پولیس کے سوا دیگر اداروں کا گرفتاریاں کرنا خلاف قانون ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ

ویب ڈیسک  پير 14 ستمبر 2020
وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اسلام آباد میں مسنگ پرسنز کے بڑھتے کیسز کا نوٹس لے لیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اسلام آباد میں مسنگ پرسنز کے بڑھتے کیسز کا نوٹس لے لیا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ پولیس کے سوا دیگر اداروں کا گرفتاریاں کرنا خلاف قانون ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ شہری کی عدم بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر پیش ہوئے اور بتایا کہ عبدالقدوس گھر واپس پہنچ گیا ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز شاہ عدالتی حکم کے باوجود پیش نہ ہوئے۔

سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو جسٹس محسن اختر کیانی نے ان سے کہا کہ پولیس رپورٹ کے مطابق 50 سے زائد لاپتہ افراد کے کیسز اسلام آباد میں درج ہو چکے، لاپتہ افراد کا معاملہ وزیراعظم کے سامنے رکھیں اور دیکھیں یہ لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال ہے یا کچھ اور ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شہری لاپتہ کیس میں وزیر داخلہ اعجاز شاہ اسلام آباد ہائی کورٹ طلب

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ نے اسلام آباد میں مسنگ پرسنز کے بڑھتے کیسز کا نوٹس لے لیا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ وزیراعظم اور وفاقی کابینہ کو مجموعی صورتحال سے آگاہ کریں ، اسلام آباد میں یہ حال ہے تو باقی ملک میں کیا ہوگا؟ عدالتیں لوگوں کو خود جا کر بازیاب نہیں کروا سکتیں، پولیس کو ہی احکامات جاری کرنے ہیں، قانون کے مطابق گرفتاری کا اختیار صرف پولیس کے پاس ہے، افسوسناک بات یہ ہے کہ دیگر ادارے بھی گرفتاریاں کر رہے ہیں جو خلاف قانون ہے، شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے ، کوئی ادارہ حقوق کے تحفظ میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو یہ وفاقی حکومت کا مس کنڈکٹ ہوگا۔

پولیس، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ قانون میں صرف پولیس، سی ٹی ڈی اور ایف آئی اے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں آتے ہیں، قانون کے مطابق صرف یہ تین ادارے ہی کارروائی کر سکتے ہیں باقی ایجنسیاں نہیں کر سکتیں، یہ کیس تو ابھی حل ہو گیا ابھی ہمارے پاس مزید پچاس کیسز موجود ہیں۔

عدالت نے لاپتہ عبدالقدوس کی بازیابی پر درخواست نمٹا دی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔