور اس سے خطے کی سیاست اور دہائیوں سے فلسطینیوں کے خلاف رواں اسرائیل کی غیر قانونی و غیر انسانی جارحیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یاد رہے کہ اس سرگرمی میں کہیں بھی فلسطین کا ذکر نہیں آیا۔

اگرچہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین خفیہ رابطے گزشتہ کئی سال سے جاری تھے، لیکن حالیہ معاہدے نے اس کو حتمی شکل کچھ اس طرح سے دی کہ دونوں ممالک نے مختلف سیاسی و معاشی معاملات میں مکمل تعاون کا باقاعدہ فیصلہ کرتے ہوئے مواصلات، تجارت، ٹیکنالوجی، تحفظ، جاسوسی جیسے معاملات سمیت متعدد معاملات میں باقاعدہ مل کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ ان دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ عیاں کرتی ہے کہ موجودہ اماراتی قیادت اپنے آبائو اجداد کے برخلاف شدت پسندی اور انتہائی مفادپرستی کی سیاست کے قائل ہیں۔ اماراتی حکومت ماضی میں شیخ زید بن النہیان کی قیادت میں (جنہوں نے 30سال حکمرانی کی) فلسطین کے موقف کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے اسرائیل سے تعلقات میں اجتناب برتتے رہے۔ لیکن 2018 میں جس طرح متحدہ امارات کی نئی قیادت نے اسرائیل کی وزیر ثقافت و کھیل میری ریگیو (جو فلسطینی قیادت کے خفیہ قتل کی حمایت اور مہاجرین کو اپنے ملک کے لیے کینسر کہتی رہی ہیں) کا نہ صرف پرزور استقبال کیا بلکہ پہلی بار کسی مسلمان سرزمین پر اسرائیل کا ترانہ بھی چلایا۔ اس سے واضح تھا کہ دونوں ممالک میں آنے والے دنوں میں تعلقات کا کیا رخ ہوگا۔

اگر ان دونوں ممالک سے متعلق چند حقائق کا جائزہ لیا جائے تو متحدہ عرب امارات8.5 ملین آبادی کا ملک ہے جس میں 1.5 ملین شہری جبکہ باقی آبادی غیر ملکی ہے۔ ادھر اسرائیل صرف 7 ملین کا ملک ہے۔ دونوں ہی خطے آبادی و رقبے کے لحاظ سے بہت چھوٹے ہیں اور اپنے تحفظ کے معاملے میں بے شمار خدشات رکھتے ہیں۔ اسرائیل امریکا کی معاشی و فوجی امداد لینے والا سب سے بڑا ملک ہے، جس کے بغیر وہ اپنے معاملات حکومت نہیں چلا سکتا، اور نہ ہی اپنی حفاظت کرسکتا ہے۔ اسی طرح عرب امارات امریکا سے فوجی امداد کے بنا خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ اسی لیے ان دونوں ممالک کی خارجہ حکمت عملی کافی حد تک امریکا سے فوجی مدد لینے پر انحصار کرتی ہے۔ اس وقت امریکی صدر ٹرمپ اپنے صدارتی انتخابات کی تیاری کررہے ہیں اور ان حالات میں ان کو مشرقی وسطیٰ میں ایسی حکمت عملی کا اعلان ضروری تھا جو ان کو انتہاپسند سفیدفاموں کی نظر میں کامیاب بنائے۔ دوسری طرف اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اپنے خلاف بدعنوانی کے سنگین الزامات کی وجہ سے حمایت کھو رہے ہیں، اور ان حالات میں دوبارہ کامیابی کےلیے ان کو فلسطین کے گرد مزید گھیرا تنگ کرنے کی اشد ضرورت نظر آرہی ہے۔

لہٰذا اس امن معاہدے کا ہونا ان دونوں کی اندرونی و بیرونی محاذوں پر کامیابی کےلیے بے حد ضروری تھا۔ دوسری طرف اگر متحدہ عرب امارات کا مشرق وسطیٰ میں کاروائیوں کا ذکر کیا جائے تو مجموعی طور پر خطے میں آمریت کی پشت پناہی کرتے ہوئے نظر آنے والا یہ ملک کبھی لیبیا میں جنرل حفتر کو مضبوط کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے، تو کبھی مصر میں محمد مرسی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ ترکی اور سوڈان میں جمہوری حکومتوں کی مخالفت کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ یمن میں سعودی اتحاد کا حصہ بنتے ہوئے حوثیوں کے خلاف کارروائیوں میں بچوں کا ناحق خون بہانے میں حصے دار بھی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نئے نوجوان حکمرانوں نے خطے میں شدت پسندی اور مہم جوئی کو مزید ہوا دی ہے۔

اسرائیل کے ساتھ موجودہ معاہدہ نہ صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرار داد کی خلاف ورزی ہے بلکہ 2002 عرب امن معاہدے کے بھی منافی ہے۔ اس سے اسرائیل کی مغربی سرحد میں غیر قانونی آبادکاری کی راہ مزید ہموار ہوگی، جو دو ریاستی منصوبے کی نفی ہے، اور اس سے علاقے میں بے چینی اور شدت پسندی کو بھی فروغ ملے گا۔

فلسطینیوں کا مزید خون بہے گا اور ان کو اپنے ہی گھروں سے محروم کرنے کی مہم بھی چلتی رہے گی۔ ان حالات میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اس برائے نام ’’امن‘‘ معاہدے نے نہ صرف مسلم امہ کے باہمی تعلقات میں کمزوری کی طرف مزید اشارہ کیا ہے، بلکہ یہ حقیقت بھی عیاں کردی ہے کہ کیسے ان سنجیدہ مسائل کو کچھ حکمران اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کےلیے استعمال کرسکتے ہیں۔ پھر چاہے کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کی بات ہو یا فلسطینوں کا قتل عام۔ سب سے زیادہ تشویشناک تو یہ ہے کہ مسلم امہ کے اپنے ادارے جیسا کہ او آئی سی بھی ان معاملات میں واضح اور جامد موقف لینے سے قاصر ہے۔

اس معاہدے کی جہاں ترکی، ایران سمیت کئی ممالک نے مخالفت کی ہے، وہاں پاکستان بھی اسے فلسطین کے دو ریاستی منصوبے کو کمزور کرنے کی ایک کارروائی سمجھتا ہے۔ حالیہ انٹرویو میں وزیراعظم عمران خان نے فلسطین کے موقف کی باقاعدہ حمایت کی اور اس بات کا برملا اظہار کیا کہ اگر ہم فلسطین کی حمایت نہیں کرتے تو کشمیر کےلیے بین الاقوامی محاذ پر حمایت حاصل کیسے کرسکتے ہیں؟ دوسرا انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چاہے کوئی بھی ملک اسرائیل کو تسلیم کرلے پاکستان نہیں کرے گا، جب تک فلسطین کی آزاد ریاست قائم نہیں ہوجاتی، اس لیے کہ یہ ایک اصولی موقف ہے۔

کیا آنے والے دنوں میں فلسطین کے مسئلے پر مسلم امہ کا کوئی مجموعی جامد ردعمل سامنے آتا ہے یا ہمیشہ کی طرح او آئی سی سمیت دیگر ادارے خاموشی اور بے حسی کی چادر اوڑھے بین الاقوامی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا ہی بنے رہیں گے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔