مائیکرو فنانسنگ کے ذریعے کاشتکاری میں جدت لائی جاسکتی ہے!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 14 ستمبر 2020
 جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور نجی شعبے کی شمولیت کے بغیر زرعی انقلاب ممکن نہیں: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔  فوٹو : فائل

 جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور نجی شعبے کی شمولیت کے بغیر زرعی انقلاب ممکن نہیں: شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : فائل

چھوٹے کسان زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں مگر مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی فلاح کیلئے جہاں حکومت مختلف اقدامات کرتی ہے وہیں مائیکروفنانس ادارے بھی متحرک ہیں جو انہیں چھوٹے اور آسان قرضے فراہم کرتے ہیں۔

ان اداروں کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ’’زراعت کے فروغ میں مائیکروفنانس اداروں کا کردار‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور زرعی ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ملک نعمان احمد لنگڑیال
(صوبائی وزیر زراعت پنجاب )

پنجاب میں 5 ایکڑسے کم زمین رکھنے والے کاشتکاروں کی شرح  90 سے94 فیصد ہے جن کی کمرشل بینک اور مائیکرو فنانس اداروں تک رسائی بہت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بینک کی سخت شرائط ضمانت و دیگر مراحل ہیں جن میں کافی وقت لگتا ہے اور بیشتر کسانوں کیلئے ان شرائط کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ حکومت پنجاب نے کسانوں کے معاشی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ’ای کریڈٹ سکیم‘ متعارف کروائی جو بہترین ہے اور اس سے چھوٹے کسانوں کو فائدہ ہورہا ہے۔

ہم نے اس منصوبے کے تحت گزشتہ 2 برسوں میں 5 ایکڑ سے کم رقبہ رکھنے والے کسانوں میں 34 ارب روپے کے قرضے تقسیم کیے ہیں جو بہت بڑا قدم ہے۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس سال ربیع کی فصل کیلئے کسانوں کو 30 ہزار روپے فی ایکڑ جبکہ خریف کی فصل کیلئے 50 ہزار روپے فی ایکڑ قرض کی سہولت دی جارہی ہے جو ماضی کی نسبت زیادہ رقم ہے۔ 5 ایکٹر زمین سے کم رکھنے والے کسانوں کا ’مارک اپ‘ حکومت خود برداشت کرتی ہے اور اس طرح ہم کسانوں کی حالت بہتر کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ ہم کسانوں کو زرعی شعبے کی ترقی میں کردار ادا کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

اس میں مائیکرو فنانس ادارے ہمارا ٹول ہیں اور ان کی کارکردگی بہترین ہے۔ میرے نزدیک نجی شعبے کے تعاون کے بغیر حکومت کا چلنا خصوصاََ زرعی شعبے میں کامیابی ممکن نہیں ہے ۔ ہم نجی اداروں کو ایمپاور کر رہے ہیں،ان اداروں کا نیٹ ورک اچھا ہے اور عام آدمی تک رسائی بھی زیادہ ہے۔ اس وقت پنجاب حکومت کے ساتھ 3 سے 4 مائیکرو فنانس ادارے منسلک ہیں جو گراس روٹ لیول پر کام کر رہے ہیں۔

کسانوں کی بہتری کیلئے حکومت قصبہ یا یونین کونسل کی سطح پر ایسا نیٹ ورک قائم کرنے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے جس میں کسان اپنی فصل کی گریڈنگ کرسکیں۔اگر کسان اچھی چیز مارکیٹ میں لیجائیں گے تو انہیں اس کی قیمت بھی اچھی ملے گی۔ حکومت چھوٹے کسانوں کی بہتری کے حوالے سے موثر کام کر رہی ہے۔

مجھے امید ہے کہ بہت جلد ہماری زراعت ترقی کی بلندیوں کو چھو رہی ہوگی۔ یہ خوش آئند ہے کہ حکومتی اقدامات کی وجہ سے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ آم کی 78کروڑ روپے کی ایکسپورٹ ہوئی۔ ہم نے آم کی ویلیو ایڈیشن کی، اس کی کوالٹی اور پیکنگ کے معیار کو بہتر بنایا جس سے بہت فائدہ ہوا۔ کسانوں کو ویلیو ایڈیشن کی تربیت بھی دی جارہی ہے اور ہم زرعی برآمدات کی بہتری کیلئے مزید اقدامات کر رہے ہیں۔ کپاس کی فصل ملک اور کسان دونوں کی خوشحالی کی ضمانت ہے مگر گزشتہ ادوار میں اسے نظر انداز کیا گیا جس سے بہت نقصان ہوا۔ ہماری حکومت اس پر خصوصی توجہ دے رہی ہے تاکہ عالمی منڈیوں میں دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کیا جاسکے۔

ہمارے سائنسدانوں نے عالمی ماہرین کی مدد کے بغیر مقامی سطح پر بہترین بیج تیار کر لیا ہے جس سے فصل کی پیداوار زیادہ ہوگی جبکہ گلابی سنڈی اور جڑی بوٹیوں کے نقصانات بھی نہیں ہوں گے۔یہ بیج بہت جلد کسانوں کو فراہم کر دیا جائے گا۔ وزیراعظم اور  وزیراعلیٰ پنجاب زراعت کے شعبے میں خصوصی دلچسپی لے رہے ہیں اور اس کی بہتری کیلئے ہدایات بھی جاری کرتے ہیں۔

کوواپریٹیو بینک جوکہ زرعی ترقی کا ضامن اور کسانوں کا سب سے بڑا مددگار تھا گزشتہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے تباہ ہوگیا۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر کوواپریٹیو بینک کو دوبارہ فعال بنایا جا رہا ہے، بہت جلد اس کا صدر تعینات کیا جائے گاا ور یہ بینک موثر اندا زمیں کام کا آغاز کردے گا جس کے بعد کسانوں کی مدد کی جائے گی اور زرعی شعبے کو فروغ دیا جائے گا۔ حکومت زرعی شعبے میں انقلابی اقدامات کر رہی ہے۔ بہت جلد ’کسان کارڈ‘ لایا جارہا ہے جو ڈیجیٹل پاس بک ہوگا۔

اسے پنجاب لینڈ ریکارڈ کے ساتھ لنک کیا جائے گا، اس کارڈ کی ایک حد ہوگی جس کے مطابق کسان فوری قرض لے سکے گا اور اسے کسی قسم کی ضمانت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ حکومت ’ون ونڈو سہولت‘ کے تحت کسانوں کے معاشی مسائل حل کرنے جا رہی ہے جس سے زراعت کے شعبے کو فروغ ملے گا۔

 محمد مرتضیٰ
(سر براہ رورل ڈویلپمنٹ پروگرام)

دیہی علاقوں میں غربت کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور میرے نزدیک مائیکرو فنانس ادارے غربت کے خاتمے کاہتھیار ہیں جن کے ذریعے غربت کی شرح میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ ہمارا ادارہ اور اس جیسے دیگر ادارے اس حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ دیہی علاقوں کا 70 فیصد زرعی زمین ہے جہاں لوگ کاشتکاری کے ذریعے اپنا روزگار کماتے ہیں۔

ان میں سے 95 فیصد کسان 5 ایکڑ سے کم زمین کے مالک ہیں۔ ان کسانوں کے پاس قرض حاصل کرنے کے دو ذرائع ہیں، ایک مقامی لوگوں سے سود پر قرض جبکہ دوسرا آڑھتی نظام ہے جو مشکلات سے بھرپور ہے۔ ایسے کسانوں کے لیے مائیکرو فنانس ادارے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔ جہاں روایتی بنکوں کی پہنچ نہیں ہے یا جن غریب لوگوں کو بینک قرض نہیں دیتے، مائیکروفنانس ادارے ان کی مدد کرتے ہیں۔

اس وقت ہمارے ادارے کی پنجاب کے 20 اضلاع میں 109 برانچز ہیں جو چھوٹے کسانوں کی مائیکرو فنانسنگ کرتی ہیں۔ جن کے پاس زمین ہے اور زراعت کی مہارت بھی مگر ان کے پاس پیسے نہیں ہیں تو ہم ایسے کسانوں کو 50 ہزار سے 5 لاکھ تک کی مائیکروفنانسنگ کرتے ہیں۔ غربت کی رینکنگ میں 0سے20 تک کے کسانوں کو ہم وزیراعظم بلاسود قرضہ سکیم کے تحت قرض دیتے ہیں،اس میں زراعت، لائیو سٹاک و دیگر چھوٹے کام شامل ہیں۔

اس وقت ہمارے ایک لاکھ 50 ہزار ایکٹیو کلائنٹس ہیں جن کو دی گئی رقم کا مجموعی حجم 6 ارب روپے ہے۔ ہماری 93 فیصد کلائنٹس خواتین ہیں،جن میں زراعت، لائیوسٹاک اور انٹرپرائزز سے منسلک خواتین شامل ہیں۔ہمارا پنجاب مائیکرو فنانس نیٹ ورک بھی ہے جس سے 13 ادارے منسلک ہیں جو پنجاب کے تمام اضلاع میں گراس روٹ لیول پر کام کر رہے ہیں۔ ہم صرف مائیکروفنانسنگ ہی نہیں کرتے بلکہ تربیت بھی کرتے ہیں کہ کس طرح پراڈکٹ کی گریڈنگ، پیکنگ و دیگر طریقوں سے ویلیو ایڈیشن کی جاسکتی ہے۔

ہارٹی کلچر، فلوری کلچر و اس طرح کے کاموں کی بھی تربیت دی جاتی ہے اور یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ وہ کس طرح مارکیٹ کے ساتھ جڑ سکتے ہیں۔ ہمارا کپیسٹی بلڈنگ کا ایک الگ ڈیپارٹمنٹ ہے، ہم خواتین کو ان کے گھر کی دیلیز پر تربیت فراہم کرتے ہیں۔ ہمیں ’پی ایس ڈی ایف‘ کا تعاون بھی حاصل ہے جس کے تحت خواتین کو کچن اینڈ گارڈننگ، لائیوسٹاک کی ٹریننگ اور فنانسنگ کی جارہی ہے۔ ٹریننگ اور فنانسنگ ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں، اس کے بغیر نقصان کا رسک زیادہ ہے۔ اب تک ہمارا ادارہ 20 اضلاع میں 27ارب روپے کی مائیکروفنانسنگ کرچکا ہے جس سے 7 لاکھ افراد مستفید ہوئے ہیں۔

ہمیں حکومت کی سپورٹ بھی حاصل ہے، اگر حکومت مائیکروفنانس اداروں کے ساتھ مزید تعاون کرے تو صحیح معنوں میں معاشی، سیاسی اور سماجی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریب کسانوں کو بینکوں تک رسائی نہیں ہے۔ ہماری فیلڈ فورسز نیم شہری علاقے میں 60 کلومیٹر جبکہ دیہی علاقوں میں 20 کلومیٹر علاقے میں کام کرتی ہیں۔ گھر گھر جاکر لوگوں کی رہنمائی  ہر ممکن مدد فراہم کی جاتی ہے۔

لوگ زراعت کو روایتی طریقے سے ہی چلا رہے ہیں، اگر انہیں ایگری بزنس کی جانب راغب کیا جائے تو زراعت اور معیشت کی ترقی ممکن ہے۔ اس کے لیے ہم نے ایگری بزنس سپورٹ فنڈ کے ذریعے 7 برس پہلے شعبہ زراعت سے منسلک لوگوں کو گرانٹس دیں ، ٹنل فارمنگ سکھائی اور بتایا کہ اس میں کس طرح ویلیو ایڈیشن کی جاسکتی ہے، کم سے کم زمین سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے لیا جاسکتا ہے۔ قرض کی واپسی کے حوالے سے ہمارے کلائنٹس کی شرح بہترین ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم ان کے شوق اور لگن کو مدنظر رکھتے ہیں اور پھر انہیں تربیت بھی فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں کاروبار میں کامیابی ملتی ہے اور منافع بھی حاصل ہوتا ہے لہٰذا جب انہیں فائدہ ملتا ہے تو وہ ہماری رقم بھی بروقت واپس کر دیتے ہیں۔ ہمارے لوگوں میں مہارت اور توانائی موجود ہے ، اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔

زرعی انقلاب کیلئے روایتی کاشتکاری میں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جدت لانا ہوگی، اس حوالے سے لوگوں کی مدد کی جائے۔ موسمیاتی تبدیلی کسانوں کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے، انہیں موسم کے حوالے سے بروقت انفارمیشن دی جائے۔ فصل کے حوالے سے بھی ان کی رہنمائی کی جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ نجی اداروں کے ساتھ مل کر کسانوں کے مسائل حل کرے اور زراعت کو فروغ دے۔ نوجوان ہمارا سرمایہ ہیں، انہیں زرعی شعبے و لائیوسٹاک میں لاکر ان شعبوںکو فروغ دیا جائے، ان کی تربیت کی جائے اور چھوٹے و آسان قرضے دیے جائیں۔مقامی سطح پر چھوٹی منڈیاں قائم کی جائیں اور نوجوانوں کو ان سے لنک کیا جائے ۔

عائشہ گلزار
(ماہر زراعت )

جی ڈی پی کا 45 فیصد سے زائد حصہ زراعت اور اس سے منسلک شعبوں سے حاصل ہوتا ہے۔ ملک کی ایک بڑی تعداد کا تعلق شعبہ زراعت سے ہے جن میں سے 90 فیصد ایسے کسان ہیں جن کے پاس 5 ایکڑ یا اس سے کم زمین ہے۔ یہ ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں لہٰذا انہیں سہولت اور آسانی دینا انتہائی اہم ہے۔ اس حوالے سے پالیسی سازی کرے، فنانس، مائیکروفنانس، ٹیکنالوجی و زراعت کے ادارے، کسانوں کو سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں اور انہیںآگاہی بھی دیں۔

اس وقت پنجاب میں 5 ہزار سے کم ایکسٹینشن ورکرز کام کر رہے ہیں، یہ بڑی تعداد ہے مگر ناکافی ہے، ان کیلئے تمام کسانوں تک پہنچنا اور آگاہی دینا ممکن نہیں ہے لہٰذا ہر کسان تک پہنچنے کیلئے نجی اداروں اور سوشل سیکٹر کا تعاون بہت ضروری ہے۔ گزشتہ 10 برسوں میں شعبہ زراعت میں جدت آئی ہے۔ اس کی وجہ عالمی اداروں کی سپورٹ اور پنجاب حکومت کی زراعت پر توجہ ہے کہ حکومت نے مختلف اداروں کو آپس میں لنک کیا، نئی ٹیکنالوجی آئی جس کا فائدہ شعبہ زراعت کو ہوا۔ ہم نے مختلف اداروں کے ساتھ کام کا آغاز کیا۔

لوگوں کو تربیت دی، کچن گارڈننگ اور ٹنل فارمنگ شروع کروائی، انہیں اچھے بیج، مارکیٹ تک رسائی ممکن بنائی جس سے کافی بہتری آئی ہے۔موٹر وے کے ارد گرد اب ٹنل فارمنگ نظر آتی ہے جسے گزشتہ چند برسوں میں فروغ ملا ہے۔ چھوٹے کسانوں کو اب اس کا احساس ہوا ہے کہ اس میں ان کو فائدہ زیادہ ہے لہٰذا وہ اس طرف راغب ہوئے ہیں اور بہتر معیار کی پراڈکٹس تیار کر رہے ہیں ، مقامی مارکیٹ میں فروخت بھی کر رہے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ویلیو ایڈیشن کس طرح ممکن ہے۔ حکومت ویلیو اپروچ چین کی سوچ لے کر چل رہی ہے، اس میں جتنی کڑیاں ہیں ان میں سرمایہ کاری کو فروغ دیا جائے۔ کسان کو بہتر بیج فراہم کیا جائے، فارم ٹو مارکیٹ لنک کیا جائے اور ویلیو ایڈیشن کی تربیت دی جائے۔

چھوٹے کسانوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ مالی وسائل کا ہے۔ انہیں قرض لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بیشتر کو تو قرض ملتا ہی نہیں کیونکہ وہ بینک کی شرائط پر پورا نہیں اترتے۔ اس کے علاوہ انہیں آگاہی بھی نہیں ہوتی کہ رقم کے حصول کیلئے کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے۔

ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کسانوں کو صرف قرض ہی نہیں دینا بلکہ اس کے استعمال کرنے کے حوالے سے ٹریننگ بھی دینی ہے جس میں بیج کا استعمال، فصل کی حفاظت، اس کی پیکنگ، مقامی مارکیٹ تک رسائی اور عالمی منڈیوں میں ایکسپورٹ و دیگر اہم معاملات شامل ہوں۔ پاکستان میں اعلیٰ معیار کے پھل، سبزیاں و دیگر اشیاء ایکسپورٹ کی جاتی ہیں جن سے بہت زیادہ رقم حاصل ہوتی ہے۔ بی کوالٹی کی جو اشیاء مقامی مارکیٹ میں فروخت کی جاتی ہیں ان کا ریٹ بھی اچھا ملتا ہے لہٰذا زرعی کاروبار میں منافع ہی منافع ہے۔ پاکستان میں خواتین اچار بنا کر مشرق وسطیٰ میں ایکسپورٹ کرتی ہیں مگر پیکنگ اچھی نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کا اچار زیادہ ایکسپورٹ ہوتا ہے لہٰذا ہمیں ویلیو ایڈیشن پر توجہ دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔